کتاب اور دہشت گردی

زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کو برتری حاصل ہوئی۔

ڈاکٹر چارلس ڈارون (1809-1889) کے نظریہ ارتقاء کے تحت چمپنز سے انسان ارتقاء پذیر ہوا۔ انسان جب غاروں میں رہتاتھا تو ابلاغ کا ارتقاء شروع ہوا۔ انسانوں نے پہلے اشاروں کے ذریعہ اپنا خیال دوسروں کو منتقل کرنا شروع کیا۔ پھر انسان نے لکھنے کا طریقہ سیکھ لیا۔ انسان پہلے درخت کی چھالوں پر اور جانوروں کی کھالوں اور پتھروں پر لکھتا تھا ۔

اس طرح انسانوں میں مزید شعور اجاگر ہونا شروع ہوا اور اپنی تخلیق کو کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی روایت پڑی۔ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے پیغمبر بھیجے۔ ان پر کتابیں اتریں اور 16ویں صدی میں کاغذ کی ایجاد اور پھر پریس کی ایجاد نے علم کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یورپی ممالک میں کتاب کے ذریعے علم کے پھیلاؤ کا عمل تیز ہوا۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ درمیانہ طبقہ اور مزدور طبقہ کا وجود ہوا اور شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے نئے خیالات کو تخلیق کرنا شروع کیا۔

اخبار کے ادارے کے قیام کے ساتھ عوام اور حکمرانوں میں ابلاغ کا عمل مستحکم ہوا۔ سیاسی جماعتوں، مزدور، ادیبوں اور شاعروں کی انجمنوں کے قیام سے یورپ میں علمی ماحول کو تقویت ملنے لگی۔ اس کے ساتھ کتابوں کی اشاعت بھی تیز ہوگئی۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یورپ میں چرچ کی آمریت تھی۔

بادشاہ وقت اور چرچ کے گٹھ جوڑ سے انسانوں میں شعور پیدا کرنے والے خیالات کی بیخ کنی کی جاتی تھی۔ یورپ ان کتابوں پر پابندی لگادینا چاہتا تھا جو چرچ کے خیالات کی نفی کرتی تھیں۔ فرانس کی St Joan of Arc نے چرچ کے مروجہ نظریات کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ جان آف آرک کو عدالت کے حکم پر پھانسی دیدی گئی تھی۔ اٹلی کے سائنس دان گلیلو نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ چرچ نے اس کی کتاب کو ضبط کرکے گلیلو کو سزائے موت دیدی تھی۔

یورپی ممالک میں مذہبی کتابوں کے علاوہ سائنس، سیاسیات اور فلسفہ سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگی۔ یورپ میں 14ویں صدی سے 17ویں صدی تک احیائے علوم Renaissance کی تحریکیں چلیں۔ احیائے علوم کے اس دور میں مذہب اور ریاست کو علیحدہ کیا گیا۔ زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کو برتری حاصل ہوئی۔

اس کے ساتھ فرد کی آزادی ، نئے نظریات کا پرچار کرنے اور زندگی اور دنیا سے متعلق ہر قسم کے نظریات پر بحث کی آزادی کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اس عرصے میں ریاست پر عوام کی بالادستی، غربت کے خاتمے، خواتین اور مردوں کے درمیان امتیاز کے خاتمہ اور تعلیم اور صنعتی ترقی کی اہمیت پر بہت تحقیق ہوئی۔ برطانیہ آزادئ اظہار اور منحرفین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشل ازم کے متعلق نئے خیالات سامنے آئے۔

 کارل مارکس 5 مئی 1818 کو جرمنی کے شہر Trier میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک خوشحال گھرانہ سے تھا،مارکس نے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے سوشل ازم کا نظریہ پیش کیا۔ جرمنی اور بیلجیئم وغیرہ میں مارل مارکس کے نظریات پر پابندی لگ گئی۔ مارکس کو برطانیہ میں پناہ ملی۔ مارکس نے برطانیہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے عظیم کتاب داس کیپیٹال تحریر کی۔ کارل مارکس 64سال کی عمر میں 14 مارچ 1883 کو لندن میں انتقال کرگیا۔ انسانی تاریخ میں برطانیہ کا نام اس بناء پر روشن حرفوں سے لکھا جانے لگا کہ برطانیہ نے ہی کارل مارکس کو پناہ دی۔

برصغیر ہندوستان میں مغلوں نے کئی سو سال تک حکومت کی۔ مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری تحریر کی تھی مگر اکبر کے دور میں جب ولندیزی افسروں نے پرنٹنگ پریس کا نمونہ پیش کیا تو اکبر کے دربار کے نورتن اس نمونہ کو شایع کرنے والی پرنٹنگ پریس کی اہمیت کو محسوس نہ کرسکے۔ مغل بادشاہ سلطنت عثمانیہ کے خلفاء کی تابعداری کرتے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ کے خلفاء نے قرآن شریف کو پرنٹنگ پریس پر چھاپنے کی اجازت نہیں دی تھی اور اس عمل کو حرام قرار دیا گیا۔

شاید یہی ایک وجہ تھی کہ مغلوں کے دور میں تعلیم پر توجہ نہیں رہی۔ اس دور میں کئی عظیم شاعروں نے اپنی شاعری کا جادو تو ضرور جگایا مگر ان کا کلام بھی سینہ با سینہ منتقل ہوا۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے اپنے شہریوں کو اظہارِ رائے اور تخلیق اور تحقیق کی آزادی دی مگر اپنی نوآبادیات کے شہریوں کو ہر قسم کی آزادی سے محروم رکھا گیا۔

برطانیہ نے جب ہندوستان میں جدید تعلیمی، انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا تو دہلی سے کلکتہ تک ریل گاڑی چلائی اور بجلی آنے کے ساتھ جدید صنعت کاری کا آغاز ہوا تو ہندوستان میں پہلی دفعہ متوسط اور مزدور طبقہ پیدا ہوا۔ سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں۔ پرنٹنگ پریس مختلف شہروں میں لگ گئیں۔ انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قائم کیا۔ اس فورٹ ولیم کالج نے اردو کی قدیم کتابوں کو دوبارہ شایع کرنا شروع کیا، یوں اب مقامی زبانوں کے علاوہ ہندوستان میں انگریزی، اردو اور مقامی زبانوں میں کتابیں شایع ہونے لگیں۔ انگریز حکومت نے آزادی کے خیالات کو تقویت دینے والی کتابوں پر پابندی اور ان کے مصنفین پر مقدمہ چلانے کے لیے قانون سازی کی مگر ہندوستان بھر میں مختلف موضوعات پر کتابیں تحریر کرنے اور ان کی اشاعت پر خصوصی تقریبات کرانے کی روایت بھی شروع ہوئی۔

 جب ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان وجود میں آیا تو وہ تمام سیاہ قوانین جو ہندوستان میں نافذ تھے وہ پاکستان میں بھی نافذ ہوئے۔ ان قوانین میں آزادئ صحافت ، آزادئ اظہار اور تخلیق کی آزادی کو کچلنے والے قوانین بھی شامل تھے۔

آزادی کے چند سال کے اندر عظیم افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کے افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کو پنجاب کی انتظامیہ نے فحش قرار دیا اور ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلا۔ عظیم شاعر فیض احمد فیض اور دیگر ترقی پسند ادیب منٹو کے صفائی کے گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے منٹو پر جرمانہ کیاجو اپیل میں ختم ہوا۔ اس کے بعد کتابوں کی اشاعت پر کوئی بڑی پابندی نہ لگی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی نسل کو کتابوں سے دلچسپی نہیں رہی جس کے اثرات آنے والی نسلوں پر پڑے۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے ایک مصنوعی معاشرہ ارتقاء پذیر ہوا اور کتابوں کی دکانیں ختم ہونے لگیں۔ پبلشروں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس کاروبار میں کئی ریٹرین(Retrain) نہیں مگر اس تمام منفی صورتحال کے باوجود بلوچستان میں خواندگی کی شرح بڑھی اورایک وقت آیا جب پتہ چلا کہ سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں پڑھی جارہی ہیں ۔ بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کی کتابوں میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گوادر سمیت چھوٹے شہروں میں بھی باقاعدہ کتب میلے منعقد ہوتے ہیں اور ان میلوں میں لاکھوں کروڑوں روپوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔

بلوچستان کے نوجوان مارکس ،لینن ، اینگل، چی گویرا کی کتابوں کے علاوہ دنیا کے بڑے ادیبوں کے علاوہ ترقی پسند مصنفین سید سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، علی عباس جلالپوری اور بلوچی ادب کی کتابوں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔۔ بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے لکھا ہے کہ گوادر اور اطراف کے علاقوں میں منشیات کے اڈے چل رہے ہیں۔

نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد آسانی سے منشیات خریدتے ہیں مگر پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ ایک اور صحافی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کو Dark Agesکی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اب تو کتابی دہشت گردی کی اصطلاح بھی استعمال ہورہی ہے، جس معاشرے میں کتابوں پر پابندی لگ جائے ،اس کی قسمت میں زوال پذیر ہونے کے علاو ہ کچھ نہیں لکھا ہوتا۔

Load Next Story