پاکستان میں بیٹھ کر بہت سے لوگ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نئی جہتوں کو تلاش کرنے کی جو بھی کوشش کر رہے ہیں، اس پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔
مسئلہ محض صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نہیں ہے بلکہ سابق صدر بائیڈن کی اپنی انتظامیہ کے دور میں بھی تعلقات مثالی نہیں تھے۔جن لوگوں کا خیال تھا کہ بائیڈن کے دور میں پاکستان امریکا کے درمیان کچھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوں گی جو پاکستان کے حق میں ہوں گی مگر ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل سکا۔بائیڈن انتظامیہ نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں کسی بھی پاکستانی رہنما سے کوئی براہ راست بات چیت نہیں کی اور نہ ہی ان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کرنا مناسب سمجھا۔امریکا کی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بہت سے سکہ بند دانشوروں کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکا کی ضرورت پاکستان نہیں ہے۔
بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ بھی پاکستان کے ساتھ وہ کچھ نہیں کرے گی جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ ایک سوال پاکستان امریکا کے درمیان افغانستان کے حالات ہیں۔امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکا کا بڑا انحصار پاکستان پر کم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی یا ڈپلومیسی کی سطح پر بہت زیادہ گفتگو دیکھنے کو نہیں مل سکی ۔ خود نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بہت زیادہ پاکستان کے تناظر میں گفتگو نہیں کی جو امریکی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔
اگر امریکا بھارت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے یا اس کی توجہ کا مرکز ہے تو اس کی وجہ چین کے ساتھ امریکا کے نئے تعلقات ہوں گے۔جب کہ خود پاکستان کا بھی انحصار اس وقت چین پر ہے اور خاص طور پر سی پیک یعنی چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کے تحت اربوں ڈالر کے چینی منصوبے کی شراکت داری کا ثبوت ہیں۔امریکا میں بہت سے لوگ پاکستان کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان میں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان چین تعلقات کے تناظر میں بہت زیادہ دباؤ کا سامنا دیکھنے کو مل سکتا ہے۔حالانکہ ہم یہ نہیں چاہتے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ امریکا اور چین کے درمیان ایک توازن پر مبنی سفارتی کاری اختیار کرے اور یہ تاثر نہ دے کہ ہم کسی ایک ملک کے ساتھ کھڑے ہیں۔کیونکہ خطرہ یہ ہے کہ اگر امریکا کی طرف سے ہم پر دباؤ آتا ہے اور چین پر مبنی پالیسی پر امریکا کے تحفظات سامنے آتے ہیں تو ایسے میں ہمیں معیشت کے میدان میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب افغانستان کے حالات بھی بدل گئے ہیں اور طالبان حکومت کا بہت زیادہ انحصارہم سے زیادہ بھارت پر ہے۔اسی طرح پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کوئی درمیانی راستہ اختیار کرے گا۔کیونکہ پاکستان کئی برسوں سے سنجیدہ کوشش کر رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آئے۔لیکن بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں بھی انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اور بالخصوص کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی۔مگر بھارت کی طرف سے اس پر کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا تھا۔اسی طرح بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں پاکستان کی داخلی سیاست بھی اہمیت اختیار کر سکتی ہے۔
بہت سے لوگوں نے بانی پی ٹی آئی کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے کافی امیدیں باندھی ہوئی ہیں۔بظاہر ایسا کوئی ممکن نظر نہیں آتا کہ نئے امریکی صدر براہ راست بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں کوئی بڑا کردار ادا کریں گے۔البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اس کام میں سفارت کاری کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔