حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے مذاکراتی ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئے اور مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا جب کہ حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی آج مذاکرات کے لیے آتی تو ان کے لیے راستے کھل سکتے تھے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ حکومتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی کا اج چوتھا سیشن تھا، ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں پی ٹی آئی کا انتظار کیا، اسپیکر کی جانب سے پیغام بھیجا گیا لیکن وہ نہیں آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے عملاً مذاکراتی عمل ختم کرلیا ہے، پی ٹی آئی کے مطالبات پر آئینی و قانونی ماہرین سے رائے لی، حتمی جواب تیار ہوا ہے لیکن فیصلہ ہوا کہ جاری نہیں کریں گے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ کمیٹی اکتیس جنوری تک موجود رہے گی، پی ٹی آئی بیٹھتی ہے تو ہم تیار ہیں، پی ٹی آئی نے یکطرفہ فیصلہ کیا، پی ٹی آئی نے جس عمل کو شروع کیا اس کو خود ختم کیا، ہماری کمیٹی نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا، سول نافرمانی، فوج پر حملے ہوئے لیکن برداشت کیا۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین نے کے پی میں پارٹی صدارت چھوڑنے کیلیے عمران خان سے خود درخواست کی تھی، بیرسٹر گوہر
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ کس حد تک مطالبات مان سکتے ہیں، ہم نے جواب میں بڑی گنجائش چھوڑی تھی آج آجاتے تو ان کیلئے راستے کھل سکتے تھے، پی ٹی آئی نے کمیٹی میں آنے کا وعدہ کیوں توڑا، کمیٹی وزیراعظم نے بنائی ہے، وزیراعظم ہی تحلیل کریں گے، ہماری طرف سے رابطہ نہیں ہوگا سپیکر رابطہ کرسکتے ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ کمیٹی اکتیس جنوری تک موجود رہے گی پی ٹی آئی بیٹھتی ہے تو ہم تیار ہیں پی ٹی آئی نے یکطرفہ فیصلہ کیا، پی ٹی آئی نے جس عمل کو شروع کیا اس کو خود ختم کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی نہ انتظار کررہی ہے نہ آنے کا تقاضا کررہی ہے اگر وہ خود آتے ہیں تو بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔
قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی کے آفس میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا مشاورتی اجلاس ہوا، حکومتی کمیٹی اجلاس میں پی ٹی آئی کے آج مذاکراتی سیشن میں شرکت نہ کرنے کے جواب کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی قیادت کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات، سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال
اسپیکر قومی اسمبلی نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو پی ٹی آئی سے رابطے پر آگاہ کیا۔
اس دوران حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے، اسپیکر سردار ایاز صادق بھی اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچ گئے لیکن پی ٹی آئی کا کوئی بھی رکن اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے علاؤہ کوئی راستہ نہیں ہے، پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا، پی ٹی آئی کا یہ رویہ دس بارہ سال سے ہے، پی ٹی آئی کے مطالبات پر بات ہوسکتی ہے، پی ٹی آئی نے پبلک میں جواب دیا تو ہمیں بھی جواب دینا پڑا۔
مذاکراتی کمیٹی برقرار رہے گی، انتظار کرینگے پی ٹی آئی آجائے، ایاز صادق
اس کے بعد ایک بار پھر اسپیکر قومی اسمبلی نے اسد قیصر اور عمر ایوب سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور مذاکرات میں شریک ہونے کی ایک مرتبہ پھر دعوت دی، اسپیکر نے جوائنٹ سیکرٹری کو اپوزیشن کے چیمبر بھیجا کہ مذاکرات کے لیے آئیں، اس پر پی ٹی آئی نے سیئنر قیادت سے مشاورت کے بعد مذاکرات سے متعلق آگاہ کرنے کا کہا۔
اس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا، اجلاس میں6 حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے 6 ممبران شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاس کے 7 ورکنگ ڈے کے بعد ممبران کو نوٹس بھیجے، توقع تھی آج پی ٹی آئی کے لوگ آئینگے،45منٹ انتظار کیا، میسج بھی بھیجا ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے تھے مذکرات ہی واحد راستہ ہے، پی ٹی آئی کی عدم شرکت پر کمیٹی اجلاس جاری نہیں رکھا جاسکتے۔
ایاز صادق نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی برقرار رہے گی، انتظار کرینگے پی ٹی آئی والے آ جائیں۔
نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری مثبت سوچ اور نیت ہے، پہلے بھی ، مذاکرات ہوئے 126دن کا دھرنہ بھی مذاکرات کے بعد ختم ہوا، توقع تھی آج پی ٹی آئی کے دوست آئیں ۔ ان کی غیر موجودگی میں یکطرفہ بیان نہیں دینا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا مطلب ہی بیٹھ کر بات کرنا ہوتا ہے، مطالبات پر آئین اور قانون کے دائرے میں جواب تیار کیا، ان کی نیت ٹھیک ہوگی تو حوصلہ آ جائیگا، اگر پی ٹی آئی والے آتے تو اپنا جواب ان سے شیئر کرتے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کی تیاری کی تھی، خواہش ہے کہ اپوزیشن ارکان آتے،مناسب رویہ نہیں ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے، امید کرتا ہوں اپوزیشن واپس کمیٹی میں اسپیکر سے رابطہ کرے گی،یہ مناسب نہیں ہے وہ کہ نہ ہوں ہم یکطرفہ کوئی بیان دیں۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ مذاکرات کا مطلب ہوتا ہے کہ بیٹھ کے بات کرنا، اگر وہ آج آتے تو ہم تحریری جواب پہلے اسپیکر کو پیش کرتے، ہمیں ایک دوسرے کو سنجیدہ لینا چاہئے، حامد رضا کے گھر پر کوئی ریڈ نہیں ہوا.
سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ پولیس پریس کانفرنس کیلئے سیکورٹی دینے گئی تھی۔
حکومت جوڈیشل کمیشن کا اعلان کردے گی تو مذاکرات کے لیے بیٹھ جائیں گے، شبلی فراز
پی ٹی آئی کے سنیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ جب حکومت جوڈیشل کمیشن کا اعلان کردے گی تو ہم اس کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھ جائیں گے۔
سینیٹرعلی ظفر کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کو فلور آف دا ہاؤس میں بولنا چاہیے جہاں وہ اپنی ، تجاویز دے سکتے ہیں، آج بدقسمتی سے سینیٹ اجلاس میں قائد حزب اختلاف کو ہی بولنے نہیں دیا گیا ، لیڈر آف دی اپوزیشن اور لیڈر آف دا ہاؤس کسی بھی وقت اٹھ کر بول سکتے ہیں، اس ہاؤس میں اپوزیشن کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ جب ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہو تو اس میں لامتناہی سلسلہ نہیں چلے گا، حکومت چاہتی ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں، تحریری مطالبات پر دن ضائع کیے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اسپیکر نے جو رول ادا کیا ہے ہم نے اس کی تعریف کی ہے، اصل سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے فیصلے کون کرے گا، جب جوڈیشل کمیشن کا اعلان کردیں گے اس وقت ہم مذاکرات میں بیٹھ جائیں گے، اگر یہ کہہ دیں کہ ہم جوڈیشل کمیشن بنائیں گے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کریں گے تو ہم بیٹھ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیکا کا بل ہو یا کوئی بھی ہو اس میں سحر حاصل گفتگو کے بغیر پاس نہیں ، کرنا چاہیے اس بل میں اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ نہیں لیا گیا، اس وقت پارلیمنٹیرینز ، بھی غیر ضروری ہوگئے ہیں، ہمیں سینیٹ میں بات نہیں کرنے دی جائے گی تو ہم ادھر عوام سے سامنے بات کریں گے۔
شبلی فراز نے کہا کہ اس ترامیم کے مطابق اگر کوئی رائے ناپسند ہے تو صحافی کو جیل میں ڈالا جاسکتا ہے اور سزا بھی ہوسکتی ہے اس بل کا ٹارگٹ پی ٹی آئی اور صحافیوں کے علاؤہ ہر وہ شخص ہے جو سچ بولنا چاہتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس بل کے خلاف اس وجہ سے کھڑے ہو رہے ہیں کہ یہ آئین کے خلاف ہے، ہم چاہتے تھے ہم اس میں ترمیم ہو اور آج ہم وہ تیار کرکے بھی آئے تھے، ہماری یہ بات مانی ہی نہیں گئی اور مسترد کردیا گیا، آرٹیکل 10 کے مطابق ہر شخص کا ٹرائل فیئر ہو، پیکا ایکٹ کے تحت بنایا گیا کیس ٹربیونل میں جائے گا،اس ٹربیونل کو حکومت کسی بھی ۔وقت تبدیل کرسکتی ہے۔
قبل ازیں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں 7 جماعتیں ہیں، باقی جماعتوں کے قائدین کو باندھ کے نہیں رکھ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مطالبے کے مطابق اگر کوئی تراش خراش کرنی ہے تو وہ بھی کریں گے، اگر وہ نہیں آتے تو ظاہر ہے کہ پھر یہ ان کا حتمی فیصلہ ہے کہ انہوں نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا ہے، کمیٹی میں 7 جماعتیں ہیں ان کو ہم قید کر کے نہیں رکھ سکتے، اگر وہ ملاقات سے گریزاں ہیں تو پھر ہم غور کریں گے کہ کمیٹی کو تحلیل کردیں۔
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ اصف نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ میں مذاکراتی ، کمیٹی کا حصہ نہیں لیکن اگر پی ٹی آئی نے انکار کر دیا ہے تو بھی مشق لاحاصل ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی پی ٹی آئی کا انتظار کرنا چاہتی ہے تو الگ بات ہے، انکار کے باعث کوئی گنجائش نہیں رہتی، مذاکرات کے راستے ہمشیہ کھلے رکھنے چاہیں، مذاکرات کے راستے بند کرنا جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔
پی ٹی آئی کا انتظار آئندہ الیکشن 2029 تک کریں گے، رانا ثنا اللہ
وزیر اعظم کے مشیر اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن رانا ثنااللہ نے کہا کہ اگر عمران خان کہتے میاں صاحب کے ساتھ بیٹھیں گےتو یقین دلاتا ہوں میاں صاحب کی جانب سے مثبت جواب آتا، عجیب و غریب تبصرہ کیا گیا کہ میاں صاحب بارہویں کھلاڑی بن گئے، میاں صاحب نے 21 اکتوبر کا کہا کہ ملک جہاں پہنچ گیا ہے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیل جا کر ملاقات کرنا اور چیز ہے، نواز شریف کی جانب سے قومی ایشوز پر ہٹ دھرمی کا رویہ نہیں اپنا گیا، میاں نواز شریف عمران خان کی تیمار داری کےلئے ہسپتال اور گھر بھی گئے، پارلیمانی جمہوری سسٹم مذاکرات سے آگے بڑھتا ہے ڈیڈ لاک سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو جو راستہ سڑک سے نکالنا چاہتے تھے نہ۔پہلے نکلا نہ آئندہ نکلے گا، اگر اس بات کو اب بھی نہ سمجھیں گے تو اپنا اور جمہوریت کا نقصان کریں گے، راستہ جب بھی نکلنا ہے وہ مذاکرات کی ٹیبل سے نکلنا ہے، 25 نومبر کو اگر سنگجانی بیٹھ جاتے تو مذاکرات سے راستہ نکل آتا، پی ٹی آئی نے دوبارہ آج غلطی کی کہ مذاکرات سے باہر ہوئے، پی ٹی آئی کا انتظار آئندہ الیکشن 2029 تک کریں گے، وزیراعظم نے بھی مذاکرات کا راستہ اپنانے کا کہا ہے۔
رانا ثناللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنی بات پر قائم رہے لیکن مذاکرات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیئے تھا،پارلیمانی سسٹم میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف آپس میں بائیکاٹ نہیں کر سکتے، یہ ڈیڈ لاک ہوتا جس سے پارلیمنٹ آگے نہیں چل سکتی، پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ ہے، انہیں سیاست کرنے کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جو ایک کمیٹی بنی ہے، گورنر ہاؤس میں اجلاس میں تمام مسائل حل کئے، پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں کوئی ایشو نہیں، اگر بلاول صاحب کو کوئی ایشوز پتا ہیں تو ہمیں بلائیں۔
یاد رہے اس سے قبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف نے اسپیکر قومی اسمبلی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ایاز صادق کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود آج ہونے والے اجلاس میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسپیکر سردار ایاز صادق نے اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب کو ٹیلیفون کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ تمام مسائل کاحل مذاکرات سے ہی ممکن ہے، ٹیبل ٹاک اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل نکالا جا سکتا ہے۔
عمر ایوب نے اسپیکر ایاز صادق کو بانی پی ٹی آئی کے فیصلے سے آگاہ کیا اور کہا کہ حکومت ہمارے مطالبات پر تاخیری حربے اختیار کیے، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بنا مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے آج ہونے والے مذاکراتی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ہدایت کی ہے کہ اپوزیشن ممبران اجلاس میں شرکت نہ کریں۔
ذرائع نے کہا کہ بانی چئیرمین کے کہنے پر پی ٹی آئی نے مذاکراتی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے مطالبے پر قائم ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع نے واضح کیا کہ جب تک جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جائے گا پی ٹی آئی مذاکرات کو آگے نہیں بڑھائے گی۔