اتوار 26 جنوری کے اخبار کی سرخی بہت خوب ہے۔ ’’ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ 5 لاکھ 19 ہزار مقررکرنے کی منظوری۔‘‘
بہت خوب قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اضافے کی منظوری متفقہ طور پر دے دی۔ ایم این ایز، سینیٹرزکو وفاقی سیکریٹریوں کے مساوی سہولیات بھی حاصل ہوں گی۔ ارکان اسمبلی کی موجودہ تنخواہ ایک لاکھ88ہزار سے بڑھا کر 5لاکھ 19 ہزار کر دی گئی ہے۔ وفاقی سیکریٹریز کے برابر الاؤنسز اور مراعات بھی حاصل ہوں گی۔ اضافے کی تجویز پی ٹی آئی کے 67 ارکان، پی پی، (ن) لیگ اور دیگر جماعتوں نے بھی کی۔
اس موقع پر مجھے ایک کہاوت یاد آ رہی ہے ’’اشرفیاں بٹیں،کوئلوں پہ مہر‘‘ تمام جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے بھلا کیوں اضافے کی فرمائش کی، جو فوراً ہی پوری ہوگئی، ان کا کیا جاتا ہے کون سی ان کے ابا جان کی تجوری سے جا رہا ہے۔ قومی خزانہ ہے خوب لوٹو۔ وزیر اعظم اور فنانس کمیٹی نے جو منٹوں میں بل پاس کر دیا، تو یہ ان خفیہ ہاتھوں کا کمال ہے جن کے ہاتھ میں خزانے کی کنجیاں اورکٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہوتی ہیں۔ ایک ڈوری سفید محل والے کے پاس ہے جس کے ایک بیان کی مار ہے پاکستان۔
بانی پی ٹی آئی کو جب منصوبے کے تحت لایا جا رہا تھا تو ’’ بڑے لوگوں‘‘ کے علاوہ عام پبلک بھی خوش تھی کہ (ن) لیگ اور پی پی مسلسل See Saw کا گیم کھیل رہی ہے، اب کسی تیسرے کو لایا جائے، میدان سج گئے، بہت کچھ گڑبڑ گھوٹالا ہونے کے بعد جب موصوف کو ’’سہارا‘‘ دے کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا گیا تو ہمیں بھی تھوڑی بہت خوشی ہوئی لیکن غبارے میں سے جلد ہوا نکل گئی، وہ تو شادیاں کرنے آئے تھے، جلد ہی ان کا بخار اترنے لگا، پھر ہوا یوں کہ موصوف نے آتے ہی سارا نزلہ ریٹائرڈ لوگوں پر نکال دیا، وہ جو کہتے ہیں ناں کہ ’’ نزلہ ہمیشہ عضو ضعیف پہ گرتا ہے‘‘ تو اس کہاوت کو انھوں نے زندہ کردیا۔
ٹی وی ٹاک شوز میں صرف پنشنرز کو قومی خزانے پر بوجھ بنا دیا گیا اور دن رات نہ صرف ٹی وی شوز بلکہ اخبارات اور سوشل میڈیا بھی کمر کس کے پی ٹی آئی حکومت کے ہم نوا بن گئے۔ دھڑا دھڑ بیانات جاری ہو رہے ہیں کہ پنشنرزکی پنشن بند کرو، یہ قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہیں، تب میں نے پنشنرزکو اور ان کے گھر والوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے کہ ہمارا گھر کیسے چلے گا؟ پاکستان کے لاکھوں پنشنرز سینہ پیٹ رہے تھے اور بد دعائیں دے رہے تھے ۔ میری پسندیدگی بھی خاک میں مل گئی ۔
لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو پنشنرز کی بد دعائیں لگی ہیں۔ بددعا ایک بھی کافی ہوتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے پہلے کبھی کسی حکمران نے پنشنرز کی بد دعائیں نہیں لیں۔ خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین۔ سچ تو یہ ہے کہ فوجی حکمرانوں نے کبھی پنشنرز کی پنشن بند کرنے کی بات نہیں کی بلکہ انھوں نے ہر سال بجٹ میں سویلین سے زیادہ اضافہ کیا۔ بانی پی ٹی آئی کو تو سویلین وزیر اعظم کا تاج پہنا کر کرسی نشین کیا گیا، لیکن انھوں نے آتے ہی ریٹائرڈ ملازمین کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اس بات کو اتنا پھیلایا کہ اگر پنشنرز کی پنشن بند نہ کی گئی تو ملک ڈوب جائے گا۔ خدانخواستہ ختم ہو جائے گا۔
اب یہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ قومی خزانے پہ بوجھ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اس بل کو پاس کرانے میں پیش پیش ہیں۔ موصوف نے بہانہ آئی ایم ایف کا کیا، ارے جناب! آئی ایم ایف والوں کو ہماری معیشت کا کیا پتا، انھیں کیا معلوم کہ ایک ریٹائرڈ ملازم کی پنشن پہ پورا گھر چلتا ہے۔ اب اسی آئی ایم ایف کو ارکان پارلیمنٹ کی یہ عیاشیاں نظر نہیں آ رہیں۔ آئی ایم ایف نے کیسے یک جنبش قلم 200 فی صد کی اجازت دے دی ساتھ ہی الاؤنس اور مراعات بھی۔
بانی پی ٹی آئی جو پنشن بند کرنے کا شوشہ چھوڑ کر گئے تھے اس کی آواز گاہے گاہے اب بھی سنی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے پہلے 20 سال کی پنشن کا شوشہ چھوڑا۔ فیملی پنشن بند کر دی گئی، اگر کوئی 80 سال کے بعد زندہ رہتا ہے تو وہ کہاں سے کھائے گا، کیا 80 سال کی عمر میں کوئی کہیں ملازمت کر سکتا ہے، کون دے گا اس عمر میں ملازمت؟ اگر کسی پنشنرز کے گھر میں معذور بچے ہیں تو فیملی پنشن بند کرنے پر وہ کیا کریں گے؟
وزیر اعظم صاحب! یہ جو آپ کے اراکین ہیں، ان سب کا پیٹ بھرا ہے۔ یہ 200 فی صد اضافہ بھی ان کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو جائے گا، دراصل آپ کی حکومت ان اراکین پارلیمنٹ سے بلیک میل ہوتی رہتی ہے، کیونکہ اگر آپ نے ان کے مطالبات نہ مانے تو یہ اپنے اپنے علاقے کے ووٹ کسی اور پارٹی کو دلوا دیں گے، اسی سے آپ ڈرتے ہیں۔ بے چارے پنشنرز آپ کا کیا بگاڑ لیں گے۔ نواز شریف نے بھی اپنے دور میں پنشنرزکو نہیں چھیڑا بلکہ ان کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا۔
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ جمہوریت اور فوجی حکومتوں میں سے آپ کسے ترجیح دیں گے؟ تو میرا جواب سیدھا سیدھا فوجی حکومت کے لیے ہوگا، لیکن اس طرح نہیں کہ:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
جس ملک میں جاگیرداروں اور زمینداروں کا معاشرہ ہو، وہاں نام نہاد جمہوریت کا کیا کام؟ ہاریوں کو حکم دے دینا کہ ’’دیکھو اس نشان پہ ٹھپہ لگانا ہے۔‘‘ بے چارے ان پڑھ عوام کو کیا پتا کہ جمہوریت کس شے کا نام ہے۔ حکمرانوں کو جمہوریت کی ٹوپی کون سے خفیہ ہاتھ پہناتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی پر جب فرد جرم عائد ہوئی، ایک دن ان کی بیگم کسی سے ساڑھے چار سو کنال زمین، ان کی سہیلی ڈھائی سو کنال زمین اور پھر 28 کروڑ کیش کے علاوہ ہیرے جواہرات کی انگوٹھیاں اور بے شمار تحائف اپنا حق سمجھ کر لیے۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی بیوی کو کیوں ایک غیر مرد سے تحائف لینے کی اجازت دی، پھر ان کی سہیلی فرح گوگی کے اسکینڈل؟ کیا بانی پی ٹی آئی نے بائیس سال اسی لیے جدوجہد کی تھی کہ مال بنائیں؟ تب (ن) لیگ اور پی پی میں کیا فرق رہ گیا، لیکن (ن) لیگ اور پی پی نے کبھی سرکاری ملازمین کو پریشان نہیں کیا، بلکہ پنشن میں ہر سال اضافہ ہی کیا، چاہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن موجودہ حکومت نے جو یہ غضب ڈھایا ہے کہ فیملی پنشن بند کر دی، پنشن کی میعاد کم کردی تو یہ کس کے حکم سے؟ کیا اپنے مقامی آقاؤں کے کہنے پر یا آئی ایم ایف کے کہنے پر؟ خدارا یہ ظلم نہ کریں۔ آئی ایم ایف اب جواب طلب نہیں کرے گا کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ کیوں؟ آپ نے فوراً حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں سیپارٹی کو ووٹ دلوا سکیں اور الیکشن کا ٹوپی ڈرامہ جمہوریت کے نام پر رچائیں۔ پنشنرز بڑی مظلوم قوم ہے۔
اس پر ظلم نہ کریں، بعض پنشنرز اکیلے رہتے ہیں۔ بیٹوں نے منہ موڑ لیا ہے ، کوئی بے اولاد ہے، کسی کے معذور بچے ہیں، وہ کیا کریں گے؟ جو بانی پی ٹی آئی نے کیا وہ آپ نہ کریں، لاکھوں پنشنرز اور سرکاری ملازمین بد دعائیں دیں گے، بددعا تو عرش کو ہلا دیتی ہے۔ ان کی آہ نہ لیجیے، انھیں زندہ رہنے کے لیے دو وقت کا دال دلیہ تو چلنے دیجیے۔