پاکستان ایک نظر میں ’’معزز ملزمان کو مطلع کیا جاتا ہے‘‘
ایک دفعہ پولیس کو آنے میں دیر ہوگئی، تو ملزمان بڑے بگڑے کہ حد ہوگئی، وعدہ خلافی کی۔ آپ نے ’’وقت دیا‘‘ اور آئے نہیں۔
''ڈاکو رونے لگا۔ صاحب، کیا کروں آج کل ''کام'' میں برکت نہیں رہی، ایک ڈاکے سے وارا نہیں آتا، کئی ڈاکے ڈالتا ہوں، تب جا کے گزر بسر ہوتی ہے!۔''
ان سطروں کا مفہوم نام وَر ادیب انتظار حسین کے زیر مطالعہ ناول ''آگے سمندر میں ہے'' سے لیا ہے۔ یادیہ یوں آیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی لوٹ مار اور مار دھاڑ کرنے والوں ''معزز ملزمان'' کے لیے اعلا ظرفی کا ثبوت دے کر میلہ لوٹ لیا ہے۔
خبر ہے کہ ''عید کے بعد آپریشن ہوگا!'' لگتا ہے کسی معالج نے بتایا ہے کہ آنکھ، ناک یا گلے کا کوئی آپریشن ہے، وہ عید کے بعد ہوگا۔ ظاہر ہے پہلے کرالیا تو عید جیسا تہوار بستر کی نذر ہو جائے گا، مگر ٹھہریے، یہ تو قانون نافذ کرنے والوں کا آپریشن ہے، جس سے مراد کوئی بڑی مربوط کارروائی ہے۔
مہمان کے آداب میں ہے کہ کہیں جاؤ تو اطلاع کر کے جاؤ، سو وہی مہمان داری نبھا رہے ہیں۔ بات بھی تو نئی نہیں، پہلے عبدالرحمن ملک وزارت داخلہ چلاتے تھے، وہ بھی تو باقاعدہ اعلان کر کر کے ملزمان کو پکڑنے جاتے تھے کہ بس آج رات ۔ ٹھیک 12 بجے کے بعد۔بس کل ہی!'' ظاہر ہے بھئی ملزمان جو بھی ہوں، پہلے تو وہ انسان ہیں، اب انہیں بن بتائے جا کر دھر لو، تو بھلا وہ کوئی بے گناہ عام شریف شہری ہو گئے، جنہیں سادے کپڑوں میں دھر لو اور نامعلوم عقوبت خانوں میں لے کر مار ڈالو اور ویرانے میں پھینک آؤ!
حد ہوتی ہے یار۔۔۔عزت کرانے کے لیے عزت کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے ملزم ہمارے سر آنکھوں پر۔ آخر کو ہماری واحد ابھرتی ہوئی بھتے کی صنعت چلا رہے ہیں، کل کلاں کو اگر یہ صنعت بھی ڈوب گئی تو اپنے بچوں کو معاشرتی علوم میں کیا پڑھائیں گے، کہ مصیبت کے مارے غریب ڈکیتوں نے خون پسینے کی کمائی کے ذریعے کراچی میں بھتے کی عظیم الشان صنعت قائم کی اور حکومت نے دیگر صنعتوں کی طرح اس کا بھی تیاپانچا کردیا!
بس، اسی لیے حکومت چاہے پچھلی ہو یا موجودہ، ملزمان کا احترام سب پر واجب ہے۔ عید پر عوام کو چاہے موبائل بند کرکے مار ڈالو، مگر ملزمان کو تو ڈھنگ سے عید منانے دو۔ آخر کو ملک بھر سے یہاں رمضان کا سیزن کرنے آتے ہیں۔ کیسی بری بات ہوگی کہ جمع پونجی سمیٹنے والے پردیسیوں کو پکڑ لیں۔
عید کے فوراً بعد جیسے ہی ان کی کمائی محفوظ مقام پر منتقل ہو جائے، ہم ضرور انہیں اپنا مہمان بنائیں گے، کچھ دن کے لیے، بھئی سیکھنے کو بہت کچھ ''ملتا'' ہے ۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ پولیس اور رینجرز کی اعلان کردہ ہر کارروائی کے بعد تمام ملزمان مقررہ وقت پر اپنی اپنی کمین گاہوں میں پہنچ جاتے ہیں اور نہا دھو کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ کب ان کے چاہنے والے انہیں آہنی گہنا پہنا کر درجنوں گاڑیوں کے جلو میں ''مہمان خانے'' لے جائیں۔ ایک دفعہ تو پولیس کو آنے میں دیر ہوگئی، تو ملزمان بڑے بگڑے کہ حد ہوگئی، وعدہ خلافی کی۔ آپ نے ''وقت دیا'' اور آئے نہیں۔ نہ فون کا کوئی جواب اور نہ کوئی میسج کا۔ ہمارے ''کام'' کا حرج ہو رہا ہے اور آپ نے تو اپنی طرح ہمیں فالتو سمجھ رکھا ہے!
اطلاع دے کر جانے سے پکڑنے والوں کو یہ فایدہ بھی تو ہوتا ہے نا کہ سارے کے سارے ملزمان ''ایک چھت کے نیچے'' مل جاتے ہیں۔ بغیر اطلاع جا کر پکڑیں، تو اکثر ملزمان ''آؤٹ ڈور'' ہوتے ہیں۔ بہت سے ملزمان ''کاروبار'' کے سلسلے میں شہر سے بھی باہر ہوتے ہیں۔ خبر دے دیتے ہیں، تو اطمینان سے سارے کام نمٹا کر آجاتے ہیں، ان کے گھر والیوں کو بھی اطمینان رہتا ہے کہ میاں صاحب آج اغوا برائے تاوان کے لیے 10 بچے اغوا کر کے بہ حفاظت وقت پر لوٹ آئے ہیں۔ بچے بھی مطمئن کہ ابو آج بھتے کے لیے فلاں جگہ ''ایریا'' کرکے آنے ہی والے ہوں گے اور اب بس یہیں تھانے تک گئے ہیں!
جیسے ہی وہ ''ہٹو بچو'' کا شور مچاتے ہوئے آتے ہیں۔ سارے ملزمان دیدۂ دل فرش راہ کئے ہوتے ہیں۔ اول تو انہیں دستک دینے کی نوبت ہی نہیں آتی، ملزم بے چینی سے خود دروازے پر آموجود ہوتا ہے۔ اگر دروزاہ کھٹکھٹانا بھی پڑ جائے، تو مہمان نوازی کے پورے اصول کے تحت عزت سے تین دفعہ کھٹکھٹا کے لوٹ آتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی اس شہر کا عام بندہ تو ہے نہیں کہ دروازہ توڑ ڈالیں یا دیوار پھیلانگ کر اندر کودیں۔
لکھنا کیا تھا اور لکھنے کیا بیٹھ گیا۔ کراچی میں ''سخت'' کارروائی کو پورا سال ہوگیا۔ روزانہ درجنوں ''ملزمان'' دھر لئے جاتے ہیں۔ کتنوں نے بھتا خوری، قتل اور اغوا برائے تاوان کا اعتراف کر لیا۔ روزانہ کی 10 لاشیں گرانے والی ''چھوٹی تباہی تو رکتی نہیں اور دعوے شہر کو ''بڑی'' تباہی سے بچانے کے !
زور چلتا ہے تو نہتے شہریوں پر، جنہیں مشکوک کہہ کر گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ وجہ بتائے بغیر اٹھا لیا جاتا ہے، اور پھر لاشیں ملتی ہیں۔ اگر اب بھی کوئی ان کی حمایت میں عذر تراشی کرتا ہے، تو مجھے بتائے کہ 1989ء سے رینجرز جب سے کراچی میں آئی ہے ، یہاں خوں ریزی بڑھی ہے یا گھٹی ہے؟۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ان سطروں کا مفہوم نام وَر ادیب انتظار حسین کے زیر مطالعہ ناول ''آگے سمندر میں ہے'' سے لیا ہے۔ یادیہ یوں آیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی لوٹ مار اور مار دھاڑ کرنے والوں ''معزز ملزمان'' کے لیے اعلا ظرفی کا ثبوت دے کر میلہ لوٹ لیا ہے۔
خبر ہے کہ ''عید کے بعد آپریشن ہوگا!'' لگتا ہے کسی معالج نے بتایا ہے کہ آنکھ، ناک یا گلے کا کوئی آپریشن ہے، وہ عید کے بعد ہوگا۔ ظاہر ہے پہلے کرالیا تو عید جیسا تہوار بستر کی نذر ہو جائے گا، مگر ٹھہریے، یہ تو قانون نافذ کرنے والوں کا آپریشن ہے، جس سے مراد کوئی بڑی مربوط کارروائی ہے۔
مہمان کے آداب میں ہے کہ کہیں جاؤ تو اطلاع کر کے جاؤ، سو وہی مہمان داری نبھا رہے ہیں۔ بات بھی تو نئی نہیں، پہلے عبدالرحمن ملک وزارت داخلہ چلاتے تھے، وہ بھی تو باقاعدہ اعلان کر کر کے ملزمان کو پکڑنے جاتے تھے کہ بس آج رات ۔ ٹھیک 12 بجے کے بعد۔بس کل ہی!'' ظاہر ہے بھئی ملزمان جو بھی ہوں، پہلے تو وہ انسان ہیں، اب انہیں بن بتائے جا کر دھر لو، تو بھلا وہ کوئی بے گناہ عام شریف شہری ہو گئے، جنہیں سادے کپڑوں میں دھر لو اور نامعلوم عقوبت خانوں میں لے کر مار ڈالو اور ویرانے میں پھینک آؤ!
حد ہوتی ہے یار۔۔۔عزت کرانے کے لیے عزت کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے ملزم ہمارے سر آنکھوں پر۔ آخر کو ہماری واحد ابھرتی ہوئی بھتے کی صنعت چلا رہے ہیں، کل کلاں کو اگر یہ صنعت بھی ڈوب گئی تو اپنے بچوں کو معاشرتی علوم میں کیا پڑھائیں گے، کہ مصیبت کے مارے غریب ڈکیتوں نے خون پسینے کی کمائی کے ذریعے کراچی میں بھتے کی عظیم الشان صنعت قائم کی اور حکومت نے دیگر صنعتوں کی طرح اس کا بھی تیاپانچا کردیا!
بس، اسی لیے حکومت چاہے پچھلی ہو یا موجودہ، ملزمان کا احترام سب پر واجب ہے۔ عید پر عوام کو چاہے موبائل بند کرکے مار ڈالو، مگر ملزمان کو تو ڈھنگ سے عید منانے دو۔ آخر کو ملک بھر سے یہاں رمضان کا سیزن کرنے آتے ہیں۔ کیسی بری بات ہوگی کہ جمع پونجی سمیٹنے والے پردیسیوں کو پکڑ لیں۔
عید کے فوراً بعد جیسے ہی ان کی کمائی محفوظ مقام پر منتقل ہو جائے، ہم ضرور انہیں اپنا مہمان بنائیں گے، کچھ دن کے لیے، بھئی سیکھنے کو بہت کچھ ''ملتا'' ہے ۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ پولیس اور رینجرز کی اعلان کردہ ہر کارروائی کے بعد تمام ملزمان مقررہ وقت پر اپنی اپنی کمین گاہوں میں پہنچ جاتے ہیں اور نہا دھو کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ کب ان کے چاہنے والے انہیں آہنی گہنا پہنا کر درجنوں گاڑیوں کے جلو میں ''مہمان خانے'' لے جائیں۔ ایک دفعہ تو پولیس کو آنے میں دیر ہوگئی، تو ملزمان بڑے بگڑے کہ حد ہوگئی، وعدہ خلافی کی۔ آپ نے ''وقت دیا'' اور آئے نہیں۔ نہ فون کا کوئی جواب اور نہ کوئی میسج کا۔ ہمارے ''کام'' کا حرج ہو رہا ہے اور آپ نے تو اپنی طرح ہمیں فالتو سمجھ رکھا ہے!
اطلاع دے کر جانے سے پکڑنے والوں کو یہ فایدہ بھی تو ہوتا ہے نا کہ سارے کے سارے ملزمان ''ایک چھت کے نیچے'' مل جاتے ہیں۔ بغیر اطلاع جا کر پکڑیں، تو اکثر ملزمان ''آؤٹ ڈور'' ہوتے ہیں۔ بہت سے ملزمان ''کاروبار'' کے سلسلے میں شہر سے بھی باہر ہوتے ہیں۔ خبر دے دیتے ہیں، تو اطمینان سے سارے کام نمٹا کر آجاتے ہیں، ان کے گھر والیوں کو بھی اطمینان رہتا ہے کہ میاں صاحب آج اغوا برائے تاوان کے لیے 10 بچے اغوا کر کے بہ حفاظت وقت پر لوٹ آئے ہیں۔ بچے بھی مطمئن کہ ابو آج بھتے کے لیے فلاں جگہ ''ایریا'' کرکے آنے ہی والے ہوں گے اور اب بس یہیں تھانے تک گئے ہیں!
جیسے ہی وہ ''ہٹو بچو'' کا شور مچاتے ہوئے آتے ہیں۔ سارے ملزمان دیدۂ دل فرش راہ کئے ہوتے ہیں۔ اول تو انہیں دستک دینے کی نوبت ہی نہیں آتی، ملزم بے چینی سے خود دروازے پر آموجود ہوتا ہے۔ اگر دروزاہ کھٹکھٹانا بھی پڑ جائے، تو مہمان نوازی کے پورے اصول کے تحت عزت سے تین دفعہ کھٹکھٹا کے لوٹ آتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی اس شہر کا عام بندہ تو ہے نہیں کہ دروازہ توڑ ڈالیں یا دیوار پھیلانگ کر اندر کودیں۔
لکھنا کیا تھا اور لکھنے کیا بیٹھ گیا۔ کراچی میں ''سخت'' کارروائی کو پورا سال ہوگیا۔ روزانہ درجنوں ''ملزمان'' دھر لئے جاتے ہیں۔ کتنوں نے بھتا خوری، قتل اور اغوا برائے تاوان کا اعتراف کر لیا۔ روزانہ کی 10 لاشیں گرانے والی ''چھوٹی تباہی تو رکتی نہیں اور دعوے شہر کو ''بڑی'' تباہی سے بچانے کے !
زور چلتا ہے تو نہتے شہریوں پر، جنہیں مشکوک کہہ کر گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ وجہ بتائے بغیر اٹھا لیا جاتا ہے، اور پھر لاشیں ملتی ہیں۔ اگر اب بھی کوئی ان کی حمایت میں عذر تراشی کرتا ہے، تو مجھے بتائے کہ 1989ء سے رینجرز جب سے کراچی میں آئی ہے ، یہاں خوں ریزی بڑھی ہے یا گھٹی ہے؟۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔