سیاسی طور پر متحرک ہونے کی ضرورت

میاں نواز شریف اگر سیاست میں متحرک نہیں ہو رہے تو اس کی وجوہات بھی ہوں گی


[email protected]

حسب سابق جنوری میں میڈیا میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کے سیاست میں ایک بار پھر متحرک ہونے کی خبر آئی تھی مگر جنوری کے 3 ہفتے پھر گزر گئے لیکن ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی کہ ان کی کیا مصروفیات ہیں اور وہ کیوں خاموش ملکی سیاست اور صورتحال دیکھ رہے ہیں اور متحرک کیوں نہیں ہو رہے؟ میاں نواز شریف اگر سیاست میں متحرک نہیں ہو رہے تو اس کی وجوہات بھی ہوں گی مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر متحرک ہو کر کیا کریں گے؟

کیونکہ حکومتی سطح پر ان کے بھائی وزیر اعظم شہباز شریف بہت ہی متحرک ہیں اور اجلاسوں اور تقاریب ہی نہیں بلکہ غیر ملکی دوروں میں تو بہت زیادہ ہی مصروف ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا کہ وزیر اعظم بیرون ملک نہ جائیں اور ملک میں موجود رہ کر ملک کے ان شہروں کے بھی دورے کرلیں جہاں اب تک وہ دو سالوں میں نہیں گئے اور نہ ہی ان کی اپنے ارکان اسمبلی سے ملنے کی کوئی خبر میڈیا میں آ رہی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف ہیں جو حکومتی سطح پر تو تمام وزرائے اعلیٰ سے زیادہ متحرک ہیں، اپنے صوبے کا دورہ بھی کرتی ہیں اور سیاسی طور پر مخالفین کے خلاف بھی بیان دیتی رہتی ہیں۔ پی ٹی آئی میں سیاسی مخالفین پر تنقید اور جواب کا فریضہ کے پی کے ترجمان بیرسٹر سیف ادا کرتے ہیں مگر پنجاب کا کوئی پی ٹی آئی رہنما وزیر اعلیٰ کی حکومتی کارکردگی پر تنقید کرتا ہے نہ ان کے سیاسی بیان کا کوئی جواب دیتا ہے۔

پنجاب میں یہ خاموشی شاید اس لیے کہ وہ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پر کیا تنقید کریں کیونکہ وہ پنجاب میں کارکردگی دکھا ہی رہی ہیں جو پنجاب کے عوام کو نظر بھی آ رہی ہے مگر لاہور سے دور پشاور میں بیٹھے وزیر اعلیٰ کے پی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کی آنکھوں سے اوجھل ہیں اور صوبائی مشیر ہو کر انھیں وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت پر تنقید سے فرصت نہیں اور وہ ملکی سیاست پر اظہار خیال، مسلم لیگ (ن) پر تنقید ہی میں مصروف رہتے ہیں اور ان کے پاس کے پی کی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی بتانے کا مواد ہے ہی نہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ کے پی اپنے صوبے پر توجہ دینے کے بجائے اپنے بانی کی رہائی کے لیے کوششوں میں زیادہ مصروف رہے ہیں اور کرم اور پارا چنار کے اہم مسئلے پر تب توجہ دی جہاں وہاں سیکڑوں ہلاکتیں ہو چکی تھیں اور وفاقی حکومت یہ اہم مسئلہ حل کرانے پر مجبور ہوئی کیونکہ امن و امان برقرار رکھنا کے پی حکومت کی ذمے داری تھی مگر بہت دیر بعد اسے ہوش آیا اور اب کے پی حکومت نے کرم میں بلاتفریق سخت کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ حالات کنٹرول میں نہیں آ رہے کرم میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن اور بگن میں کرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔

تینوں صوبوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہی کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ پہلے ان کے سرکاری اجلاسوں میں ان کے والد اور تین بار وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی بیٹی کے ہمراہ بیٹھتے تھے جس پر پی ٹی آئی کو اعتراض تھا جس پر بڑے میاں صاحب اب نظر نہیں آ رہے ۔

اپنے والد میاں نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف کی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی حکومت بڑی مہارت سے چلا رہی ہیں۔البتہ ارکان اسمبلی شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ انھیں اپنے علاقائی مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔

تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواہشمند تھے مگر فروری کے انتخابی غیر متوقع نتائج نے ان کا راستہ روک لیا تھا اور بڑے میاں صاحب کو پھر اپنے چھوٹے بھائی کے لیے وزارت عظمیٰ کی قربانی دینا پڑی۔ پنجاب کے سرکاری اجلاس میں بڑے میاں صاحب ان کے مخالفین سے برداشت نہیں ہو رہے تھے اور میاں صاحب کا اقتدار سے باہر آ کر بنایا گیا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بڑا مقبول ہوا تھا ۔اب موجودہ (ن) لیگی حکومت بھی واضح کرتی رہتی ہے کہ وہ اور بالاتر آپس میں ایک ہیں اور حکومت بہت اچھی چل رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ پیپلز پارٹی کو بھی شکایات کا موقعہ دے رہی ہے مگر بڑے میاں صاحب بھی پیپلز پارٹی کے حکومت مخالف بیان کا جواب بھی نہیں دیتے ہیں ۔ بالاتروں کی مخالفت کا کام اب پی ٹی آئی کے بانی اور پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن کے ہاتھ آ چکا ہے۔

میاں نواز شریف سیاست میں اپنی حکومت کی کارکردگی پربولتے ہیں اور نہ کسی اور پر تنقید کر رہے ہیں اور میڈیا سے تو وہ ویسے بھی دور رہتے ہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے سلسلے میں فوری متحرک ہوں کیونکہ (ن) لیگ کی ساکھ کو اب نواز شریف بہتر بنا سکتے ہیں اور (ن) لیگ کے ناراض رہنماؤں کو منانے کا کام بھی کرسکتے ہیں کیونکہ یہ خوبی ان میں ہے اور نواز شریف کے متحرک نہ ہونے سے (ن) لیگ میں مایوسی اس کے رہنماؤں کو نظر انداز کیے جانے کی شکایات بڑھ گئی ہیں اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ میاں صاحب اپنی پارٹی میں متحرک ہو جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں