لاہور کی تاریخی موتی مسجد میں آج بھی جنات کا بسیرا

مسجد اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے علاوہ پراسرار کہانیوں کے باعث بھی مشہور ہے


آصف محمود January 29, 2025

لاہور:

شاہی قلعہ لاہور کی تاریخی موتی مسجد مغل دور کے فنِ تعمیر کا ایک نادر شاہکار ہے، جو اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کے علاوہ پراسرار کہانیوں کے باعث بھی مشہور ہے۔

عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ یہاں نیک جنات کا بسیرا ہے، جو مسجد کی حفاظت کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ملک بھر سے زائرین یہاں نوافل اور وظائف کے لیے آتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نیک جنات کے وسیلے سے کی گئی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔

موتی مسجد میں جنات کی موجودگی کے دعوے

شاہی قلعہ میں تقریباً 27 برس سے کام کرنے والے فوٹوگرافر محمد یاسین کے مطابق، موتی مسجد میں جنات کے پہرہ دینے کی کہانیاں مہا راجا رنجیت سنگھ کے دور سے چلی آ رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہا راجا کے دور میں ایک گورنر یا اس کے عملے نے مسجد کی بے حرمتی کی، جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے جنات نے یہاں پہرہ دینا شروع کیا۔

محمد یاسین کہتے ہیں کہ ’’رمضان کے دوران ہم نے با رہا محسوس کیا کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن جب سلام پھیرتے ہیں تو مسجد میں صرف چند لوگ ہی موجود ہوتے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق، موتی مسجد میں ایک نیک بزرگ بھی موجود ہیں، جن کا قد غیر معمولی طور پر طویل ہے۔ وہ کئی بار ان بزرگ کو دیکھ چکے ہیں اور ان کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔

زائرین کے عقائد اور دعاؤں کی قبولیت

موتی مسجد میں زائرین، خاص طور پر خواتین، اپنی حاجات لے کر آتی ہیں۔ لاہور کی رہائشی فرزانہ احمد نے اپنی پوتی کے ساتھ مسجد میں نوافل ادا کیے اور دعا کی کہ ان کی پوتی کو ایک نیک رشتہ مل جائے اور وہ اپنی تعلیم میں کامیاب ہو جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیک جنات کے وسیلے سے ان کی دعا جلد قبول ہوگی۔

تاریخی پس منظر

موتی مسجد کی بنیاد 1599ء میں مغل بادشاہ اکبر کے دور میں رکھی گئی اور اس کی ابتدائی تعمیر کو بادشاہ جہانگیر کے عہد میں وسعت دی گئی۔ بعد ازاں، شاہجہان نے اس مسجد کو سفید سنگِ مرمر سے آراستہ کیا، جس کے باعث اسے ’’موتی مسجد‘‘ کا نام دیا گیا۔

مسجد مغلیہ دور کے بعد سکھوں کے قبضے میں آگئی اور مہا راجا رنجیت سنگھ نے اسے توشہ خانہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس دوران مسجد کے محرابوں میں لوہے کے دروازے نصب کیے گئے اور اس کے نیچے ایک چیمبر بنایا گیا، جہاں قیمتی جواہرات اور ریاستی خزانے کو محفوظ رکھا گیا۔ تاہم، مہا راجا کی وفات کے بعد سکھوں کے آپسی اختلافات کے دوران یہ خزانہ نکال لیا گیا۔

 

حالیہ بحالی کے کام

والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ طلحہٰ سعید نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں مسجد کی بحالی کا کام مکمل کیا گیا ہے۔ بحالی کے دوران دیواروں سے وہ تحریریں مٹائی گئیں جو زائرین نے اپنی حاجات اور محبتوں کے قصے لکھ کر چھوڑی تھیں۔

فن تعمیر کا شاہکار

موتی مسجد مغلیہ دور کے فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے۔ سفید سنگِ مرمر سے بنی اس مسجد کی دیواریں، محرابیں اور گنبد اپنی خوبصورتی اور نزاکت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ مسجد اپنی منفرد تعمیراتی ڈیزائن کے باعث دنیا کے تاریخی ورثے میں شامل ہے۔

یہاں باجماعت نماز نہیں ہوتی

یہ واحد مسجد ہے جہاں باجماعت نماز نہیں ہوتی لیکن زائرین انفرادی طور پر نوافل ادا کرتے ہیں۔ رمضان اور دیگر مقدس مواقع پر یہاں زائرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ زائرین کا کہنا ہے کہ مسجد کا روحانی ماحول اور پراسرار سکون ان کی دعاؤں کو مزید اثرانگیز بنا دیتا ہے۔

عوامی شعور کی اپیل

یہ 400 سال پرانی مسجد نہ صرف لاہور بلکہ دنیا کے تاریخی ورثے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس تاریخی اور مذہبی مقام کو محفوظ رکھیں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مسجد کے تقدس اور تاریخی ورثے کا خیال رکھیں اور اس کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں۔

موتی مسجد تاریخ، مذہب، اور پراسرار کہانیوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ مسجد نہ صرف ایک روحانی مرکز ہے بلکہ لاہور کے شاندار ماضی کی جھلک بھی پیش کرتی ہے۔ زائرین اور تاریخ کے شائقین کے لیے یہ مقام ہمیشہ ایک کشش کا باعث رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں