صیہونیت کی الف ب ت اور باوا آدم (قسط چہارم)

اس کے برعکس مشرق میں صدیوں سے پرامن طور پر آباد یہودی اقلیت کو ابتدا میں صیہونیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔


وسعت اللہ خان January 28, 2025

گزشتہ مضمون سے آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بابائے صیہونیت تھیوڈور ہرزل کیسا مستقبل شناس تھا اور اس نے صیہونی نظریے کو عملی شکل دینے کے لیے آخری دن تک کیسی انتھک محنت کی۔وہ اپنے ترکے میں ایک کل وقتی عملیت پسند ٹیم بھی چھوڑ گیا جس نے انیس سو چار میں چوالیس برس کی عمر میں ہرزل کی موت کے چوالیس برس بعد ( انیس سو اڑتالیس ) ہرزل کے خواب کو ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے حقیقت میں بدل ڈالا۔

صیہونیت کی جڑیں دراصل دو ہزار برس سے جلاوطن ہر یہودی گھرانے میں روزانہ دہرائی جانے والی اس دعا میں پوشیدہ ہیں ’’ خدا نے چاہا تو اگلے برس یروشلم میں ‘‘۔یہ دعا نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔

مگر انجیل کے عہد نامہ جدید کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے رومن گورنر کو حضرت عیسی کے خلاف بھڑکا کر انھیں مصلوب کروانے کا گناہ بھی وقت کے یہودی کاہنوں کے سر پر ہے۔ لہٰذا عیسائی دنیا میں بالخصوص یہودیوں کے خلاف من حیث القوم ایک دبی دبی نفرت مسلسل برقرار رہی جسے وقتاً فوقتاً  آگ میں بدلنا اور انھیں بے دخل کرنا روس سے پرتگال تک ہر سلطنت و حکومت عوام کی توجہ دیگر مسائل سے بٹانے کے لیے تاریخی طور پر بطور ہتھیار استعمال کرتی آئی۔

جب کہ مشرق بالخصوص مسلمان دنیا میں مدینہ سے یہودی قبائل کی بے دخلی کے ایک واقعہ کے بعد بغداد کے عباسی ہوں کہ قرطبہ کے اموی یا استنبول کے عثمانی۔ہر دور میں یہودی نہ صرف عمومی طور پر محفوظ و مامون رہے بلکہ انھوں نے عرب اور مسلمان تہذیب کے ہر شعبے بالخصوص نوکر شاہی ، مالیات امورِ خارجہ ، فلسفے ، طب اور سائنس کے میدان میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اسپین سے تو چودہ سو بانوے میں مسلمان اور یہودی ایک ساتھ نکالے گئے اور پھر یہ یہودی مراکش تا استنبول تا ہندوستان آباد ہوئے اور مقامی ثقافت میں رچ بس گئے۔

جب کہ صیہونیت یورپی ( اشکنازی ) یہودیوں کو درپیش مسلسل عدم تحفظ کا ردِ عمل تھا۔جسے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں روسی زار نکولس دوم کی یہود دشمنی پالیسیوں کے سبب تیزی سے پنپنے کا موقع ملا ۔

مگر مشرقی یورپ کے برعکس مغربی یورپ میں انیسویں صدی کے دوسرے وسط میں تعصب اتنا شدید نہیں تھا۔اس دور میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی ، ہالینڈ ، ڈنمارک وغیرہ میں یہودی برادریوں نے روائیتی پیشے ترک کر کے نئے پیشے اپنانے کے ساتھ ساتھ مذہبی راہبوں کے چنگل سے نکلنے کی بھی سنجیدہ کوشش کی اور اس کوشش میں صیہونیت نے ایک راہِ تازہ فراہم کی۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہودی تناسب تیزی سے بڑھنے لگا۔ چنانچہ یورپ کے متوسط اور بالائی طبقات میں بھی ہم پلہ یہودیوں کو قبول کیا جانے لگا۔

مگر جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ نئی ابھرتی یہودی مڈل کلاس ہی صیہونیت کی سب سے پرجوش پرچارک بنی ( جیسا کہ نازی جرمنی اور موجودہ بھارت میں مڈل کلاس ہی نظریاتی انتہاپسندی کا ہراول طبقہ بنی )۔

اس کے برعکس مشرق میں صدیوں سے پرامن طور پر آباد یہودی اقلیت کو ابتدا میں صیہونیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔انھیں بیسویں صدی میں اس جانب یورپی نظریہ سازوں نے دانستہ ہنکالا ( اس بارے میں تفصیلی بات کسی اگلے مضمون میں ہو گی )۔

صیہونی نظریے کی بنیاد ارضِ فلسطین پر یہودیوں کا تاریخی دعوی ہے جب انھیں جبراً دو ہزار برس پہلے یہ سرزمین چھوڑنا پڑی۔ان کی جگہ دیگر برادریاں بستی چلی گئیں اور بازنطینی شکست کے بعد یروشلم کی فتح کے نتیجے میں لگ بھگ چودہ سو برس سے یہ خطہ عرب نژاد برادریوں کا مسکن بنتا چلا گیا۔ مگر صیہونی نظریے کے مطابق یہ زمین خدا نے بنی اسرائیل کو بخشی تھی چنانچہ ان کے بعد یہاں بسنے والے سب غاصب ہیں ۔ان غاصبوں سے خدا کی وعدہ کردہ سرزمین ( دجلہ تا نیل اور دمشق تا حجاز ) واگذار کروا کے سلطنتِ بنی اسرائیل کا جغرافیائی احیا ہی صیہونیت کا حتمی ہدف ہے۔

اس پورے خطے میں بسنے والے ’’ اغیار ‘‘ ہیں چنانچہ ایک خالص یہودی ریاست میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔تاآنکہ وہ درجہِ دوم کے محکوموں کے طور پر رہنے کو تیار ہوں۔( نازیوں کا آریائی نسلی برتری اور ہندوتوا نظریہ بھی کم و بیش یہی ہے )۔

یورپی یہودیوں کی عمومی زبان یادش کہلاتی تھی۔یادش کوئی خالص زبان نہیں بلکہ عبرانی اور مقامی یورپی زبانوں کا آمیزہ ہے جس طرح جنوبی افریقہ کے نسل پرست گوروں کی افریکانر زبان ڈچ اور مقامی بولیوں کا آمیزہ ہے۔

اس کے برعکس مشرق میں آباد یہودی برادریاں مذہبی معاملات میں عبرانی اور روزمرہ معاملات میں عربی ، فارسی اور ترک سے کام لیتی تھیں۔صیہونیوں نے عبرانی کو ایک بین البراعظمی یہودی قومی اتحاد کا استعارہ بنانے کے لیے شعوری طور پر بہت اہم لسانی کام کیا۔

عبرانی کو گزشتہ سو برس میں معبدوں اور علما کے حجروں سے نکال کے قدیم تاریخ اور جدیدیت کے مابین ایک پل بنا کر اس نہج پر پہنچا دیا کہ اسرائیل کے ہر یہودی شہری کے روزمرہ میں عبرانی کا چلن عام ہو گیا۔یوں عبرانی نے صدیوں سے مختلف ثقافتوں میں رہنے کے عادی نووارد یہودی آبادکاروں کو ایک متحدہ قوم کی لڑی میں پرونے میں بنیادی کردار ادا کیا۔عبرانی میں جدید علوم کے تراجم تیزی سے ہوئے اور آج شاید ہی کوئی علمی شاخ ہو جس کی کوئی اہم کتاب یا تحقیق عبرانی میں دستیاب نہ ہو۔

صیہونیوں نے ایک اہم کام یہ کیا کہ ’’ خدا نے چاہا تو اگلے برس یروشلم ‘‘ کے دعائیہ عہد کو ایک سیاسی نظریاتی ہتھیار میں بدل دیا۔چنانچہ یہودی دائیں بازو کا ہو کہ بائیں کا۔کٹر مذہبی ہو کہ سیکولر۔سب نے یہ نعرہ اپنا لیا اور اس نے قوم پرستی کی بنیاد میں سیمنٹ کا کام دیا۔

مگر اہم بنیادی سوال یہ تھا کہ فلسطین جہاں انیسویں صدی کے آخر میں یہودی آبادی ایک فیصد سے بھی کم تھی۔وہاں اکثریت بنے بغیر ایک یہودی ریاست کیسے قائم ہو سکتی ہے ؟ ہرزل نے اٹھارہ سو چھیانوے میں ’’ ایک یہودی ریاست ‘‘ کے نام سے جو کتابچہ لکھا۔اس کے مطابق ، ’’ ہمیں جو بھی علاقہ تفویض ہو گا۔اس میں بڑے پیمانے پر املاک و اراضی خریدنا ہوں گی۔ غریب مقامی آبادی کے لیے ہم اپنی املاک اور اراضی میں روزگاری مواقع محدود کرتے چلے جائیں گے۔تاکہ وہ تنگ آ کر بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں ہجرت پر آمادہ ہو جائیں۔یہ کام بتدریج اور احتیاط سے کرنا ہو گا ‘‘۔

مگر ہرزل اور صیہونیت کا دو رخا چہرہ کچھ فلسطینیوں نے شروع میں ہی بھانپ لیا۔عثمانی یروشلم کے مئیر یوسف الخالدی بھی انھی میں سے تھے۔انھوں نے مارچ اٹھارہ سو ننانوے میں فرانس کے رباعیِ اعظم زدوک کہان کو خط لکھا کہ اگر صیہونی فلسطین میں یورپی یہودیوں کو مستقل بسانے کا سوچ رہے ہیں تو اس کا ردِ عمل عرب قوم پرستی کی شکل میں نکلے گا اور اس معاملے میں مقامی مسلمانوں اور عیسائیوں کا موقف ایک ہی ہو گا۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ یورپی یہودی قیادت اس طرح کی مہم جوئی سے باز رہے۔

زدوک کہان نے یوسف الخالدی کا خط ہرزل کو دکھایا۔ہرزل نے اپنے جوابی خط میں الخالدی کے خدشات دور کرنے کے لیے لکھا کہ اگر یہودی فلسطین میں بستے ہیں تو ان کی صلاحیتوں کا نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ بلکہ مقامی آبادی کو بھی فائدہ ہوگا۔ہمیں احساس ہے کہ غیر یہودی اکثریت میں ہیں۔لہٰذا انھیں کیسے کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے ؟ اگر سلطان عالی مقام ہمیں قبول نہیں کریں گے تو وہ سب جس کی ہمیں ضرورت ہے ہم کہیں اور ڈھونڈھ لیں گے۔‘‘

اور پھر ایسا ہی ہوا۔صیہونی قیادت نے برطانیہ کا دامن پکڑ لیا۔بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ سے جو یہودی فلسطین میں بسنے کے لیے آئے وہ ہرزل کے طے شدہ اصل خاکے کے مطابق مقامی آبادی سے میل جول بڑھانے کے بجائے قلعہ بند بستیاں ( کیبوتز ) قائم کرنے لگے۔عام مزدوری سے لے کے ہنرمندی کے کاموں تک یہودی افرادی قوت پر مکمل انحصار کا اصول سختی سے نافذ ہوا۔ابتدا میں کھیت مزدوری کے لیے مقامی آبادی کو اجرتی کام دیا گیا۔رفتہ رفتہ یہ بھی محدود ہوتا چلا گیا۔

مگر یہودی آبادکاروں کی توقعات کے برعکس جب فلسطینی اکثریت نے معاشی دباؤ کے باوجود اپنی سرزمین چھوڑنے سے انکار کر دیا تو ہرزل کی ہدائیت کے برعکس احتیاط کا دامن ترک کرکے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی شروع ہوئی اور اس کا اختتام نسل کشی کو جائز کرنے پر ہوا۔

ہرزل کے بتدریجی صیہونی نظریے میں ننگی انتہاپسندی کیسے اور کن کن رہنماؤں نے انجیکٹ کی۔اس کا احوال اگلے مضمون میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں