غذائی درآمدات کا متبادل

کئی اشیا یا مصنوعات ایسی بھی ہیں جو اس وقت ایک مقروض معیشت کے لیے انتہائی مضر اثرات رکھتی ہیں



پاکستان کی ہر حکومت کو ہر سال ہر ماہ یہی مسئلہ درپیش رہا ہے کہ اس کی درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے اپنی معاشی پالیسی کو آزادانہ تشکیل دینے اور اپنی صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے تقریباً 78 برسوں کا عرصہ بیت رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہم بہت سی غذائی اشیا اربوں ڈالر میں درآمد کیے چلے جا رہے ہیں۔ کئی اشیا یا مصنوعات ایسی بھی ہیں جو اس وقت ایک مقروض معیشت کے لیے انتہائی مضر اثرات رکھتی ہیں لیکن ہم درآمد کیے جا رہے ہیں۔

ان میں سے ایک لگژری اور قیمتی گاڑیاں بھی ہیں۔ پورے ملک میں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سڑکوں، شاہراہوں، موٹرویز پر سفر کرتے ہوئے غور سے مسلسل دیکھتے چلے جائیں تو احساس ہوگا کہ اب چھوٹی اور سستی کاروں کی تعداد انتہائی کم ہو رہی ہے۔ اب تو قرض لینا بھی معیشت کے لیے انتہائی مضر ہے لیکن اس کے باوجود پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران ٹرانسپورٹ کی مد میں امپورٹ کی مالیت تقریباً 98 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گئی، اس میں قیمتی اور لگژری گاڑیوں کی درآمد بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی گاڑیاں اب 24 تا 25 کروڑ سے بڑھ کر 40 کروڑ روپے تک بھی پہنچ گئی ہیں۔

لیکن اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد درآمد کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب صنعتکار یا امیر تاجر کے پاس کروڑ یا دو کروڑ روپے جمع ہو جاتے تو وہ نئی فیکٹری لگانے کی بات سوچتا۔ پاکستان کے بعض تاجر خاندانوں میں یہ رواج دیکھنے کو بھی اور سننے کو بھی ملا کہ بیٹے کی شادی کی اور دوسرے دن اسے اپنے کاروبار، اس کی اپنی دکان یا نئی چھوٹی موٹی فیکٹری اس کے حوالے کر دی گئی کہ لے بیٹا! اب کھا اور کما۔ آپ اندازہ لگائیں کتنے ہی نئے لوگوں کو ملازمت ملتی ہوگی، لیکن اب سیٹھ صاحب کے پاس جیسے ہی 20 سے 30 کروڑ روپے آ جاتے ہیں تو فوراً اتنے کی نئی لگژری قیمتی سے قیمتی گاڑی خریدنے یا اسے امپورٹ کرنے کی فکر کرنے لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پٹرول کی درآمدی مالیت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران یعنی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران 8 ارب 8 کروڑ 59 لاکھ ڈالرز کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کرلی گئی۔ ماہرین ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنے اور بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں پر سفر کرنے سے پٹرول کے اخراجات میں کتنا فرق پڑتا ہے۔

بہرحال درآمدات کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کے 6 ماہ یعنی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران27 ارب 84 کروڑ22 لاکھ ڈالرز کی درآمدات ہو چکی ہیں جب کہ اس کی مالیت گزشتہ اسی دورانیے یعنی جولائی تا دسمبر 2023 میں 26 ارب 13 کروڑ73 لاکھ 68 ہزار ڈالرز کے ساتھ دراصل 6.52 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ کی بات ہے جب آئی ایم ایف انتظامیہ نے بعض معاملات میں اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے درآمدی مالیت کے حجم کو کم ازکم 15 سے 20 فی صد کم کر دیتے تو ہم پر مالی دباؤ میں کمی آتی۔ چلیے کم از کم اس بات پر توجہ دیں کہ آخر کیا سبب ہے کہ غذائی درآمدات یعنی فوڈ گروپ کی درآمدات میں نمایاں کمی لے کر نہیں آسکے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدات 3 ارب 78 کروڑ2 لاکھ ڈالرز کی رہیں اور اس کے بالمقابل 6 ماہ ماہ یعنی جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران یہ مالیت 3 ارب95 کروڑ71 لاکھ 75 ہزار ڈالرز کی رہیں۔ یہ دعویٰ مان لیتے ہیں کہ اس درآمدات میں 4.47 فی صد کمی ہوئی ہے لیکن یہ بھی خیال کریں کہ گزشتہ مالی سال یعنی جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران کتنی زیادہ مالیت کی گندم درآمد کر لی گئی تھی۔ البتہ تقریباً20 فی صد کمی کو کسی حد تک قابل قبول قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات تو بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ ایک زرعی ملک ہونے، دودھ کی پیداوار میں دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود ابھی تک دودھ، کریم اور بچوں کے لیے دودھ سے بنی غذائی اشیا کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔

اس شعبے کے تحت گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے 15 ہزار میٹرک ٹن کی مصنوعات کی درآمد پر 6 کروڑ3 لاکھ 7 ہزار ڈالر خرچ ہوئے اور گزشتہ مالی سال جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران تقریباً 19 ہزار میٹرک ٹن دودھ اور کریم سے بنی غذائی اشیا کی درآمد پر 6 کروڑ2 لاکھ 98 ہزار ڈالرز خرچ ہوئے اور اسے ایک فی صد سے کم کا اضافہ قرار دیا گیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ درآمدی مقدار کو مدنظر رکھیں تو ایک طرف ساڑھے 15 ہزار میٹرک ٹن اور گزشتہ مدت میں 19 ہزار میٹرک ٹن تو یہ ساڑھے تین ہزار میٹرک ٹن کی کمی۔ یہ حوصلہ افزا بھی ہے خوش آیند بھی ہے لیکن یہ بات اس زمرے میں قابل قدر ہو سکتی ہے کہ اسی طرح بتدریج کمی لے کر آئیں ملک میں اس کا متبادل تیار کیا جائے۔ غذائی مصنوعات بچوں کے لیے دودھ سے بنی ملک نوڈلز اور دیگر اشیا حتیٰ کہ چاکلیٹ، ٹافی جوکہ بڑے بڑے اسٹوروں میں خود دیکھا بھی ہے حیران کن نہیں ہے کیونکہ امیر گھرانوں میں ان مہنگی اشیا کا استعمال عام ہے۔

البتہ اس کمی کی ایک وجہ اور ہو سکتی ہے بعض دکانداروں کا کہنا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ اب لوگوں کی آمدن کم ہوگئی ہے ان درآمدی اشیا کی قیمت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب عام افراد کے لیے اپنے بچوں کے لیے درآمدی دودھ بھی خریدنا ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ لہٰذا جب طلب کم ہوگی تو درآمدی مقدار میں بھی کمی آئے گی۔ بہرحال درآمد ایک ایسا شعبہ ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا جن اشیا یا مصنوعات کا متبادل ملک میں تیار کیا جاسکتا ہو، اسے اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں