
مسئلہ کشمیر نہ صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا ء کا مسئلہ ہے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے کیوں کہ ایشیا میں واقع جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم علاقہ ہے جنوبی اور مشرقی ایشیا سے اس کے تاریخی رابطے ہیں اور یہ کہ پاکستان،افغانستان،چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔
اس کا رقبہ اٹھاسی ہزار نو سو مربع میل ہے۔ایک تہائی شمالی حصہ پاکستان کے اور دو تہائی حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔
انیس سو سینتالیس اور اڑتالیس کے درمیان ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی ،مجاہدین نے آزادی کی جنگ شروع کردی، انیس سو انچاس میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور قرارداد کے ذریعے استصواب رائے کے لیے کہا۔
بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور ریفرنڈم کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔انیس سو پینسٹھ میں مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک کی جنگ ہوئی سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی سازش کے نتیجے میں پاکستان و بھارت کی جنگ ہوئی جو کہ بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔
1972 میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتہ پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا۔انیس سو نواسی میں نام نہاد انتخابات کے بعد کشمیری حریت پسندوں کی سر گرمیاں شروع ہوئیں۔
انیس سو چھیانوے کے انتخابات کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا۔انیس سو ننانوے میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا لیکن کارگل کے واقعے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی۔سن دو ہزار میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔چوبیس جولائی سن دو ہزار کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔آٹھ اگست سن دو ہزار کو بھارتی رویے کے باعث اعلان واپس لے لیا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد بار مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات ہوچکے ہیں جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئے۔بھارت نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے جب کہ پاکستان آج بھی بین الاقوامی اصولوں پر قائم ہے اور مسئلہ کشمیر کو ہر مقام پر پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہ ہے لیکن بھارت ہر بار چالاکی و عیاری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ایک طرف وہ امن کی باتیں کرتا رہا ہے تو دوسری طرف وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم بربریت کا بازار گرم کرتا رہا ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے۔کشمیر کے عوام غاصب بھارت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ کیوں کر پیدا ہوا ہے؟اس سوال کے جواب سے پوری عالمی برادری اچھی طرح واقفیت رکھتی ہے یعنی مسئلہ کشمیر اس کا بنیادی سبب ہے اور اس امر کا بھی انھیں اعتراف ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی ذمے داری پاکستان پر عائد نہیں کی جاسکتی کیوں کہ بھارت کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کے طور پر ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
تعجب خیز بات ہے یہ کہ بھارت ایک طرف امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے اور سو گنا دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہوا ہے اور کشمیریوں کو شہید کرنا،کشمیری خواتین کی عزتوں کو پامال کرنا انھیں زیر حراست شہید کرنا،ان کی املاک کو نقصان پہنچانا،کشمیری نوجوانوں کو اغواء کرکے غائب کرنا ،جیسے حالات و واقعات میں مصروف بھارت کس منہ سے امن و آشتی کی بات کرتا ہے؟سچ یہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا دادا گیر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن اس امن پسندی کو کمزوری و بزدلی نہ تصور کیا جائے۔
کشمیر کے عوام بھارت کی دہشت گردی و بربریت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان انھیں اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے۔لہٰذا عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ بڑھا کر کشمیریوں کی اخلاقی مدد کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان و بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔
یہ حقیقت بھی ہم پر عیاں ہے کہ پاکستان کی بدخواہ کچھ عالمی قوتیں پاکستان کو کمزور کرنے پر تلی نظر آتی ہیں تاکہ بھارت مزید طاقتور بنے اور اس طرح جنوبی ایشیا میں بھارت ان کے مفادات کی رکھوالی کرسکے اور انھیں مزید فروغ دے سکے۔
اس لیے پاکستان کو ہر حال میں اپنی ایٹمی قوت کی حفاظت کرنا ہے تاکہ پاکستان دشمن کے لیے تر نوالہ نہ بن سکے۔اس سلسلے میں پاکستانی قوم ہر امتحان و آزمائش سے نبردآزما ہونے کے لیے کمر بستہ ہے۔بھارت برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کررہا ہے اور پاکستان کے اندر بھی بھارتی پراکسی وار میں مصروف ہے اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے اور بھارت جیلوں میں قید کشمیری حریت پسندوں پر بھی تشدد کرکے ان کی جانیں لیں رہا ہے۔
اگر بھارت نے پاکستان پر کسی قسم کی ایٹمی جنگ یا روایتی جنگ مسلط کی تو پاکستان اپنا دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔پاکستانی قوم بیرونی قرضوں کے عوض اپنی آزادی،خود مختاری و سلامتی کو داؤ پر نہیں لگا سکتی اور یہ کہ نہ ہی کمزور پاکستان عالمی برادری کے لیے سود مند ہوگا۔مستحکم پاکستان ہی جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔
عالمی برادری، اقوام متحدہ پر زور دے کہ وہ اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرائے کہ کشمیری عوام کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے یا بھارت کے؟یہ بات ہمیشہ سے واضح ہے کہ قیام پاکستان کے دوران کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا اور دستخط کیے۔
لیکن بھارت نے اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر پر فوج کشی کی اور اس پر قابض ہوگئے اور آج تک بھارت قابض ہے اور اس قبضہ گیری کو برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے عوام کو اپنی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور آفرین ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو لاکھوں جانیں دے کر بھی اپنے فیصلے پر اٹل ہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ تھے،ہیں اور رہیں گے، لیکن بھارت کو قبول نہیں کرتے۔اس لیے ہر کشمیری کی زبان پر ہے کہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان۔‘‘
کشمیریوں کا یہی نعرہ قابض بھارت کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے اور وہ پریشان ہے کہ کس طرح اس نعرے کو بھارت کے حق میں تبدیل کیا جائے جس کے لیے وہ ہر حربہ کشمیریوں پر آزماتا رہا ہے تاکہ کشمیری زیر ہوسکیں، لیکن کشمیریوں کی ایمان افروز قربانیاں لازوال ہیں۔ خطے میں وہ ایسی تاریخ رقم کررہے ہیں جو انمٹ ہے اور تاقیامت یاد رکھنے والی ہے۔
کوئی صبح و شام ایسی نہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر ی کے عوام پر بھاری نہ گزری ہو ، ہرپل، ہر لمحہ بھارتی قابض فوجی نت نئے مظالم کے طریقے کشمیری عوام پرآزماتے ہیں جس سے انسانیت لرز اٹھتی ہے لیکن انسانی حقوق کے دعویدار عالمی ادارے اور ممالک آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں۔کیا ان کے نزدیک مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام انسان نہیں ہیں؟جب کہ وہ جانوروں کے حقوق پر بھی آوازیں بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ تو ان کا دہرا معیار دنیا پر واضح ہے لہٰذا وہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار نہ ظاہر کریں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔