' پیام مشرق' کے سو سال

اک کتاب اور نئی آئی نئے خواب کے ساتھ اک چراغ اور جلا حجرۂ درویشی میں


ڈاکٹر فاروق عادل February 03, 2025
farooq.adilbhuta@gmail.com

ایک سوال تسلسل کے ساتھ پریشان کرتا ہے کہ نسل نو اقبال سے بے بہرہ کیوں  ہے۔ اقبال کے ذکر پر کچھ پریشانی بھی ہو سکتی ہے کہ اچھا ہی ہے اگر بچے اقبال سے محفوظ ہیں لیکن پریشانی صرف اتنی نہیں، بچے میر، غالب حتیٰ کہ فیض سے بھی اتنے ہی بے خبر ہوتے ہیں جتنے وہ اقبال سے محروم ہیں۔ اس حادثے کے اسباب پر گاہے کوئی بات کر بھی لیتا ہے لیکن اکثر نہیں ہوتی۔ لیکن چند روز ہوتے ہیں، اس کے اسباب کی ایسی عینی شہادت میسر آئی کہ چودہ طبق روشن ہو گئے ۔

چند روز ہوتے ہیں، برادر عزیز ڈاکٹر مظہر دانش صاحب نے خبر دی کہ اقبال کی ' پیام مشرق ' کی صدی مکمل ہوتی ہے۔ اقبال جیسی دیو قامت شخصیت کی علمی فتوحات معمولی نہیں ہوتیں۔ ایسے واقعات علمی اور تہذیبی دنیا میں ایک بڑا واقعہ سمجھے جاتے ہیں جسے ان کے شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ چند برس ہوتے ہیں، ترکیہ کے قومی ترانے ' استقلال مارشی' کی جس کے خالق محمت عاکف ایرصوئے ہیں، صد سالہ تقریبات بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منائی گئیں۔

ان تقریبات میں صدر رجب طیب ایردوآن سمیت اہم ترین ریاستی شخصیات نے شرکت کی۔ ڈاکٹر مظہر کی خبر پر دل مرجھا سا گیا۔ سبب یہ تھا کہ گزشتہ برس ' بانگ درا' کی اشاعت کی صدی مکمل ہوئی تھی لیکن مجال ہے کہ کسی سرکاری یا نجی ادارے کے کان پر  جوں  بھی رینگی ہو۔ ' بانگ درا' حالاں کہ ایک ایسی اہم کتاب ہے جو اپنے قاری کو اقبال کی عظمت سے آگاہ نہیں کرتی ہے بلکہ اس دنیا کے ماضی، حال اور مستقبل پر ایسے تخلیقی انداز میں نظر ڈالتی ہے جس کی مثال ادبی اور فکری تاریخ میں شاید ہی ملے لیکن بھلا ہو ڈاکٹر مظہر کا جنھوں نے یہ خبر دے کر حوصلہ دیا کہ گزشتہ سال کی طرح یہ سال  خالی نہیں جائے گا کیوں کہ ہمارے ڈاکٹر تحسین فراقی اور ان کا ادارہ ' بزم اقبال' خبر دار تھے لہٰذا انھوں نے ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ ' پیام مشرق' کا ڈی لکس' ایڈیشن شائع کر دیا یے۔ علمی دنیا میں کتاب کی اشاعت ایک واقعہ ہوتی ہے جیسے مخدومی افتخار عارف نے کہہ رکھا ہے:

اک کتاب اور نئی آئی نئے خواب کے ساتھ

اک چراغ اور جلا حجرۂ درویشی میں

ڈاکٹر مظہر نے بتایا کہ اس خواب اور کتاب کا جشن رچانے کا ارادہ ہے، بہتر ہو کہ تم بھی چلے آؤ۔ یوں اقبال کا یہ ادنیٰ خوشہ چیں اکادمی ادبیات میں سر کے بل پہنچا ۔ یہ حاضری با برکت ثابت ہوئی اور اس راز سے پردہ اٹھ گیا جس کا ذکر ابھی ہوا ہے۔

اگر یہ درست طریقے سے معلوم ہو جائے کہ اقبال یا کسی بھی شاعر کی فلاں کتاب جب پہلی بار شائع ہوئی تو اس کے کتنے صفحات تھے، ہر صفحے پر کتنی سطریں تھیں اور ہر سطر میں کتنے الفاظ تھے تو ان معلومات کی اہمیت ایک حد تک ہو گی۔ اگر اس راز سے بھی پردہ اٹھ جائے کہ اس دیوان کی خطاطی خط لاہوری میں ہوئی تھی یا خط دہلوی میں یا فارسی کلام کی صورت میں خطاطی کے لیے ایرانی فارسی اسکرپٹ کو ترجیح دی گئی یا مسلم برصغیر کے خط نستعلیق پر اصرار کیا گیا؟ اس قسم کی معلومات کی اہمیت بھی ایک درجے میں ہو گی لیکن خوش قسمتی سے اگر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جو چیز شائع کی جا رہی ہے، فی نفسہ وہ کیا معنی رکھتی ہے یا کامل ایک صدی گزر جانے کے بعد اس کی اشاعتِ محض برائے سعادت کی جا رہی ہے یا اس عہد میں بھی اس کی کچھ معنویت  ہے؟

اس تقریب میں ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بڑے دکھ کے ساتھ  کہا کہ اقبال سے بڑھ کر کوئی مظلوم نہیں جس کی فکر کو مختلف طبقات نے مطلب براری کے لیے استعمال کیا؟ ڈاکٹر نجیبہ کے اس شکوے کا بھی ایک پس منظر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افتخار عارف ان کے دکھ کو سمجھ گئے لہٰذا وہ کچھ ایسی بات کہہ گزرے جو خرابی کی جڑ تک پہنچا دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقبال پر بہت لکھا گیالیکن بحمد للہ بہت خراب لکھا گیا( اگر چہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ کہا گیا) ۔

ان کے اس سخن سے بھید کھلا کہ یہ جو ہم لوگ روح اقبال سے بے گانہ رہتے ہیں، اس کا سبب وہی الفاظ، صفحات اور سطور شماری ہے یا پھر تنقید کا وہ طور ہے جس میںنقاد کی توجہ کتابت  کی غلطیوں پر ہوتی ہے یا اوزان و بحور کی میکانگی کیفیات پر۔ اس کٹھالی سے گزرتے ہوئے وہ بے چارہ اتنا بے جان ہو جاتا ہے کہ اسے اصل اقبال کی ہوا تک نہیں لگتی۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والی نسلوں سے اقبال حجاب نہ کرے تو کیا نقد و نظر کا ساحرانہ اسلوب سیکھے؟ ' پیام مشرق' کی یہ صد سالہ تقریب  بھی ان ہی پیچیدگیوں کی باز گشت بن جاتی اگر افتخار عارف نہ ہوتے۔

انھوں نے بتایا کہ میر کے شعر نے اردو شاعری کو خواب دیکھنا سکھایا۔ غالب نے سوچنا اور اقبال نے یہ دونوں کام ایک ساتھ کیے اور بہت کچھ اس کے علاوہ بھی کیا لیکن حیرت ہوئی کہ وہاں لفظوں کے ایک بازی گر کو افتخار عارف صاحب کی گفتگو فکر اقبال کے متوازی  لگی۔ ادبی دنیا میں بھی کیسے کیسے نابغے پائے جاتے ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگ تھے، افتخار عارف صاحب نے اس موقع پر جن کے لیے ہدایت کی دعا کی۔

افتخار عارف، اللہ انھیں ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھے، فقط شاعر نہیں، اہل نظر نہیں، ہماری تہذیبی روایت بھی ان کے دم سے محفوظ ہے۔ تقریب کی ترتیب کے مطابق افتخار عارف صاحب صدر نشین تھے اور استاذ الاساتذہ پروفیسر فتح محمد ملک مہمان خصوصی۔ ناظم تقریب نے انھیں مدعو کرنے کے لیے تمہید باندھی تو افتخار عارف صاحب نے پہلے تو ازراہِ تفنن فرمایا کہ ابھی میری عمر ہی کیا ہے، فقط 80 برس کا تو ہوا ہوں لیکن میرے سر پر پروفیسر فتح محمد ملک کا سایہ موجود ہے، میں ان سے پہلے کیسے خطاب کر سکتا ہوں؟ یوں انھوں نے ناظم تقریب کے اعلان کو مکمل ہونے سے روکا اور گفتگو شروع کر دی۔ سینئر کے احترام کے اس خوب صورت مظاہرے پر تا دیر تالیاں بجا کر انھیں بھرپور داد دی گئی۔

جہاں تک پروفیسر فتح محمد ملک کا معاملہ ہے، انھوں نے مختصر گفتگو کی لیکن بڑی بنیادی بات کہی اور بتایا کہ اس وقت دنیا کا اور مسلمانوں کا مسئلہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ' پیام مشرق ' کے قاری کو کتاب کے مطالعے سے قبل اس کے سرورق کو توجہ سے دیکھنا چاہیے اور دل کی آنکھیں کھول کر قرآن کی آیت کا یہ حصہ ' للہ المشرق والمغرب ' پڑھ لینا چاہیے۔ انھوں نے فرمایا کہ اقبال مشرق اور مغرب کے درمیان آویزش پیدا نہیں کرتے جس کی آگ میں ان دنوں ہم جل رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفرت کے بھڑکتے ہوئے الاؤ کو بجھا کر محبت کی شمعیں روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ ' پیام مشرق ' کا سبق بھی یہی ہے۔  انھوں نے سمجھایا کہ ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ جانیے کہ پاکستان کو اقبال کا پاکستان بنانے میں کام یاب ہو گئے۔

حرف آخر یہ کہ پروفیسر فتح محمد ملک ہوں، افتخار عارف ہوں یا ڈاکٹر جعفر کاشمیری، ان سب بزرگوں کی بالاتفاق رائے یہ تھی کہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ' پیام مشرق ' کا جو مبسوط مقدمہ لکھا ہے، فی الاصل وہ ایک مستقل کتاب ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔ اس ضمن میں افتخار عارف صاحب نے جو کچھ کہہ دیا ہے، اس میں اضافہ تو بالکل ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس موضوع پر لکھا جانے والا کوئی بھی مقدمہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے مقدمے سے بہتر نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مقدمے کی خوبی کیا ہے، اس تذکرے کے ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں