ایک خبر کے مطابق حکومت نے ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ تنخواہیں دو سو فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے جس پر تمام اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق ہے جب کہ پنجاب اسمبلی اپنے ارکان کی تنخواہیں بڑھانے کا بل منظور کر چکی ہے۔
وفاقی حکومت کو بھی ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کی غربت کا خیال آگیا ہے جس پر حکومت کے بقول تمام جماعتیں متفق ہیں۔ حکومت اس سے قبل ججزکی تنخواہوں میں اضافہ کرچکی ہے ۔ جس ملک میں بے روزگاری انتہا پر ہو اور غربت کی شرح تشویش ناک ہو چکی ہو، لوگ بھوکے مر رہے ہوں اور خودکشیاں کر رہے ہوں وہاں عوام کے منتخب نمایندے کیسے گوارا کر رہے ہیں کہ وہ اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھا لیں؟
ججزکے بعد ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ وہ حکومت کرنا چاہ رہی ہے جس کے وزیر خزانہ حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے نان فائلرکے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وفاقی حکومت کے بقول اس کے پاس اپنے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں ہے اور وہ دنیا بھر میں قرضوں اور امداد کے لیے کشکول لیے پھر رہی ہے اور اپنے عوام پر مسلسل مہنگائی مسلط اور ٹیکس بڑھا کر ان کا جینا حرام کر چکی ہے اور ججز کے بعد اب اپنے ان ارکان پارلیمنٹ کو نوازنا چاہ رہی ہے جو پہلے ہی اربوں اور کروڑوں پتی ہیں اور پہلے ہی حکومت کے نوازے ہوئے ہیں مگر حکومت اب ان غریبوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھانا چاہتی ہے جو ایوان میں آنا ہی گوارا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونا مسئلہ بنا ہوا ہے اور ارکان کی مسلسل غیر حاضری کی شکایت اسپیکر کو وزیر اعظم سے کرنا پڑی اور وزیر اعظم کو مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کو ایوان میں آ کر کورم پورا کرنے کی ہدایت کرنا پڑی ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین گوہر خان کے مطابق قومی اسمبلی بے گار کیمپ کی طرح ہے جہاں حقیقی طور پر منتخب نہ ہونے اور فارم47 کے ذریعے بٹھائے ہوئے لوگوں کی اکثریت ہے جن کی ایسی کون سی اچھی کارکردگی ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں؟ بیرسٹر گوہرکا یہ بیان دکھاؤے اور سیاست چمکانے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہے، کیونکہ حکومت کے بقول تمام سیاسی جماعتیں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے پر متفق ہیں۔
ماضی میں بھی یہی دیکھا گیا کہ ارکان پارلیمنٹ ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کسی نے کبھی تنخواہیں بڑھانے کی مخالفت نہیں کی اور اگر کسی نے کی بھی تو دکھاؤے کی مگر تنخواہیں بڑھنے کے بعد کبھی کسی ایک رکن نے بڑھی ہوئی تنخواہ لینے سے انکار کیا ہو کہ مجھے اضافی تنخواہ نہیں چاہیے۔
بیرسٹر گوہر کی پارٹی کا تو یہ ریکارڈ رہا ہے کہ اس نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں کا مہینوں بائیکاٹ کیا اور قومی اسمبلی سے استعفے بھی دیے جو موجودہ اسپیکر نے قبول بھی نہیں کیے تھے جس کی وجہ سیاسی تھی مگر جب پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی واپس آنا چاہتے تھے تو انھوں نے استعفے قبول نہ کرانے کی کوشش کی تھی اور اسپیکر نے دیے گئے اجتماعی استعفے دینے والوں میں بعض استعفے قبول کر لیے تھے تو پی ٹی آئی نے اسپیکر کے اس اقدام کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی دھمکی دی تھی اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام بڑے رہنماؤں اور مستعفی ارکان نے اپنی غیر حاضری کے دوران کی تمام تنخواہیں اور مراعات مکمل وصول کی تھیں۔
بیرسٹرگوہر کا یہ کہنا تو سو فی صد درست ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی ایسی کون سی اچھی کارکردگی ہے کہ حکومت ان کی تنخواہیں بڑھانے پر غور کر رہی ہے؟ اسپیکر کے بقول ارکان قومی اسمبلی نہیں آتے اور اکثر غیر حاضر رہتے ہیں جس سے کورم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسپیکر کا کہنا درست ہے کیونکہ اندرون ملک سے قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اسلام آباد ضرور آتے ہیں مگر ایوان میں آ کر نہیں بیٹھتے اگر آ جائیں تو وہ ہنگامہ کرنے آئیں گے یا ایوان میں آ کر حاضری لگا کر واپس چلے جاتے ہیں کہ حاضری لگ گئی تو وہ مراعات اور الاؤنسز کے حق دار تو ہو گئے۔
کیفے ٹیریا کے بہترین اور سستے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سرکاری دفاتر اور وزیروں کے دفاتر میں اپنے کام کرانے اور ملاقاتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وزیروں سے متعلق تو یہ عام شکایت ہے کہ وہ خود پارلیمنٹ کے اجلاسوں اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بھی نہیں آتے تاکہ اپنی وزارت کی کارکردگی بتا سکیں یا ارکان کے سوالات کا جواب دے سکیں۔