ایک ہی راستہ بچا ہے

عربوں کے ساتھ دوستی میں اضافہ کریں اور اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے مضبوط کریں۔


جاوید چوہدر ی January 28, 2025
www.facebook.com/javed.chaudhry

جنرل احسان الحق 2003میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ افغانستان میں ان دنوں امریکا کا آپریشن چل رہا تھا‘ نیٹو فورسز نے 2001 میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں طالبان قابض تھے اور امریکا انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کر رہا تھا‘ جنرل احسان الحق کو طالبان کے سلسلے میں2003میں امریکا کی دعوت دی گئی ‘ سرکاری مصروفیات کے دوران انھیں ایک دن سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر بلایا گیا‘ ان کے ساتھ پاکستانی سفارت خانے کا ایک افسر بھی تھا‘ ہیڈکوارٹر میں انھیں ایک تھیٹر قسم کی جگہ لے جایا گیا‘ دیوار کے ساتھ کرسیاں تھیں جب کہ سامنے اسمارٹ ورک اسٹیشن تھے اور ان کے سامنے بڑی بڑی اسکرینیں تھیں‘ ورک اسٹیشنز پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے‘ جنرل احسان الحق اور نوجوان سفارت کار کو دیوار کے ساتھ کرسیوں پربٹھا دیا گیا۔

 انھوں نے اپنے میزبان سے اس جگہ کے بارے میں پوچھا تو انھیں بتایا گیا آپ بس چند منٹ دے دیں آپ کو سب کچھ سمجھ آ جائے گا‘ یہ دونوں خاموش بیٹھ گئے‘ اسکرینز پر مختلف مناظر آتے اور جاتے رہے‘ کسی جگہ چراہ گاہیں تھیں‘ کسی جگہ ندیاں‘ نالے اور دریا تھے اور کسی جگہ خشک بے آباد پہاڑ تھے‘ یہ اسکرینیں دیکھتے رہے ‘ اس دوران ایک اسکرین پر دو خشک پہاڑوں کے درمیان چھوٹی سی وادی نظر آئی‘ ورک اسٹیشنز پر بیٹھے نوجوانوں نے میز پر لگی ناب گھمائی اور تھیٹر کی تمام اسکرینوں پر وادی نظر آنے لگی‘ اس کے بعد تمام اسکرینیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑگئیں اور کیمرہ وادی پر فوکس کرتا چلا گیا‘ تھوڑی دیر بعد وادی کا ایک مکان نظر آنے لگا‘ کیمرے نے اسے فوکس کیا تو مکان میں موجود لوگ دکھائی دینے لگے‘ صحن میں چار رائفل بردار لوگ واک کر رہے تھے‘ دو لوگ مکان کی چھت پر پہرہ دے رہے تھے۔

 ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں‘ وہ شام کا وقت تھا‘ سورج پہاڑوں میں چھپ رہا تھا‘ کیمرہ وادی کا جائزہ لیتا تھا اور پھر دوبارہ اس مکان پر فوکس کر لیتا تھا‘ اس دوران چھت پر کھڑے پہرہ داروں میں سے ایک نے کلاشنکوف زمین پر رکھی‘ مکان کے کونے میں آیا‘ پہاڑ کی طرف منہ کیا‘ کانوں پر ہاتھ رکھا اور اونچی آواز میں صدائیں دینے لگا‘ اس کی آواز نہیں آ رہی تھی لیکن جنرل احسان الحق کو اندازہ ہو رہا تھا وہ اذان دے رہا ہے‘ اذان کے بعد مؤذن نیچے اترا‘ مکان کے اندر سے لوگ نکلے‘ صحن میں صفیں بچھائیں اور نماز شروع کر دی جب کہ دوسرا پہرے دار چھت پر کھڑا ہو کر ان کی حفاظت کرتا رہا‘ ورک اسٹیشنز پر بیٹھے نوجوان نے مائیک میں کچھ کہنا شروع کر دیا۔

 وہ ساتھ ساتھ ناب گھما کر مکان کو فوکس بھی کر رہا تھا‘ ایک پوائنٹ پر آ کر اس نے الٹی گنتی گننا شروع کی اور زیرو پر پہنچ کر ٹیبل پر موجود سرخ بٹن دبا دیا‘ا سکرین پر خوف ناک دھماکا ہوا اور وہ مکان اپنے تمام مکینوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹ گیا‘ اسکرینوں پر دھوئیں اور گرد کے سوا کچھ نہیں تھا‘ کیمرہ تھوڑی دیر دھوئیں اور گرد پر فوکس رہا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر اٹھ گیا‘ اب پوری وادی نظر آ رہی تھی‘ لوگ مختلف گھروں سے نکل کر ملبے کی طرف دوڑرہے تھے‘ جنرل احسان اور نوجوان سفارت کار دونوں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

جنرل احسان کو بعدازاں ڈائریکٹر کے پاس لے جایا گیا‘ اس نے انھیں بتایا‘ یہ ڈرون تھا‘ ہم نے ایک ایسی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی ہے جس کے ذریعے ہمیں اب کسی مقام کو نشانہ بنانے کے لیے لوگ بھجوانا پڑتے ہیں اور نہ جہاز‘ ہم آسمان سے ٹارگٹ کو فوکس کرتے ہیں‘ ہمارے ڈرون وہاں پہنچتے ہیں اور ہم واشنگٹن سے بٹن دبا کرٹارگٹ اڑا دیتے ہیں‘ یہ جنرل احسان اور نوجوان سفارت کار دونوں کے لیے نئی چیز تھی‘ دونوں بڑی دیر تک حیران رہے‘ انھیں بتایا گیا اس ڈرون کا نام پری ڈیٹر (Predator) ہے اور اسے اڑانے‘ فائر کرنے اور واپس اتارنے کے لیے کسی شخص کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آپریٹ ہوتے ہیں‘ ہمیں بس انھیں اڑانے اور اتارنے کے لیے ٹارگٹ کے قریب ’’ائیراسٹرپس‘‘ چاہیے ہوتی ہیں اور یہ بھی چند برسوں کی بات ہے‘ ہم پانچ سال میں انھیں امریکا سے اڑائیں گے اور امریکا ہی میں لینڈ کرا دیں گے‘ یہ پلان اس وقت عجیب محسوس ہوتا تھا‘ ہم اس زمانے میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا شکار تھے۔

 آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی تھی جب کہ امریکا جنگوں اور فوج کے اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا تھا‘ ایک ایسا مرحلہ جس میں اسے فوجی چاہیے تھے اور نہ ہی پائلٹ‘ اس کی فوج امریکا میں بیٹھ کر پوری دنیا میں بمباری کرسکتی تھی اور گراؤنڈ سولجر کے بغیر دوسرے ملکوں کو فتح کر رہی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر جنرل احسان نئی حیرت لے کر پاکستان واپس آئے اور جنرل پرویز مشرف اور اس وقت کی فوجی قیادت کو نئی تکنیک کے بارے میں بتایا‘ اس زمانے کی قیادت کو یہ ہالی ووڈ کی فلم کا سین محسوس ہوا‘ افسروں کا خیال تھاسی آئی اے نے ڈی جی آئی ایس آئی کو پریشان کرنے یا ان کا مورال ڈاؤن کرنے کے لیے ایڈیٹنگ کا کوئی کمال دکھایا ہو گا‘ امریکی فلم بنا اور دکھا کر ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چناں چہ فیصلہ ہوا سی آئی اے نے جس گھر کو میزائل سے تباہ کیا اس جگہ اور مکان کا معائنہ کیا جائے۔

 پاکستان کی ایک ٹیم چھپا کر افغانستان بھجوا دی گئی‘ سی آئی اے نے کنڑ کی ایچ ویلی میں مکان کو نشانہ بنایا تھا‘ کنڑ اس زمانے میں بھی حقانیوں کے قبضے میں تھا‘ یہ ایک دشوار گزار علاقہ تھا جہاں پہاڑوں نے امریکی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کا راستہ روک رکھا تھا جب کہ تنگ دروں اور ندی نالوں کی وجہ سے گراؤنڈ ٹروپس بھی وہاں پہنچ نہیں پا رہے تھے لہٰذا طالبان کنڑ میں پناہ گزین ہو گئے تھے‘ ہماری ٹیم جیسے تیسے وہاں پہنچی‘ واپس آئی اور اس نے آ کر تصدیق کر دی وہ مکان واقعی ایچ ویلی میں تھا اور امریکی میزائل حملے میں مکمل ختم ہو گیا تھا‘ اس تصدیق سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو 2003 میں معلوم ہو گیا امریکا اگلے چار پانچ برسوں میں پاکستان کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گا‘ یہ صرف اس وقت تک ہمارے ساتھ چلے گا جب تک اس کے ڈرون کی کیپسٹی میں اتنا اضافہ نہیں ہو جاتا کہ یہ امریکا سے اڑ سکیں اور واپس امریکا ہی میں لینڈ کر جائیں۔

 دوسرا اسٹیبلشمنٹ کا اندازہ تھا امریکا کو آخری مرتبہ ہماری اس وقت ضرورت پڑے گی جب یہ افغانستان سے واپس جائے گا اور اس کے بعد پاکستان اس کے لیے غیر ضروری ہو جائے گا لہٰذا ہمارے پاس امریکا کی واپسی تک کا وقت ہے‘ ہم نے اس وقت کے دوران اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے مضبوط کرنا ہے‘ ہم نے اگر یہ وقت ضایع کر دیا تو پھر ہمیں دوبارہ موقع نہیں ملے گا‘ تیسرا یہ فیصلہ بھی ہوا ہمیں امریکا کی واپسی سے پہلے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بہتر بنا لینے چاہییں‘ بھارت کے ساتھ مسائل کا دیرپا حل نکالیں‘ چین اور روس کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں‘ عربوں کے ساتھ دوستی میں اضافہ کریں اور اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے مضبوط کریں۔

یہ فیصلے درست اور دیرپا تھے‘ جنرل مشرف نے اپنے دور میں ان پر بہت کام کیا‘ بھارت کے ساتھ سرحدیں کھول دیں اور کشمیر کے دیرپا اور مستقل حل کی طرف بھی نکل آئے‘ چین کے ساتھ تعلقات بڑھا دیے‘ روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اور ملک میں معیشت کا پہیہ بھی پوری طاقت سے گھومنے لگا‘ یہ سلسلہ اگر 2010 تک جاری رہتا تو پاکستان خطرے کی تمام لائینوں سے آگے نکل جاتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو نظر لگ گئی اور ہم نے ایک بار پھر واپسی کی طرف دوڑ لگا دی‘ اس دوران نئی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا تجربہ بھی شروع کر دیا اور یہ تجربہ ٹوٹے ہوئے دانت پر آئس کریم ثابت ہوا۔

 اس نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا اور وہ وقت بھی ضایع کر دیا جس میں ہم نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تھا‘ ہم اس قیمتی وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہ گئے اور امریکا طالبان کو ہمارے متھے مار کر اگست 2021 میں افغانستان سے نکل گیا اور اس کے جاتے ہی ہماری ساری معیشت زمین بوس ہو گئی‘ ہم اس دوران امریکا کے لیے اتنے غیر اہم بھی ہو گئے کہ جوبائیڈن نے اپنے چار برسوں میں ہمارے وزیراعظم کو فون کیا اور نہ ہماری مبارک باد وصول کی‘ اس نے پاکستان کو اپنے فوجی کمانڈرزکے حوالے کر دیا‘ یہ آتے رہے اور اپنے کام نکلواتے رہے‘ جوبائیڈن کے چار برسوں میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی پاکستان نہیں آیا۔

 بائیڈن کے بعد 20 جنوری 2025 کو ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر بنا تو اس نے ہمارے کسی لیڈر کو دعوت دی اور نہ ہی پاکستان کا نام لیا‘ ہم آج بھی یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں ٹرمپ عمران خان کا نام لے کر کوئی ٹویٹ ہی کر دے اور اس کے بعد ہمارا اپنے پرانے اتحادی سے رابطہ استوار ہو جائے لیکن یہ بھی نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے‘ امریکا وار ٹیکنالوجی میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ اسے اب پاکستان جیسے کسی اڈے کی ضرورت نہیں رہی‘ اسے اگر افغانستان پر دوبارہ حملہ کرنا پڑا تو یہ میامی سے کرے گا اور بات ختم‘ ہم نے اپنے 20 قیمتی سال ضایع کر دیے ہیں۔

 ہمارے لیے بہتر ہے ہم اب اس حقیقت کو مان لیں اور امریکا کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع کردیں‘ سسٹم کی خرابیاں دور کریں‘ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کریں‘ لڑائیاں بند کریں‘ بزنس مینوں کے ساتھ فائنل ڈیل کریں‘ سیاسی افہام و تفہیم پیدا کریں اور آئین میں جتنی بھی تبدیلیاں کرنی ہیں ایک ہی بار کر لیں اور اس کے بعد پوری قوم کو کام پر لگا دیں اور دائیں بائیں نہ دیکھیں‘ ہمارے پاس اب صرف یہی ایک راستہ بچا ہے اور ہم نے اگر اسے بھی بند کر دیا تو پھر شاید ہمارے لیے کوئی نیا راستہ نہ بچے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں