نبی کریمؐ: معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر

آپؐ کی تعلیمات اور عملی مثالیں آج کے ماحولیاتی چیلنجز کا جامع حل پیش کرتی ہیں

گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ، یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کےلیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔

ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمؐ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمؐ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کےلیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کےلیے ہیں۔

ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بحیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں، کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔ جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامؐ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کردی تھی۔

احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہؐ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘ (مسند احمد :حدیث نمبر 12902) یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

نبی کریمؐ کے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کےلیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: ’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘ (سنن ترمذی :حدیث نمبر1378)

پھل دار اور سایہ دار درختوں کے حوالے سے آپؐ نے فرمایا: ’’جو مسلمان درخت لگاتا ہے اور اس کا پھل انسان، پرندے یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری :حدیث نمبر 2320)۔

اس حدیث میں بھی درختوں کی اہمیت اور ان کے ذریعے قدرتی ماحول کو فائدہ پہنچانے کی واضح تلقین و تعلیم ہے۔ اس حدیث کا مفہوم اس انداز میں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جو مسلمان کوئی درخت لگائے، اس سے جو بھی کھایا جائے وہ اس کےلیے صدقہ ہے، جو بھی چوری کیا جائے وہ اس کےلیے صدقہ ہے اور جو درندے کھائیں وہ بھی اس کےلیے صدقہ ہے اور جو پرندے کھائیں وہ بھی اس کےلیے صدقہ ہے اور جو بھی اس میں سے کم کرے (یا نقصان پہنچائے) وہ اس کےلیے صدقہ ہے۔ یعنی درخت یا پودا لگانے کے بعد کسی بھی طرح اس سے کوئی بھی فائدہ اٹھائے اللہ کریم درخت لگانے والے کو اجر عطا فرماتے رہیں گے۔

یہ ارشادات درختوں کی اہمیت اور ان کے ذریعے قدرتی ماحول کو فائدہ پہنچانے کی واضح امثال ہیں۔

نبی کریمؐ نے متعدد بار پانی کے تحفظ کو خاص اہمیت دی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہؐ سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: ’’یہ کیسا اسراف ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ’’ہاں چاہے تم بہتے دریا کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ :حدیث نمبر 425)۔ یہ حدیث ماحولیاتی شعور کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جہاں وسائل کے بے جا استعمال کی مذمت کی گئی ہے۔

موجودہ دور میں جب پانی کی قلت عالمی مسئلہ بن چکا ہے، یہ تعلیمات ہر دور کےلیے ایک عملی اصول فراہم کرتی ہیں۔ مزید برآں، آپؐ نے پانی کے ذخائر کو آلودگی سے بچانے کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ نے کنوؤں کی حفاظت اور ان کے صاف استعمال کی بھی ہدایت دی ہے، تاکہ پانی ہر کسی کےلیے محفوظ اور دستیاب رہے۔ اس تناظر میں اگر نہروں، دریاؤں اور سمندر میں آلودہ پانی خصوصاً صنعتی فضلہ بہانے کی بات کی جائے تو یہ گناہ کبیرہ کے زمرے ہی میں آئے گا۔

فضائی اور زمینی آلودگی کی روک تھام کے حوالے سے نظر ڈالی جائے تو رسول اللہؐ نے زمین کو صاف رکھنے کی تاکید کی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’نجاست کو راستوں اور سایہ دار جگہوں سے دور رکھو۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث نمبر 269) یہ حکم عوامی مقامات اور قدرتی ماحول کی صفائی کا شعور اجاگر کرتا ہے۔ موجودہ وقت میں، جب فضائی اور زمینی آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس حدیث کی عملی افادیت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے۔

وسائل کے استعمال میں میانہ روی کے سلسلے میں نبی کریمؐ نے ہر کام میں اعتدال کو پسند فرمایا ہے، خواہ وہ کھانے پینے کا معاملہ ہو یا زمین کی کاشت کاری کا۔ آپؐ نے امت کو فضول خرچی سے بچنے کا درس دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ انسان ہرگز مومن نہیں جو خود سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘ (مسند احمد: حدیث نمبر 14485)

یہ تعلیم وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے پر زور دیتی ہے۔ موجودہ دور میں قدرتی وسائل کے اندھا دھند استعمال سے ہونے والے نقصانات ان تعلیمات کی اہمیت کو اور بھی واضح کر دیتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی ماحولیات سے متعلق  تعلیمات آج بھی نہایت قابلِ عمل ہیں، جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

•    وضو اور دیگر ضروریات میں کم سے کم پانی استعمال کرنے کے سبق سے قدرت کی اس قیمتی نعمت کا ضیاع روکا جاسکتا ہے۔

•    جدید شجرکاری مہمات میں آپؐ کے اصولوں کو اپنانا سب سے مؤثر طریقہ ہوسکتا ہے۔

•    عوامی مقامات پر صفائی کا حکم آج کے کچرے اور پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کے بحران کا حل پیش کرتا ہے۔

•    اسلامی تعلیمات کو ماحولیاتی قانون سازی کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، جیسے کہ جنگلات اور جنگلی حیات کےلیے محفوظ علاقوں کا قیام۔

جدید دنیا میں نیشنل پارکس اور دیگر محفوظ علاقے مخصوص مقاصد کے تحت مختص کیے جاتے ہیں تاکہ قدرتی وسائل، ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس کی مثال ہمیں دورِ نبوی میں ملتی ہے، جب مدینہ منورہ میں آپؐ نے باغات اور چراگاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے مخصوص علاقے کو ’’حِمٰی‘‘ (محفوظ علاقہ) قرار دیا تاکہ زمین اور جنگلی حیات محفوظ رہ سکیں۔

آج کے دور میں مشاہدہ کیا جائے تو نیشنل پارک وغیرہ قدرتی ماحول کا تحفظ، جنگلی حیات کی حفاظت، ماحولیاتی توازن برقرار رکھنا، تعلیمی اور تحقیقی مواقع، سیاحت اور تفریح، ثقافتی اور تاریخی ورثے کا تحفظ اور آفات سے بچانے کےلیے مختص کیے جاتے ہیں۔

ماحول کا مطلب صرف ہوا، پانی، فضا، سورج نہیں بلکہ جانور اور پرندے بھی ماحول کا اہم حصہ ہیں۔ نبی کریمؐ نے ان کی حفاظت اور حقوق کی ادائیگی کی خصوصی تلقین فرمائی ہے۔ آپؐ نے نہ صرف جانوروں پر ظلم سے منع فرمایا ہے بلکہ ان کی فلاح کےلیے بھی ہدایات  دی ہیں۔

آپؐ نے ایک صحابی کو پرندے کے گھونسلے سے ان کے انڈے اٹھانے پر تنبیہ کی، کیوں کہ پرندہ بے چین ہورہا تھا۔ اسی طرح جانوروں کو غیر ضروری تکلیف دینے، انہیں بھوکا رکھنے، یا شکار میں زیادتی کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ایک اور واقعہ آپؐ کی رحم دلی کو واضح کرتا ہے: آپؐ نے صحابہ کو ایک ہرن کو شکار سے آزاد کرنے کی  ہدایت دی کیوں کہ اس کے بچے اس کا دودھ پینے کےلیے انتظار کررہے تھے۔

ہمیں نبی کریمؐ کی تعلیمات میں جانوروں پر ان کی سکت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کی بھی ممانعت ملتی ہے۔ آپؐ نے سواری کے جانوروں کو مناسب آرام اور خوراک دینے کی بھی تلقین فرمائی۔ یہ تمام اصول موجودہ دور میں جانوروں کے تحفظ کی پالیسیوں کےلیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

جدید ماحولیاتی ماہرین اکثر تکنیکی حل پیش کرتے ہیں، مگر ان میں روحانی پہلو اور اخلاقیات کی کمی ہوتی ہے۔ نبی کریمؐ کی تعلیمات ماحولیاتی تحفظ کو ایک اخلاقی، روحانی، اور عملی ذمے داری قرار دیتی ہیں جو کہ ان ماہرین کی تحقیق سے کہیں زیادہ جامع، مفصل اور پائیدار ہے۔

نبی کریمؐ نہ صرف ایک عظیم رہنما اور مصلح تھے بلکہ انسانی تاریخ کے پہلے حقیقی ماحولیاتی ماہر بھی تھے۔ آپؐ کی تعلیمات اور عملی مثالیں آج کے ماحولیاتی چیلنجز کا جامع حل پیش کرتی ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنائیں تو نہ صرف ہماری زمین محفوظ ہوسکتی ہے بلکہ ہم اللہ کی خوشنودی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
 
یہی وہ سبق ہے جو نہ صرف جدید دور کے ماہرین کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے بلکہ عام انسان بھی زمین کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال کر دنیا تو کیا، آخرت میں بھی سرخرو ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story