سندھ کے اسپتالوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ غریب کی پہنچ سے باہر
کراچی سمیت سندھ کے دیگر سرکاری اسپتالوں میں تھیلیسمیا اور خون کے کینسر (اے پلاسٹک اینیمیا) کے مریضوں کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔
ایکسپریس ٹربیون نے سرکاری اسپتالوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق خون کے کینسر کی تشخیص اور علاج غریب مریضوں کیلئے تقریباً نامکمن ہے کیونکہ کراچی کے این آئی سی ایچ جبکہ انڈس سمیت مختلف نجی اسپتالوں میں ماہانہ 5 ہزار مریض سندھ اور بلوچستان سے آتے ہیں اور ایک نجی اسپتال میں بون میروٹرانسپلانٹ بہت مہنگا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ تھیلیمیسا اور خون کی کینسر (اے پلاسٹک انیمیا) کے مریضوں کو کیا جاتا ہے جبکہ دیگر خون کے کینسر کا علاج مختلف ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ خون کے کینسر کی ادویات بھی بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے مریضوں کے لواحقین شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔
تھیلیسمیاکے مرض میں مبتلا 14 سالہ ساتوین کلاس کا طالب علم طاہر نے بتایا کہ میں پیدائیشی 14سال سے تھیلیسمیا کے مرض میں مبتلا ہوں، میری زندگی کو بچانے کے لیے میرے والدین مجھے ہر ماہ خون لگواتے ہیں، ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس مرض کا مستقل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے لیکن میرے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ میرا مستقل بنیادوں پر علاج کرواسکیں۔
طالب علم کے والد اسلم مجاہد نے بتایا کہ 10 سال پہلے اپنے بچے کے علاج کے لیے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی سے رجوع کیا تھا جنھوں نے بون میروٹرانسپلانٹ کی ہدایت کی تھی، اس وقت میرے بچے کے علاج پر 30 سے 35 لاکھ روپے بتائے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے سول، جناح اسپتال سمیت دیگر اسپتال میں بون میروعلاج کے لیے رجوع کیا جس پر معلوم ہوا کہ بون میروٹرانسپلانٹ بہت مہنگا ہے اور کسی بھی سرکاری اسپتال میں نہیں ہوتا۔
تھیلیمیسا کے مرض میں مبتلا ایک اور مریض 10 سالہ شایان کی والدہ شازیہ نے بتایا کہ میرا بیٹا پیدائشی طور پر تھیلیسمیا میجر کے مرض میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے اس کے جسم میں خون نہیں بنتا، خون نہ بننے کی وجہ سے میرے بیٹے کا Haemoglobin کی شرح بہت کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے نڈھال ہوجاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے تھیلیسمیا کے مرض کا مستقل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ بتایا ہے لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اپنے بچے کا سرکاری سطح پر علاج کرواسکوں۔ ہم نے ایک بڑے نجی اسپتال میں بون میرو علاج کے حوالے سے معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ بون میرو علاج کے لیے سب سے پہلے والدین یا بہن بھائیوں کے بون میرو کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، وہی ٹیسٹ اتنے مہنگے ہیں کہ ہماری دسترس سے باہر ہے، مجبورا اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے ہر ماہ خون لگوانا پڑتا ہے۔
ماہر امراض خون ڈاکٹرثاقب انصاری نے بتایا کہ خون کی کینسر کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کی ادویات بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خون کے کینسر کی اقسام میں Acute lymphoblastic leukemia، Acute myeloid leukemia، Chronic myeloid leukemia، Chronic lymphoid leukemia، Multiple myeloma، Diffuse large B-cell lymphoma ، Hodgkin's lymphoma، Myelodysplastic syndrome، Myeloproliferative neoplasm، Myeloproliferative neoplasmشامل ہیں۔
واضع رہے کہ کراچی میں تھیلیسمیا اورخون کی کینسر کے علاج کے لیے پہلا بون میروٹرانسپلانٹ 1994 میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر شمسی مرحوم نے لیاری کا رہایشی اشرف کا کیا تھا۔