جوڈیشل کمیشن پر مسلسل اصرار

پی ٹی آئی مسلسل اصرار کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن ہر حال میں بننا چاہیے ورنہ مزید مذاکرات نہیں ہو سکتے


[email protected]

تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن نہ بننے کی صورت میں مذاکرات میں مزید شرکت سے انکار کر دیا ہے جب کہ حکومتی کمیٹی کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہمیں جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حرکتوں پر اعتراض ہے کیونکہ پی ٹی آئی ناقابل اعتماد ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کی کامیابی کے خواہاں ہیں جب کہ پی ٹی آئی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مذاکرات کے سلسلے میں دیے گئے بعض بیانات پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دو خواجاؤں میں بھی مذاکرات پر کچھ تحفظات ہیں ایک مذاکرات کے بارے میں ناامید اور دوسرا مذاکرات کی کامیابی کا خواہاں ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے لیے سیاسی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں وہ بھی مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتے اور وقت گزار رہے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی پہلے بیس جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا انتظار کر رہے تھے، بانی اور پی ٹی آئی نہ جانے کیوں پرامید تھے کہ نئے صدر حلف اٹھاتے ہی پاکستان کو بانی کی رہائی کا کہیں گے مگر حلف برداری میں تو بانی کیا پاکستان کا بھی ذکر نہیں ہوا۔ امریکا کے نئے صدر چار سال بعد اقتدار میں آئے ہیں اور بانی کی طرح غصے اور انتقام میں بھرے بیٹھے ہیں اور ابھی تو وہ اپنے معاملات سنوارنے اور اپنے حامیوں کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنوں کو معافیاں دے رہے ہیں اور اپنے معاملات پر کنٹرول کے بعد انھیں بانی پی ٹی آئی کا خیال آتا ہے یا نہیں ، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

 پی ٹی آئی 26 نومبر پر بھی جوڈیشل کمیشن کے قیام پر بضد ہے اور وہ 9 مئی 2023 کے واقعات کی تحقیقات کا بھی مسلسل مطالبہ کرتی آئی ہے جس پر حکومت کا کہنا ہے کہ9 مئی کے معاملات پر تو ملزموں کو جرم ثابت ہونے پر سزائیں اور بعض ملزموں کو رہا کیا جا چکا ہے اس لیے وقت گزر چکا اب کمیشن بن ہی نہیں سکتا۔

فوجی عدالتوں کا کیس ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت بھی ہے جس کے فیصلے پر ہی فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں کا انحصار ہے کہ فوجی عدالتوں پر کیا فیصلہ آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور ان کی پارٹی پہلے ہی سول عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور حال ہی میں پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید کہہ چکے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور رہنماؤں کے بیانات سے لگتا ہے کہ انھیں عدالتوں پر اعتماد نہیں اور وہ صرف اپنی مرضی کے پسندیدہ فیصلوں کو ہی تسلیم کرے گی اور اگر اعلیٰ عدالتوں سے اس کے خلاف فیصلہ آیا تو وہ اسے ناپسندیدہ فیصلہ قرار دے گی۔

9 مئی پر جوڈیشل کمیشن کے قیام سے حکومت بھی انکار کر چکی ہے جس کے بعد 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن کا قیام اب مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے جس سے حکومت نے انکار نہیں کیا اور کمیشن کے قیام پر پی ٹی آئی مسلسل اصرار کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن ہر حال میں بننا چاہیے ورنہ مزید مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

جوڈیشل کمیشن پر پی ٹی آئی کا بے حد اصرار اور حکومت کی طرف سے اب تک رضامندی ظاہر نہ کرنے سے لگتا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی موقف کمزور اور پی ٹی آئی کا مضبوط ہے۔ حکومتی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عدلیہ میں مبینہ طور پر پی ٹی کے حامی موجود ہیں جن سے حکومت کو خدشات ہیں اور جوڈیشل کمیشن کا قیام حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر بھی ججوں میں اختلافات ہیں اس لیے ممکن ہے کہ حکومت کمیشن کا معاملہ ان ججز کے ہاتھ میں دینا نہیں چاہتی اور جوڈیشل کمیشن پر فیصلہ نہیں کر پا رہی۔

حکومت کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کے معاملے کے اس کے پاس مکمل ثبوت بھی ہیں اور اس دن تاریکی میں فائرنگ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنما ان مبینہ ہلاکتوں پر مختلف بیانات دے چکے ہیں اور نہ اب تک پی ٹی آئی مبینہ فائرنگ سے متاثر ہونے والوں کی تفصیلات اور ثبوت حکومت کو فراہم کر رہی ہے اور صرف منفی پروپیگنڈا کرتی آ رہی ہے اور حکومت کو بدنام کر رہی ہے۔ اگر حکومت کے پاس اپنی بے گناہی کے ثبوت ہیں تو اسے جوڈیشل کمیشن بنا کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے تاکہ پی ٹی آئی کا مطالبہ پورا ہو سکے اور حقائق منظر عام پر آ سکیں اور مذاکرات بھی متاثر نہ ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں