افغانستان سے پاکستانی سلامتی کو خطرات
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والا امریکی اسلحہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث رہا ہے۔ یہ ہتھیار دہشت گرد تنظیموں، بشمول ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ ہم مسلسل کابل میں امر واقعہ حکام سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ تمام ضروری اقدامات کریں تاکہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔
درحقیقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں جدید ہتھیاروں تک رسائی ایک بڑا خطرہ ہے، یہ جدید ہتھیار اس اسٹاک یعنی ذخیرے سے حاصل کیے گئے ہیں جو غیر ملکی افواج انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑ کر نکلیں۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کے دوران کوئی ایسا سامان نہیں چھوڑا جسے دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔
تاہم، 20 جنوری کو اپنے حلف برداری کے دن واشنگٹن میں ایک ریلی میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’انھوں نے ہمارے فوجی سازوسامان، کا ایک بڑا حصہ، دشمن کو دیا۔‘‘ٹرمپ نے افغانستان کے لیے امداد کو فوجی سازوسامان کی واپسی سے مشروط کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاملے پر اپنی انتظامیہ کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے جارہے ہیں تو، انھیں بتائیں کہ جب تک وہ ہمارا فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے ہم انھیں رقم نہیں دیں گے۔‘‘
تاہم، طالبان نے مبینہ طور پر ہتھیاروں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ داعش سے لڑنے کے لیے انھیں مزید جدید ہتھیار فراہم کرے۔پاکستانی فوج گزشتہ دو دہائیوں سے ٹی ٹی پی کے خلاف دہشتگردی کی جنگ لڑ رہی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی دستیاب ہے۔ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان رجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک تنظیم (ٹی ٹی پی) ان ہتھیاروں تک رسائی کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ پاکستان پہلے ہی اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کی مکمل جانچ کرے کہ یہ ہتھیار کیسے ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگے اور وہ ان کو واپس کرانے کا راستہ تلاش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی افغانستان کی سرزمین پر کئی دہشت گرد گروپ موجود ہیں اور اس بات کے شواہد ہیں کہ انھیں افغانستان کی عبوری حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔
کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظیمیں سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کے تسلسل سے پیش آنے والے واقعات میں ملوث ہیں، جس سے ہمارے عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کا قابل ذکر جانی نقصان ہوا ہے جب کہ فوجی اور دیگر تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ حالیہ بیان سے قبل بھی پاکستان عالمی برادری کو خبردارکرچکا ہے کہ افغانستان کے اندر اور اس سے ہونے والی دہشت گردی ملک، خطے اور دنیا کے لیے واحد سنگین خطرہ ہے۔
افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر کر علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے اپنے چھ ہزار ارکان کے ساتھ ٹی ٹی پی ایک بڑ ا اور مضبوط گروپ ہے جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنی محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے دوران ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے افغانستان میں تعینات رہنے والی غیر ملکی افواج کی طر ف سے چھوڑے گئے کچھ جدید ہتھیار پکڑے ہیں۔ دہشت گرد گروپ کو بھارت کی طرف سے بیرونی حمایت اور مالی اعانت بھی حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی تیزی سے دوسرے دہشت گرد گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے والی تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کا مقصد افغانستان کے پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
ہمارے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان حملوں اور دہشت گرد کارروائیوں میں بہت سے دہشت گرد پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہوجاتے ہیں اور بچے کچھے واپس افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی خود افغان عبوری حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس پر مٹی ڈال کر چھپانے کی کوشش کرنے کی بجائے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو موجودہ افغان حکومت کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔
اس طرح ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے افغان عبوری حکومت کی نیک نامی ہوگی اور افغانستان کی ایک ذمے دار ریاست کے طور پر پہچان میں مدد کرے گی اور یہی سمجھنے اور قبول کرنے کا وقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں جو افغانستان میں موجود ہیں ان کے خلاف ٹھوس اور عملی کارروائی کی جائے۔دوسری طرف اس طرح کے دہشت گروہوں کا دوبارہ سر اٹھانا خود افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے،کیونکہ یہ گروہ افغانستان میں امن و استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں خود افغان حکومت بھی اس صورتحال کو بے چینی سے دیکھ رہی ہے۔
افغان عبوری حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ مستقبل میں افغان حکومت اور افغانستان کے لیے بھی سنگین خطرے اور نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ افغان عبوری حکومت کو یہ بات بھی سمجھنی اور تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر ملک اور پڑوسی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کی مدد کی ہے۔
لاکھوں افغان بہن بھائیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی مہمان نوازی کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ بڑی دکھ کی بات ہے کہ افغان حکومت نے اب تک ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی۔ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ، پروپیگنڈا مواد کی تواتر سے ترسیل، مقامی آبادیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں اور سابق علیحدہ ہونے والے گروہوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کالعدم تنظیم دوبارہ بحال ہونے کی کوشش میں کافی آگے بڑھ چکی ہے۔
بلکہ ٹی ٹی پی کے امیر کے بقول وہ زیادہ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں لیکن ایک حکمت عملی کے تحت محدود کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو واضح طور پر افغان طالبان کا دباؤ ہوسکتا ہے لیکن دوسرا ماضی کی طرح کسی علاقے پر قبضہ حاصل نہ کرنے کی نئی پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔ علاقہ حاصل کرنے کے بعد اس کا دفاع اس سے بھی زیادہ مشکل پہلو بن جاتا ہے۔
پاکستانی طالبان کی اس قسم کی حکمت عملی بیوقوفی ہوگی لہٰذا وہ رفتہ رفتہ ملک اور حکومت کو کمزور کرنے کی حکمت علمی پر زیادہ کاربند ہیں۔ اس میں بھی وہ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کابل میں حکومت کی تبدیلی سے ٹی ٹی پی کو مزید تقویت اور حوصلہ ملا، جس سے حملوں میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں اور سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے سرحد پار حملوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کی۔افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو افغانستان سے باہر کارروائیاں نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود بہت سوں نے ایسا کیا جس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی۔ایک قابل ذکر پیش رفت ٹی ٹی پی کی صفوں میں افغان شہریوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
اہم پہلو یہ تھا کہ جس کی پاکستان بھی بارہا شکایت کر چکا ہے کہ افغان طالبان کے ارکان نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور انھیں مدد فراہم کی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ بڑی تعداد میں افغان طالبان اپنے ملک میں لڑائی کے خاتمے کے بعد سرحد پار متوجہ ہوئے ہیں۔ ان کے لیے بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھائیں۔
افغان عبوری حکومت’’دوحہ معاہدے‘‘ کے اپنے اس دعوے کو پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ دونوں ممالک کے ماحول اور ترقی کے مفادات کی طرح سیکیورٹی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک میں امن واستحکام دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ انکار کے بجائے افغان عبوری حکومت کو سرحدی ریاستوں کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ افغان طالبان حکومت اس پر غور کرے گی۔