امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک غزہ کی پٹی سے مزید فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کریں۔ دوسری جانب انھوں نے اسرائیل کو 2,000 پاؤنڈ وزنی بم بھیجنے پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ خزانہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خیال کا خیرمقدم کیا کہ غزہ کے فلسطینی باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کر کے غزہ کو ’’مکمل خالی‘‘ کردیا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فلسطینی حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ پر جشن منا رہے ہیں اور اپنے گھروں میں واپسی کے منتظر ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا سیاسی کیریئر ایک کٹر اسرائیل کے حامی کے طور پر بنایا ہے۔ ٹرمپ پہلے بھی غزہ کے مستقبل کے بارے میں غیر روایتی خیالات پیش کرچکے ہیں جب کہ حماس نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ وہ اس امریکی تجویز کو ناکام بنا دے گی، جب کہ عرب ممالک پر مشتمل علاقائی تنظیم عرب لیگ نے اپنے بیان میں کہا ’’ اپنی سرزمین سے جبری بے دخلی کو صرف نسلی خاتمہ ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
درحقیقت فلسطینیوں کے لیے غزہ سے ان کی منتقلی کی کوئی بھی کوشش انھیں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے دوران ہونے والی بڑے پیمانے پر نقل مکانی، جسے عرب دنیا ’’ نکبہ‘‘ یا تباہی کہتی ہے، کی تلخ یادیں دلاتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی یہ تجویز ایسے وقت میں آئی ہے جب امریکا نے مصر اور اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مصر پہلے ہی غزہ سے فلسطینیوں کو سینائی صحرا میں منتقل کرنے کی کسی بھی ’’ زبردستی نقل مکانی‘‘ کی کوشش کے خلاف خبردار کرچکا ہے اور اتوار کو قاہرہ نے فلسطینیوں کے عارضی یا طویل مدتی نقل مکانی کی مذمت کرتے ہوئے اس ’’ ناقابل تنسیخ حقوق‘‘ کی خلاف ورزی کو مسترد کر دیا۔
اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی جنگ پندرہ ماہ تک جاری رکھی۔ اس کی فوج نے ناقابل تصور طور پر کمزور آبادی پر اپنے مسلسل حملوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کے تقریباً ہر پہلو کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے حراستی کیمپ کو زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک، پانی، ادویات، صفائی، بجلی اور ایندھن سے محروم کردیا ہے اور اس کے شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے عمل نے غزہ کے باشندوں کی اکثریت کو بے گھر کردیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی منصوبے کے مطابق غزہ کو اسرائیلی آبادکاروں سے آباد کیا جائے گا، غزہ آباد کاری منصوبے کو جنرلز پلان کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے تحت مغربی کنارے میں بھی یہودی بستیوں کو مزید توسیع دی جائے گی۔ اسرائیل کا مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی کا علاقہ مزید مختصر کرنے کا منصوبہ ہے، اس سلسلے میں مغربی کنارے کی 19 فلسطینی بستیوں کو گرایا جا چکا ہے۔ کسی بھی اسرائیلی فوجی مقصد کے لیے غزہ کی مکمل تباہی کی ضرورت نہیں ہے۔
46 ہزار فلسطینیوں کو قتل کرنا اور بہت سے لوگوں کو زخمی کرنا کوئی واضح تزویراتی مقصد نہیں ہے۔ نہ ہی غزہ کی یونیورسٹیوں، اسکولوں، اسپتالوں اور محلوں کی منظم اور بڑے پیمانے پر تباہی کوئی عسکری کامیابی ہے، اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ اور الحاق کرنا چاہتا ہے تو غالباً وہ بلاسٹ زون کے علاوہ کچھ اورکا بھی مالک ہونا چاہے گا،اور اب جب کہ اسرائیل کا طرز عمل غیر معقول دکھائی دیتا ہے، اسی طرح اس کے قریبی اتحادی امریکا کی غیر مشروط حمایت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل کی نسل کشی کی واشنگٹن کی آہنی حمایت نے اس کی بین الاقوامی اتھارٹی کو ختم کردیا ہے اور بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے کا دعویٰ خاک میں ملا دیا ہے۔
بہت سے لوگ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے پیدا ہونے والے ذلت کے احساس کو اسرائیل کی غیر معقولیت قرار دیتے ہیں۔ اس انتہائی جذباتیت نے اسرائیلی سیاست کی دائیں جانب تبدیلی کو تیزکیا، جو اب کھلے عام نسل کشی کے کارناموں کا جشن مناتی ہے۔ ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کی بیان بازی ختم ہوگئی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس کے بجائے ’’مکمل فتح‘‘ کا وعدہ کیا۔ تاریخ اس بات کا اشارہ دے سکتی ہے کہ اس جملے سے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
یہ جرمن لفظ Endsieg سے بہت مماثلت رکھتا ہے، جس کا لفظی ترجمہ ’’حتمی فتح‘‘ ہے اور نازی حکومت کے نسل کشی کے عزائم کے مکمل احساس کو بیان کیا ہے۔ یقینی طور پر، امریکا اسرائیل کا ایک قابل اعتماد اتحادی اور مدد گار ہے، لیکن، کچھ عرصہ پہلے تک، اس نے اپنے بے شمار بین الاقوامی تحفظات کی وجہ سے خود کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک یکساں ثالث کے طور پر مارکیٹ کرنے میں جو احتیاط اختیار کی ہوئی تھی وہ احتیاط ختم ہوگئی۔ امریکا نے واضح طور پر غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن مہم کے ہر قدم کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ اس نے صرف بیان بازی کی حد تک ’’تحمل‘‘ یا ’’جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ واشنگٹن کی وفاداری حیران کن ہے۔
جب سے حملہ شروع ہوا ہے، سابق صدر جوبائیڈن نے ہر موڑ پر اسرائیل کی مکمل حمایت کی ہے، لیکن امریکا اور اسرائیل الگ الگ معاشرے ہیں جن کے مفادات اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ یقیناً جنگ کے بارے میں امریکی اور اسرائیلی موقف میں کم از کم تھوڑا فرق ہونا چاہیے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل لابی محض امریکی خارجہ پالیسی سازی کا حکم دے؟ امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (اے آئی پی اے سی) جیسے گروپ بلاشبہ طاقتور ہیں، لیکن وہ واشنگٹن میں اثر و رسوخ کے لیے دوڑ لگانے والی بہت سی لابیوں میں سے صرف ایک کی نمایندگی کرتے ہیں۔
شاید امریکا غزہ کی ساحلی پٹی سے بالکل دور گیس فیلڈز چاہتا ہے؟ لیکن واشنگٹن کو اس گیس کو حاصل کرنے کے لیے نسل کشی کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ غیر مساوی مذاکرات کے باوجود مکمل طور پر پُرامن چال چلی جائے گی۔درحقیقت، مندرجہ بالا مندرجات میں سے کوئی بھی اس بات کی وضاحت نہیں کرے گا کہ امریکا اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی پشت پناہی کر کے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں اس طرح کی بدنامی کا خطرہ کیوں مول لے رہا ہے۔ تو کیا اسرائیل کی نسل کشی کے جرم کے لیے امریکی حمایت غزہ کے بارے میں بالکل بھی نہیں ہے؟ کیا امریکا محض یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ’’باس‘‘ کون ہے؟حالیہ برسوں میں، کثیر قطبیت کے بارے میں بہت زیادہ بات ہوئی ہے۔
بہت سے تجزیہ کاروں نے ایک ایسی دنیا کی پیش گوئی کی ہے جہاں امریکا کی اب عالمی بالادستی نہیں ہے۔اس چہ میگوئی کے دوران، امریکا کو بالترتیب یوکرین اور شام میں روس کے ساتھ نقصان اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے افغانستان سے فوری طور پر انخلا کیا، جس کے نتیجے میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے۔ مختلف لاطینی امریکی حکومتیں بائیں طرف منتقل ہوگئی ہیں، جس سے امریکا کے اندرکھینچا تانی بڑھ رہی ہے۔
امریکا کا اصل حریف چین عالمی منظر نامے پر اپنا اثر و رسوخ ظاہر کرتا رہا ہے۔ BRICS ایک بین الحکومتی تنظیم جہاں بیجنگ کلیدی کردار ادا کرتا ہے،کیونکہ اس میں ایران، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا اور مصر شامل ہیں۔عوامی جمہوریہ چین نے مشرق وسطیٰ کے اسٹیج پر بھی اپنی نقاب کشائی کی، 2023 میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن ساز کا کردار ادا کیا اور یمن میں دشمنی کو ٹھنڈا کرنے میں سہولت فراہم کی۔ مختصراً، امریکا بیک فٹ پر کھڑا دکھائی دے رہا تھا، جس کی غالب عالمی سپر پاورکے طور پر اس کی پوزیشن تیزی سے متزلزل نظر آرہی ہے۔ غزہ میں، اسے اپنے آپ کو دوبارہ قائم کرنے کا موقع نظر آتا ہے۔ ہمیں غزہ میں امریکی مداخلت کو اسی طرح سمجھنا چاہیے۔
دوسری صورت میں، ہلکے ہتھیاروں سے لیس حماس کے یک طرفہ حملے کے جواب میں امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط کیوں کرے گا؟ یہ ایک غیر محفوظ سپر پاور ہے، اپنی پائیدار برتری ثابت کرنے کے لیے بے چین ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے سب سے بنیادی اصولوں کو بھی نظر انداز کررہا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ اسے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن اس میں سے کوئی بھی بظاہر لامحدود وسائل اور سفارتی مدد کو چیلنج کرنے کے لیے کافی نہیں ہے جو امریکا، اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ BRICS کا مقصد مغربی تسلط کا مقابلہ کرنا ہے۔
اس کے باوجود، چین، اس کا رہنما اور سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود، یورپی یونین جیسی بالادست قوتوں کے اندر کچھ زیادہ جرات مندانہ دکھائی نہیں دیا۔ اس نے خود کو حمایتی بیان بازی اور کچھ سفارتی اقدامات تک محدود کر رکھا ہے، جب کہ روس کو واضح طور پر خاموش کردیا گیا ہے اور بھارت کھلے عام اسرائیل کا حامی ہے۔
BRICS نسل کشی کو روکنے کے لیے بہت کچھ کر سکتا تھا۔ وہ اپنے انتہائی تکلیف دہ لمحے میں غزہ کے لوگوں کی ٹھوس حمایت کے لیے اور بھی بہت کچھ کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔امریکا BRICS کو کاغذی شیر کے طور پر بے نقاب کر رہا ہے۔
جنوبی افریقہ اور ایران کے استثناء کے ساتھ، بلاک ابھی تک وقت کے امتحان پر پورا نہیں اترسکا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا نے اپنا موقف پیش کر دیا ہے۔ یہ اب بھی دنیا کی سپر پاور ہے جب تک کہ BRICS دوسری صورت ثابت نہ کر سکے، اب حالات یہ ہیں کہ اسرائیل دندنا رہا اور اسے روکنے والا کوئی نہیں، جب رکاوٹ ہی کوئی نہیں تو پھر امریکا اور اسرائیل کو کون روک سکتا ہے؟