کرائسٹ چرچ کوٹری

سندھ کا پہلا چرچ، برطانوی دورِ حکومت کی سنہری یادگار اور سندھ کا خوب صورت تاریخی ورثہ


ایاز مورس February 02, 2025

تاریخ کی راہوں اور ماضی کی دیواروں سے گزرنا مجھے ہمیشہ سے ہی متاثر کرتا ہے۔ پنجاب میں پیدائش کے بعد کراچی میں زندگی اور شعور کا پروان چڑھنا، میرے افکار اور شعوری ارتقاء کے لیے سنگ میل ثابت ہوا۔

گذشتہ چند سالوں سے ٹریننگ اور ورکشاپس منعقد کرنے کے لیے سندھ کے مختلف شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ سندھ کی مٹی کی خوشبو اور لوگوں کی اپنی دھرتی سے عقیدت میرے لیے ایک منفرد پہلو تھا۔ زندگی کے مقصد کی تلاش میں گھومتے ہوئے، کوٹری کے شہر سے آشنائی ایک خوش گوار لمحہ اور کرائسٹ چرچ کوٹری کو دیکھنا ایک شان دار تجربہ تھا۔

22 دسمبر 1846 کو تعمیر ہونے والاکرائسٹ چرچ، ریلوے کالونی، خان پور روڈ، کوٹری، ضلع جام شورو، سندھ میں واقع ہے، جو پاکستان کے مسیحیوں کے لیے ایمان، عزم اور ثقافتی ورثے کی ایک تاریخی علامت ہے۔ دریائے سندھ کے قریب واقع کوٹری کے چھوٹے سے قصبے میں یہ چرچ نسلوں سے مقامی مسیحیوں کے لیے ایک روحانی مرکز رہا ہے۔ اس کی عمارت پتھر کی اور چھت مکمل لکڑی کی ہے۔ یہ ابتدائی طور پر صرف برطانوی فوج اور یورپی مسافروں کی عبادت کے لیے مختص تھا، تاہم بعد میں ایک پادری نے اسے مقامی مسیحی آبادی کے لیے بھی کھول دیا۔

اس زمانے میں کوٹری دریائے سندھ کے کنارے معروف بندرگاہ اور تجارتی مرکز تھا۔ یہ چرچ ایک برطانوی مکینیکل انجنیئر نے تعمیر کیا تھا جو ریلوے میں ملازم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ریلوے کی ملازمت سے استعفٰی دے کر واپس برطانیہ گیا اور سندھ آکر کرائسٹ چرچ کا پادری بن گیا اور اس نے سندھی زبان سیکھ لی۔ اُس کا ایک قول The Church is the bride of Christ سندھی میں ’’کلیسیاء مسیح جی دلہن آھی‘‘ معروف تھا۔ اس چرچ کا ڈیزائن آئرلینڈ کے ایک ماہرتعمیرات نے بنایا تھا، اس لئے اس کی نیوزی لینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے کرائسٹ چرچ سے مماثلت ہے۔

ابتدا میں صرف ریلوے اور بندرگاہ کے ملازمین یہاں ایک ساتھ عبادت کرتے تھے۔ یہ چرچ اس خطے کا پہلا پروٹیسٹنٹ چرچ ہے، (معروف کتاب ’’تاریخ کلیسائے پاکستان‘‘ کے مطابق یہ پاکستان میں پہلا پروٹیسٹنٹ چرچ ہے) جو ڈایوسیس آف حیدرآباد، چرچ آف پاکستان کے زیراہتمام ہے۔

ڈایوسیس کے بشپ کلیم جان نے اس چرچ کی اہمیت اور افادیت کے متعلق بتاتے ہوئے کہا،’’کرائسٹ چرچ کوٹری 1846 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی عمارت مکمل طور پر پتھر کی بنائی گئی تھی۔ یہ چرچ بنیادی طور پر برطانوی اہل کاروں، ملازمین اور ان کے خاندانوں کے لیے بنایا گیا تھا جو سندھے (سندھ) ریلوے کمپنی اور انڈس سٹیم فلوٹیلا کے لیے خدمات انجام دے رہے تھے۔ چرچ کا ڈیزائن، اس کے نمایاں Lancet Art کے ساتھ، خیال کیا جاتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے ایکٹ (Aberdeenshire) ایبرڈین شائر میں واقع ایک چرچ سے متاثر ہے۔

سندھے (سندھ) ریلوے کمپنی لندن میں بنائی گئی۔ جنوری 1856 میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھے ریلوے کمپنی کے درمیان کراچی سے کوٹری ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ پہلی ریلوے لائن کراچی میں 1858 میں ان علاقوں میں بچھائی گئی جن پر اب پاکستان مشتمل ہے۔ یہ 1861 میں کراچی شہر اور کوٹری کے درمیان مکمل ہوا اور کھولا گیا۔ انڈس فلوٹیلا ایک برطانوی کمپنی تھی جو 1859 میں قائم ہوئی تھی اور اس نے بنیادی طور پر سندھ اور موجودہ پاکستان کے دیگر دریاؤں کے ذریعے کارگو چلانے کے لیے اسٹیمر اور کشتیاں استعمال کی تھیں۔

معقول سڑکوں اور ریلوے کی عدم موجودگی میں، پاکستان کے دریاؤں نے بحیرۂ عرب سے شمالی پنجاب کے شہر مکھڈ (ضلع اٹک) تک آمدورفت کا ایک ذریعہ فراہم کیا۔ کرائسٹ چرچ تقسیم سے پہلے ڈایوسیس آف بمبئی کے زیرانتظام تھا اور تقسیم کے بعد یہ ڈایوسیس آف حیدرآباد چرچ آف پاکستان کے زیرانتظام آگیا۔ چرچ کی تزئین و آرائش 1987 میں کئی گئی تھی تاکہ اس کی اصلی حالت کو برقرار رکھا جائے۔ یہ چرچ محض ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ تاریخ اور فن تعمیر کا انمول شاہ کار بھی ہے۔ ہم محکمۂ آثار قدیمہ اور حکومت سندھ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس چرچ کی تاریخی حیثیت کو اُجاگر کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے۔‘‘

کرائسٹ چرچ کے پریسبیٹر انچارج، پادری شعیب پالوس نے بتایا،’’جب 1843 میں جنرل چارلس نیپیئر نے امیرانِ سندھ کو میانی اور دادو کے مقام پر شکست دے کر سندھ پر قبضہ کرلیا اُس نے اپنی فتح کی یاد میں ایک چرچ تعمیر کروایا، جو سندھ میں انگریز راج کا پہلا اینگلکن چرچ ہے۔ اس چرچ میں انڈس اسٹریم لا کے ملازمین اور ریلوے میں کام کرنے والے یورپی، انگریز افسر اور ملازمین عبادت کرتے تھے۔ یہ سارا چرچ پتھروں کو تراش کر بنایا گیا ہے اور اس کی چھت مکمل طور پر ساگوان کی لکڑی کی ہے، اور آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔

اِس لیے کرائسٹ چرچ کوٹری کو پاکستان کا قدیمی اور سندھ کا پہلا چرچ کہنا مناسب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس دور میں چرچ بنایا گیا تھا اُس وقت کوٹری کی آبادی 8,000 افراد پر مشتمل تھی، جس میں 400 کے قریب انگریز تھے۔ اس چرچ کے اندر آج بھی تقریباً 70 کے قریب لوگ عبادت کرتے ہیں۔ 22 دسمبر 1846 کو تعمیر ہونے والا یہ قدیمی چرچ 178 سال سے بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی علامت ہے۔ ہم آج بھی چرچ میں انگریز، مسلم، ہندو، اور مسیحی بہن بھائیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، جو اس چرچ کی خوب صورتی کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

وہ خوش ہوتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔ ہم کرائسٹ چرچ میں مختلف مذہبی وسماجی پروگرامز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، جن میں ہمارے مسلم بہن بھائی بھی شریک ہوتے ہیں اور مذہبی ہم آہنگی کا عملی ثبوت دیتے ہیں۔ ہمارے اردگرد رہنے والے مسلم، ہندو، اور مسیحی بہن بھائیوں کے ساتھ باہمی رفاقت اور سماجی بھائی چارے پر مبنی تعلقات ہیں۔ اس چرچ کے کلیسا کے لوگ پاکستان میں مختلف جگہوں پر پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔‘‘ 

تاریخی پس منظر

کرائسٹ چرچ برطانوی دورِحکومت میں قائم کیا گیا تھا تاکہ کوٹری میں آباد مسیحی ریلوے ملازمین اور ان کے خاندانوں کی روحانی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اس چرچ کی تعمیر نوآبادیاتی دور کی طرزِتعمیر کی عکاسی کرتی ہے، جو سادہ اینٹوں کے کام اور پرسکون ماحول سے مزین ہے۔ وقتاً فوقتاً چرچ کی عمارت کو بہتر بنایا گیا، تاکہ اس کی تاریخی اہمیت برقرار رکھی جاسکے۔ کرائسٹ چرچ محض عبادت گاہ نہیں بلکہ مقامی مسیحیوں کے لیے ایک سماجی مرکز بھی ہے۔ یہاں ہر اتوار کو عبادات، کرسمس اور ایسٹر کی تقریبات اور سماجی اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ چرچ فلاحی سرگرمیوں، جیسے کہ غریب بچوں کی تعلیم کے پروگرامز اور کھانے کی تقسیم کے لیے بھی خدمات انجام دیتا ہے۔

چیلنجز اور عزم

دیگر مسیحی اداروں کی طرح کرائسٹ چرچ کو بھی محدود وسائل اور کبھی کبھار سماجی دباؤ جیسے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود یہاں کی کمیونٹی ثابت قدم ہے اور یہ پاکستانی مسیحیوں کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔ چرچ کمیٹی عمارت کی دیکھ بھال اور اتحاد و سماجی فلاح کو فروغ دینے والی سرگرمیوں کا انتظام کرنے میں سرگرم ہے۔ اگرچہ یہ چرچ گنجائش کے اعتبار سے چھوٹا ہے، لیکن اپنی سادگی اور وقار کے باعث منفرد کشش رکھتا ہے۔ چرچ کے اندرونی حصے میں روایتی لکڑی کی نشستیں، ایک سادہ قربان گاہ، اور رنگین شیشے کی کھڑکیاں ہیں جو دن کے وقت عبادت گاہ کو پرنور کر دیتی ہیں۔

 برطانوی طرزِتعمیر اور ثقافت کی عکاس

کرائسٹ چرچ سندھ کی مسیحی تاریخ کا ایک اہم نشان ہے۔ یہ خطے میں مسیحی مذہب کی موجودگی اور سندھ کے ثقافتی تانے بانے میں مسیحیوں کے کردار کی علامت ہے۔ نجی چینل کے معروف پروگرام ’’چرچز آف پاکستان‘‘کے روحِ رواں شمیم جون نے بتایا:

’’کرائسٹ چرچ کوٹری پہلا اینگلیکن چرچ ہے جو برطانوی دور میں فوج کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ اس خطے کا پہلا چرچ ہے، جو 1846 میں بنایا گیا۔ اس چرچ کا طرزِتعمیر گوتھک ریوائیول (Gothic Revival)، نیو گوتھک اور گوتھک ریوائیول کے انداز میں ہے، جو برطانوی طرزِتعمیر اور ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرزِتعمیر کے ذریعے ہی برطانیہ نے یورپی فنِ تعمیر کو متعارف کروایا۔ اس طرزِتعمیر میں جو اہم نکات دیکھے جاتے ہیں، وہ اس چرچ کی عمارت میں بھی نمایاں ہیں۔ اس میں خصوصی آثار (Pointed  Arches) بہت نمایاں ہیں، جن کے ساتھ دونوں طرف کالمز موجود ہیں۔ یہ کالمز بیرونی دیواروں یا درمیانی دیوار سے باہر کی طرف نکالے گئے ہیں، جن کا مقصد عمارت کے ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہے۔

برطانوی دور میں تعمیر ہونے والے زیادہ تر چرچز میں، بالخصوص پنجاب میں، گرے اسٹون استعمال کیا گیا، جسے ٹیکسلا اسٹون بھی کہا جاتا ہے۔ چوںکہ یہ پتھر ٹیکسلا کے قریب پایا جاتا ہے، اس لیے دوردراز علاقوں میں اس کا پہنچانا مہنگا اور مشکل تھا، کیوںکہ اس وقت آمدورفت کے ذرائع محدود تھے۔ سندھ کے علاقے، جو سطحِ سمندر کے قریب ہیں، مثلاً سکھر، کوٹری، حیدرآباد، اور کراچی، وہاں زیادہ تر ’’گزری اسٹون‘‘ استعمال ہوا، جسے گولڈنیا سینڈ اسٹون بھی کہا جاتا ہے۔ کرائسٹ چرچ کوٹری میں بھی سینڈ اسٹون استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی عمارت میں پوائنٹڈ آرچز بنائی گئی ہیں۔

یہ اس وقت کی ضرورت تھی، کیوںکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے چرچ کے اندر روشنی اور ہوا کا انتظام قدرتی طور پر کیا جاتا تھا، تاکہ عبادت گزار روشنی میں بائبل مقدس کا مطالعہ کرسکیں۔ چوںکہ یہ علاقہ آب و ہوا کے لحاظ سے گرم ہے، اس لیے ہوادار کھڑکیاں بھی خوب صورتی سے بنائی جاتی تھیں۔ چرچ کی عمارت میں اوپر کی جانب بھی کھڑکیاں موجود ہیں۔ عمومی طور پر چرچ کی عمارت کا رُخ مشرق سے مغرب کی طرف ہوتا ہے، جب کہ شمال کی طرف داخلی حصہ، جسے ٖFacade کہتے ہیں، موجود ہوتا ہے۔ ’’پاک میز‘‘ (Altar) والی سائیڈ پر دونوں جانب کھڑکیاں بنائی گئی ہیں تاکہ قدرتی روشنی عبادت اور خاص رسومات کو بہتر طریقے سے انجام دینے میں مدد دے۔ چرچ کی چھت ٹینٹ نما طرز پر بنائی گئی ہے، جو برطانوی ثقافت اور طرزِتعمیر کا شاہ کار ہے۔‘‘

پاکستان کا مذہبی اور ثقافتی ورثہ

کرائسٹ چرچ کوٹری، خطے میں مسیحیوں کے لیے اُمید اور مذہب کی ایک مضبوط علامت ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت اور کمیونٹی کی ترقی میں کردار اسے پاکستان کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ بناتے ہیں۔ اس چرچ کی حفاظت اور حمایت کے لیے کی جانے والی کوششیں نہ صرف اس کی تاریخ کا احترام کرتی ہیں بلکہ آنے والے برسوں کے لیے کمیونٹی کی روحانی اور سماجی بہتری کو بھی یقینی بناتی ہیں۔

معروف تاریخی مضمون نگار ظفر جنجو نے اپنا ایک مضمون میں لکھا ہے،’’ایک طرف چرچ کی عمارت کو سیم تھور اور سیوریج کے پانی سے خطرہ ہے تو دوسری طرف سیاسی و سماجی اثرورسوخ رکھنے والے لینڈ مافیا کی نظریں بھی اس پر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائی طور پر 18 ایکڑ کے احاطے پر مشتمل چرچ کم ہوکر تقریباً 15 ایکڑ پر رہ گیا ہے۔ یہ برطانوی دور حکومت کی سنہری یادگار، سندھی ثقافت اور تہذیب کا بہترین ورثہ ہے جو حکومت اور محکمۂ اثار قدیمہ کی توجہ کا منتظر ہے۔‘‘ موجودہ انتظامیہ کے مطابق اس وقت چرچ کا احاطہ تقریباً 2 ایکڑ کے قریب ہے۔

موجودہ چیلنجز

چرچ کی انتظامیہ کے مطابق اِس چرچ کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ قدیمی و تاریخی ورثہ ہوتے ہوئے حکومتِ سندھ کے ذمے داروں نے کبھی اِس چرچ کا دورہ نہیں کیا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ چرچ کی چاردیواری نہایت خستہ حالت میں ہے، چرچ کی چھت بھی کافی خراب ہوچکی ہے۔ بارش کے وقت، بارش کا پانی، چرچ کی اندرونی طرف گِرتا ہے، چرچ کا احاطہ بھی ابھی تک کچا ہے۔ اِسی طرح چرچ کی طرف آنے والے دونوں راستے ابھی تک کچے ہیں، یہ روڈ آج تک تعمیر نہیں ہوسکے۔ لہذا حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ اِس قدیمی ورثہ کی حفاظت کرنے میں چرچ کی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔

جنوری کی سرد شام میں چرچ کو دیکھنے کے بعد واپس آ رہا تھا تو مجھے چرچ کے احاطے میں ایک عجیب پرسکون کیفیت محسوس ہورہی تھی۔ یہ سوچ کر کہ قریب ہی دریائے سندھ کی مٹی نے میری رُوح سے سرگوشی کی کہ تم کتنے خوش نصیب ہو کہ تمہارے پاس ایک منفرد، متفرق اور نایاب قدیم اثاثہ ہے جس پر دُنیا رشک کرتی ہے؛ بدقسمتی یہ ہے کہ مذہب کے نام پر تنگ نظری، معاشرتی بیگانگی اور اجتماعی بے حسی نے ہمیں اس اثاثے کی قدر سے محروم کر رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں