
دوسری قسط
تقریباً 1890 میں جب انگریزوں کی بچھائی ہوئی ریل اس طرف پہنچی تو انگریزوں کو قبائل کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر انگریز نے نہ صرف اس پورے خطے میں ریل کا مضبوط نظام بنایا بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر بنایا کیوں کہ انگریز بہادر تو یہاں مستقل رہنے کے لیے آیا تھا۔
وہ تو انگریز کو دوسری جنگ عظیم مار گئی ورنہ یہاں آج بھی شاید انگریز ہی ہوتے۔ انگریز جو سونے کی چڑیا کہلوانے والے برصغیر میں تجارت کی غرض سے آیا تھا، شروع میں تو یہاں سے صرف نیل اور مسالا جات ہی اپنے ملک لے کر جاتا تھا مگر پھر وہ کوہِ نور سمیت نہ جانے کیا کیا وہاں لے گیا مگر حقیقت یہی ہے کہ بدلے میں وہ ہمیں بہت کچھ دے کر بھی گیا۔ پائی خیل ریلوے اسٹیشن کی بات کرنے سے پہلے یہاں میں ایک بار واضح کرتا چلوں کہ لفظ خیل کا مطلب قبیلہ ہی ہے اور عیسیٰ خیل، پائی خیل سمیت جتنے بھی شہروں کے نام کے ساتھ لفظ خیل لگتا ہے، یہ بنیادی طور پر قبائل کے نام ہیں۔ پائی قبیلہ بھی نیازی قبیلے کی ہی ایک شاخ سمجھ لیں۔
یہ وہی نیازی اور لودھی قبائل ہیں جنھیں ظہیرالدین بابر نے 1519-1536 کے دروان پے در پے حملے کر کے شکست دی اور برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ آپ اٹک خورد ریلوے اسٹیشن کے پل کی ساخت دیکھیں تو وہاں بھی شروع اور آخر پر آپ کو برجیاں دیکھنے کو ملیں گی، جہاں باقاعدہ انگریز فوج تعینات ہوتی تھی اور شام کے اوقات میں انھیں بند کردیا جاتا تھا۔ پائی خیل ریلوے اسٹیشن کو بھی قلعے کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ یہاں 1890 کی بنی ہوئی ایک خوب صورت برجی قائم ہے جو دو اطراف سے کھلتی تھی۔ دونوں دروازے انتہائی بھاری لوہے سے بنے تھے مگر یہ دروازے اب مستقل کھلے ہی رہتے ہیں۔ برجی دو منزلہ ہے جس پر جانے کے لیے الگ الگ راستے بنے ہیں۔
آپ ایک منزل سے دوسری منزل پر نہیں جاسکتے بلکہ براہ راست دوسری منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہیں۔ برجی کی دونوں منازل سے حملے کی صورت میں نیچے تیر پھینکنے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ یہ برجی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے مگر بدقسمتی کی انتہا دیکھیں کہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پائی خیل ریلوے اسٹیشن کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔
چھت پر جانے کے لیے لکڑی کی سیڑھی تو پڑی ہے مگر ایک شخص بھی بہ مشکل اس سیڑھی پر قدم رکھ سکتا ہے مبادا سیڑھی گرجائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس ریلوے اسٹیشن کو محفوظ کیا جائے، اس کی مناسب مرمت کی جائے۔ بلاشبہہ پائی خیل ریلوے اسٹیشن ہمارا بہترین ورثہ ہے جسے سنبھالنے کی اشد ضرورت ہے مگر جس ملک کی دال روٹی پوری نہ ہوتی ہو، جہاں فکریں بس یہ ہوں کہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے ایک ارب ڈالر کیسے ملے گا، اس ملک کے بڑوں کی ترجیحات میں ورثہ کیوں کر شامل ہوگا۔
پائی خیل ریلوے اسٹیشن سے نکلے تو ہمارا رخ داؤد خیل ریلوے اسٹیشن کی طرف تھا۔ داؤد خیل کو دیکھ کر یوں گمان گزرتا ہے کہ فیض نے یہ مصرع ’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے‘‘، اسی شہر کے لیے کہا ہو گا۔ اس پوری پس ماندہ سی پٹی میں داؤدخیل ایک بڑا اور صنعتی شہر ہے جہاں سیمنٹ اور کھاد کے کارخانے بنانے سمیت بہت سے کارخانے ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہاں 1954 میں کارخانے لگنا شروع ہوئے تھے۔ جہاں کارخانے لگ جائیں ورنہ رفتہ رفتہ تعلیمی اور معاشی ترقی آ ہی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس پوری پٹی پر آپ کو سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ داؤد خیل میں ہی نظر آتے ہیں۔
ہم نے شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی سڑک شیر شاہ سوری روڈ کو چھوڑا اور گلیوں میں سے ہوتے ہوئے داؤد خیل ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے جہاں راستے میں ہمیں بکروں کا ایک بہت بڑا ریوڑ راستے میں ملا۔ پنجاب اور پختونخوا کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے آپ کو یہاں سرائیکی اور پختونخوا دونوں اطراف کے لوگ اور کلچر ملتے ہیں۔ آپ نے اگر داؤد خیل کا ریلوے اسٹیشن دیکھ رکھا ہے تو آپ اس کے حجم سے ضرور واقف ہوں گے اور انگریزوں کے دور میں یہ اچھا خاصا پُر رونق ریلوے اسٹیشن تھا بھی۔ آس پاس کے پہاڑوں سے جو بھی معدنیات نکالی جاتی تھیں، وہ تمام اسی ریلوے اسٹیشن سے برصغیر کے دوسرے علاقوں میں جاتی تھیں مگر بدقسمتی سے برصغیر کو آزادی اور تقسیم ایک ساتھ ہی ملی اور کچھ عرصے بعد ہی ہمارے ریلوے اسٹیشنز اپنے اصل مالکوں کے جانے کی وجہ سے اداس رہنے لگے۔ کئی ایک تو مکمل طور پر دم توڑ چکے اور کچھ بس آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ خیر یہ نوحہ پھر کبھی سہی مگر داؤد خیل ریلوے اسٹیشن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اردگرد خوب صورت پہاڑ ہیں اور پہاڑوں میں گرا ہوا داؤدخیل ریلوے اسٹیشن اپنے خدوخال کی وجہ سے بہت ہی منفرد اور پیارا معلوم پڑتا ہے۔ داؤدخیل ریلوے اسٹیشن سے ہوکر ہم دوبارہ مرکزی سڑک پر پہنچے تو کچھ ہی دیر کے بعد دیو ہیکل پانیوں نے ہمیں آن لیا۔ دور سے ہی پہاڑیوں پر چھوٹے چھوٹے گھر نظر آنے لگے جو یقیناً اتنے چھوٹے تو نہ ہوں گے مگر دور سے بونے سے ہی لگتے تھے۔ اوپر نیچے، آگے پیچھے جیسے ان مکانوں کو چُن دیا گیا ہو اور ان پہاڑیوں کے نیچے جیسا کوئی سمندر بہہ رہا ہو۔ میں نے اپنے راہ بر سے پوچھا کہ سامنے کون سا علاقہ ہے؟ جواب ملا، ’’کالا باغ۔‘‘ کچھ ہی دیر بعد سڑک کنارے کالا باغ کا سنگِ میل بھی نظر آ گیا۔ ہمارے دائیں جانب لوہے کا ایک مضبوط پُل تھا جسے پار کرکے ہم نے کالاباغ شہر میں داخل ہوجانا تھا مگر میرا راہ نما دائیں مڑنے کے بجائے بائیں ہاتھ مڑگیا اور ایک پرانی سی عمارت کے سامنے بریک لگا دی۔
یہ ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن تھا۔ سوشل میڈیا کی بدولت ہی مجھے ایک سنیئر اور انتہائی محترم سیاح جناب ریاض حسین انجم صاحب ملے جو بنیادی طور پر تو ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں مگر آج کل بھکر میں مقیم ہیں۔ میں نے محترم ریاض حسین انجم صاحب سے ریل کی تنگ پٹریوں کے بارے میں کچھ معلومات لینے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے تو مجھے حیران ہی کردیا۔ نہ صرف ایک پورا نقشہ بنا بھیجا بلکہ اس بارے مکمل معلومات بھی فراہم کیں اور معلومات بھی ایسی کہ میرے ایک لفظ کے اضافے کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔ اب ریل کی اس تنگ پٹری بارے مکمل مضمون محترم ریاض انجم صاحب کی زبانی سنیں گئے تو ہی لطف آئے گا۔
……………
برصغیر پاک و ہند (متحدہ ہندوستان) میں ریلوے نظام کی بنیاد (انگریزی دور حکومت میں) 1853ء سے رکھی گئی جس کا آغاز کلکتہ، لکھنؤ اور دہلی سے ہوا اور بالآخر اسے پورے ہندوستان میں پھیلا دیا گیا تاہم سرزمین ہند کے اس حصے میں جو اب پاکستان میں شامل ہے اس کی بنیاد 1880ء میں رکھی گئی اور مختلف شہروں کو ریلوے کے نظام سے مربوط کرنا کا سلسلہ 1895ء اور اس کے بعد تک جاری رہا۔ یہ سارا نظام بڑی پٹڑی والی ریلوے لائنوں پر مشتمل تھا - جسے عام فہم زبان میں مین لائن اور انگریزی میں ’’براڈ گیج‘‘ کہا جاتا ہے۔
ماڑی انڈس تا بنوں سیکشن پر چھوٹی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا کیوںکہ ذیلی راستوں پر چھوٹے حجم کے اسٹیم انجنوں والی ریل گاڑیوں کو چلانے کے لیے نسبتاً چھوٹی پٹڑی بچھائی جاتی تھی جسے عام فہم زبان میں ’’برانچ لائن‘‘ اور انگریزی میں ’’نیروگیج‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسی نیروگیج پٹڑی کا ایک سیکشن ماڑی انڈس، بنوں سیکشن اور لکی مروت ٹانک منزئی سیکشن کہلاتا تھا۔ اس ذیلی سیکشن پر ریلوے لائن بچھانے کی بڑی وجہ، انگریز حکومت کی فوجی ضرورت تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فرنگی راج تھا تو ہندوستان کی مغربی بارڈر کے ساتھ ملحقہ قبائلی علاقوں میں انگریزوں کو بعض بغاوتوں کا سامنا تھا - اس لیے انہیں اپنے فوجیوں اور ان کے سازوسامان کو شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان تک پہنچانے کے لیے ریلوے ٹریک کی ضرورت تھی چناںچہ ضلع میانوالی میں، داؤد خیل سے کچھ فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے واقع ’’ماڑی انڈس‘‘ نامی گاؤں کے مقام پر سال 1913ء میں ریلوے ٹریک بچھانے کے کام کا آغاز ہوا جو 1916ء (3 سال کی مدت) میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
یہ ریلوے لائن ڈیرہ بنوں روڈ کے کنارے واقع ’’لکی مروت‘‘ شہر پہنچ کر وہاں سے بنوں روڈ کے ساتھ ساتھ بنوں شہر تک جاتی تھی جو شمالی وزیرستان کے فوجی مشن کو پورا کرتی تھی- جس کا صدر مقام میران شاہ تھا جب کہ اسی سیکشن ہی پر ایک دوسرے ٹریک کو بعد میں جوڑا گیا اور یہLink Section لکی مروت جنکشن سے ٹانک شہر اور مزید آگے ’’منزئی فوجی کیمپ‘‘ تک چلا جاتا تھا جو جنوبی وزیرستان کے فوجی مشن کو پورا کرتا تھا - جس کا صدرمقام ’’وانا‘‘ (Waana) تھا۔ اس لنک سیکشن پر پٹریاں بچھانے کا کام 1920ء میں شروع ہوا اور 1927ء (7 سال کی مدت میں) مکمل ہوا۔ ان دونوں ریلوے ٹریکس پر واقع ریلوے اسٹیشنوں کے نام (بالترتیب) یہ تھے: ماڑی انڈس بنوں سیکشن ماڑی انڈس، کالاباغ، کمر مشانی، ترگ(Tarag)، عیسیٰ خیل تھانیدار والا، لکی مروت، گمبیلا سرائے، نورنگ سرائے، غوری والا اور بنوں شہر، جب کہ لکی مروت ٹانک منزئی ریلوے سیکشن تک جانے والے ٹریک پر درج ذیل اسٹیشن واقع تھے، جن میں سے زیادہ تر اسٹیشنوں کی ویران اور شکستہ عمارتیں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں: لکی مروت جنکشن، پیزو (pezu)، گل امام، ٹانک شہر,کوڑ برج اور آخری اسٹیشن منزئی کیمپ۔ لکی مروت سے ٹانک شہر تک مسافر گاڑیاں چلتی تھیں جب کہ ٹانک ریلوے اسٹیشن سے آگے ’’منزئی چھاونی کیمپ‘‘ تک صرف فوجی اور ان کا سازوسامان جاتا تھا مسافر نہیں جا سکتے تھے۔
چھوٹی پٹڑیوں کا یہ ماڑی انڈس بنوں اور لکی مروت ٹانک ریلوے ٹریک تقریباً 50 سال تک نہایت کام یابی سے چلتا رہا لیکن بعد میں روڈ ٹرانسپورٹ سروسز کی بھرمار اور پاکستان سرکار کی عدم توجہی نے اس کی اہمیت کو کم کردیا اور بھارت میں ریلوے کی شان دار ترقی کے برعکس ہماری سرکار نے اس کی ترقی میں کچھ نہ کرنے کی قسم کھاتے ہوئے اس کی زوال پذیری میں پورا پورا کردار ادا کیا۔
چناںچہ 1995ء میں اس narrow Guage ریلوے ٹریک پر نہ صرف ریلوے گاڑیاں چلنا بند ہوگئیں بلکہ 2000ء تک ریل کی پٹڑیاں بھی اکھاڑ لی گئیں۔ مجھے ان راستوں پر 1980ء سے 1990ء تک 10 سال گھومنے پھرنے کا موقع ملا - تب ریلوے کے کرائے بہت کم ہوا کرتے تھے اور یہ غریبوں کے لیے گویا ایک بچت سفر کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج سے 40 سال پہلے (1980ء تا 1985ء) ماڑی انڈس سے بنوں تک ایک مسافر کا ریلوے کا کرایہ -/12 روپے ہوا کرتا تھا اور یہ فاصلہ 142 کلومیٹر بنتا ہے اسی حساب سے فاصلوں اور کرایوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بحیثیت ٹیچر میری ماہانہ تنخواہ صرف -/ 600 روپے ہوا کرتی تھی)۔
……………
تبت میں کیلاش کے پہاڑی سلسلے سمیت دریائے سندھ نہ جانے کن کن پہاڑی سلسلوں سے گزرتا ہوا جب پنجاب میں کالا باغ کے مقام پر آتا ہے تو سکون پاتا ہے۔ کالا باغ جہاں دریائے سندھ دریا کم اور ایک سمندر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ یہاں دریائے سندھ کو دیکھ کر واقعی اندازہ ہوتا ہے کہ اسے اگر شیردریا کہا جاتا ہے تو درست کہا جاتا ہے۔ یہ واقعی شیر دریا ہے۔ کالا باغ ایک تاریخی شہر ہے، جہاں نمک کے پہاڑ ہیں، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں لوہے کی کڑاہیاں اور نہ جانے کون کون سے برتن بنائے جاتے ہیں۔ اوپر نیچے مکان ہیں اور سب مکانوں کی گندی نالیوں کا رخ اسی شیر دریا کی طرف ہے۔ کالا باغ کا نام سنتے ہی دو چیزیں ذہن میں آتی ہیں۔
نواب آف کالا باغ اور متنازع کالا باغ ڈیم۔ کہتے ہیں کہ کالا باغ کے پہاڑوں میں لوہا ہے، معدنیات کے ذخائر ہیں مگر نواب آف کالا باغ سمیت یہاں کے بڑوں نے انھیں نکالنے نہیں دیا کہ اس سے لوگ سیانے ہوجائیں گے۔ کتابوں میں ایک قصہ ہے کہ جب نواب آف کالا باغ گورنر تھے تو ان کا ایک ملازم حقہ بھر رہا تھا اور اس نے نواب صاحب سے پوچھا کہ نواب صاحب ادھر اسٹیل مل لگ رہی ہے؟ نواب صاحب کہنے لگے کہ تو بے وقوف ہے، ادھر اسٹیل مل لگوا کر لوگوں کو سیانا بنا دوں؟ سیانے ہوجائیں گے تو میرا حقہ کون بھرے گا؟ کالا باغ ایک ایسا نام ہے جس سے پاکستان کا ہر عمر کا فرد واقف ہے، جس کی وجہ متنازعہ کالا باغ ڈیم ہے جو کسی بھی صورت متنازع نہیں تھا مگر اسے جان بوجھ کر کچھ سیاسی جماعتوں یا کچھ سیاسی افراد نے متنازع بنا دیا ہے۔ یقین مانیں کالا باغ کے مقام پر دریا سندھ، دریا نہیں ہوتا بلکہ سمندر ہوتا ہے جس سے ہر صورت فائدہ لینا چاہیے۔ اگرچہ کہ شروع میں اس ڈیم کے ڈیزائن میں کچھ فنی مسائل تھے جنھیں بعد میں دور بھی کردیا گیا۔
ڈیم کی جھیل کی سطح بھی کم کردی گئی مگر ڈیم پھر بھی نہ بن سکا۔ ہمارے کچھ پختون بھائی کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے پٹھانوں کی زمینیں ڈوب جائیں گی۔ چارسدہ سارا ڈوب جائے گا، پٹھان مہاجر بن کر کہاں جائیں گے؟ یاد رہے کہ تربیلا ڈیم بننے سے پہلے بھی یہی باتیں ہوتی تھیں مگر وہ ڈیم پھر بھی بن گیا، کیوں کہ تربیلا ڈیم بناتے وقت بس ایک حکم آیا تھا کہ یہ ڈیم بنے گا اور کالا باغ کے لیے ہماری اسمبلیوں میں صرف بحث و مباحثہ ہی ہوتا ہے، عملی کام کچھ نہیں ہوتا۔ کالا باغ میں آپ دریائے سندھ میں کشتی رانی کے مزے بھی لے سکتے ہیں۔ دریا کے ایک طرف ایک پرائیویٹ کمپنی نے اپنی کشتیاں کھڑی کر رکھی ہیں۔ مناسب ٹکٹ پر آپ کشتی کے مزے لے سکتے ہیں۔ یہاں ایک دل چسپ صورت بھی ہے۔ دریائے سندھ کے دوسری طرف ایک بڑا سا سرکاری بحری جہاز اور دو چھوٹی چھوٹی کشتیاں کھڑی ہیں، جو کچھ عرصہ تو چلتی رہیں مگر پھر انھیں یہ کہہ کر بند کردیا کہ سیاح نہیں آتے۔ عملے کو کراچی واپس بھیج دیا گیا۔
دوسری جانب نجی کشتیاں مسلسل دریائے سندھ میں چلتی رہتی ہیں کہ سیاح بہت ہیں۔ یہ ہاتھی جہاز واقعی ہاتھی ہے۔ جسامت میں زیادہ ہے۔ اگر یہ چلتا رہتا تو شاید اچھا ہوتا مگر اب یہ بس ایک نمائشی جہاز کے طور پر دریائے سندھ میں محکمۂ آب پاشی کی عمارت کے پاس کھڑا ہے۔ ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن کے بارے میں ایک خاص بات بتانا بھول گیا کہ ماڑی انڈس اس طرف کا چوڑی پٹری کا آخری ریلوے اسٹیشن ہے۔ داؤد خیل مین ریلوے لائن پر ہے۔ یہاں سے سیدھا ٹریک راول پنڈی کی جانب چلا جاتا ہے مگر ایک چوڑی پٹری الگ سے بائیں جانب مڑنا شروع کرتی ہے اور ماڑی انڈس پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے۔ ماڑی انڈس سے پھر تنگ پٹری شروع ہوتی ہے۔ دریائے سندھ پر سے گزرتی ہے اور کالا باغ شہر کی جانب مڑ جاتی ہے۔ ماڑی انڈس سے شروع ہونے والی تنگ پٹری کا سب سے پہلا ریلوے اسٹیشن کالا باغ ہے بلکہ کالا باغ تھا۔ ہم کالا باغ ریلوے اسٹیشن پہنچے تو خوش قسمتی سے وہی تنگ پٹری ابھی تک موجود تھی، اسے اکھاڑا نہیں گیا تھا۔
اردگرد سب ویرانی تھی۔ پٹری اتنی تنگ تھی کہ میں دونوں پٹریوں پر آرام سے کھڑا ہو گیا۔ انگریز جب ہندوستان میں آئے تو ان کے توسیع پسندانہ عزائم تھے۔ آئے تو وہ تجارت کی غرض سے تھے مگر رفتہ رفتہ انھوں نے یہاں کی عوام کو محکوم بنانا شروع کردیا۔ بہت سے علاقوں میں فوجی مہمات شروع کیں۔ بنگال سے شروع ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ پنجاب پہنچے۔ پنجاب سے بھی آگے مغلیہ صوبہ کی طرف بڑھے جسے بعد میں شمالی مغربی سرحدی صوبہ کہا گیا۔ یہی صوبہ بعد میں خیبرپختونخوا کہلایا۔ یہاں بہت سے علاقے مثلاً عیسیٰ خیل، لکی مروت، بنوں، ٹانک، میران شاہ ایسے علاقے تھے جہاں انگریزوں نے باقاعدہ اپنی فوج تعینات کی۔ وجہ اس کی یہ تھی انگریز برصغیر سے بھی آگے افغانستان میں بھی مہمات کرنا چاہتے تھے۔
فوج اور اس کے سامان کے لیے ذرائع آمد و رفت کی ضرورت تھی، سڑکیں نا کافی تھیں۔ آسان طریقہ یہ تھا کہ ریلوے پٹری بچھائی جائے۔ سب سے پہلی پٹری کراچی سے کوٹری تک بچھائی گئی اور 1878 تک انھوں نے کراچی کو پشاور سے ریلوے لائن سے جوڑ دیا۔ نقل و حرکت آسان ہوئی اور فوجی مقاصد میں بھی آسانی ہوئی۔ انگریزوں نے پشاور سے پھر دائیں بائیں نکلنا شروع کر دیا۔ لکی مروت، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل کے علاقوں میں اپنے فوجی متعین کیے اور اپنا اسلحہ وہاں بھیجنا شروع کیا۔ یہاں بھی ریلوے پٹری کی ضرورت پڑی تو دریائے سندھ کے کنارے ماڑی انڈس کا انتخاب کیا گیا۔ داؤد خیل سے ایک ٹریک ماڑی انڈس کی طرف موڑا گیا۔ یہاں تک چوڑی یعنی پانچ فٹ چھے انچ والی پٹری بچھائی گئی مگر دریائے سندھ کے پار ایک چھوئی پٹری بچھائی جو دو فٹ چھ انچ چوڑی تھی، بچھائی گئی۔
1891 میں ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا اور یہاں ایک اسلحہ ڈپو بھی بنایا گیا۔ اسلحہ ماڑی انڈس آتا اور مشہورِ زمانہ کالا باغ پل کی مدد سے دریائے سندھ کو پار کرتا اور مختلف قبائلی علاقوں میں اسے پہنچا دیا جاتا۔ 122 کلو میٹر کا چھوٹی پٹری والا نظام قائم کیا گیا۔ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ یہ نظام سستا بھی پڑنا تھا کم وقت میں مکمل بھی ہوگیا۔ بعد میں فوجی مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ تنگ پٹری کا نظام عوام کے کام بھی آیا۔ اس ریل کی رفتار اتنی کم ہوتی تھی کہ لوگ چلتی ٹرین سے نیچے اترتے، کھانے پینے کی کوئی چیز خریدتے اور پھر کسی دوسرے ڈبے میں سوار ہو جاتے۔ مقامی لوگ اسے چھوٹی ریل کہتے ہیں۔ 1913 میں اس تنگ پٹری پر کام شروع ہوا اور 1916 تک یہ ٹانک پہنچ چکی تھی۔ تقسیم کے بعد بھی 1992 تک یہ تنگ پٹری کا نظام آپریشنل رہا۔ کالا باغ کا پل بھی اسی تنگ پٹری کے لیے بچھایا گیا تھا کیوں کہ ماڑی انڈس سے آگے دریائے سندھ پڑتا تھا۔ کالا باغ پل پر آج بھی یہ تنگ پٹری موجود ہے۔
پٹری اگرچہ چھوٹی تھی مگر پل کو عام ریلوے لائن کی جتنا چوڑا بنایا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ جب بھی حالات ذرا مناسب ہوتے تو انگریزوں کا ارادہ تھا کہ اس تنگ پٹری کی جگہ چوڑی پٹری بچھا دی جائے مگر ریلوے اور ہماری بدقسمتی کہ انگریز نے خواہ مخواہ دوسری جنگ عظیم شروع کردی۔ انگریز جنگ تو جیت گیا مگر نقصان اتنا ہوا کہ اسے اپنا بستر گول کر کے یہاں سے جانا پڑا۔ 1947 میں جس دن برصغیر آزاد ہوا، اسی دن تقسیم بھی ہوگیا۔ شاید یہ دنیا کا واحد علاقہ ہے جسے آزادی اور تقسیم ایک ساتھ ملے۔ انگریز یہاں سے 1947 میں چلا گیا اور اس کے پیچھے پیچھے یہ تنگ پٹری کا نظام بھی 1995 میں مکمل طور پر دم توڑ گیا۔ روایت ہے کہ جب یہ چھوٹی ریل کالا باغ پل پر سے گزرتی تھی تو کالا باغ کے لوگ بچوں کو گود میں اٹھائے پل کے پاس کھڑے ہوجاتے اور انھیں یہ نظارہ دکھاتے۔
جب یہ ریل بند ہوئی تو کالا باغ کے پل کو عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ ملکہ الزبتھ بھی جب پاکستان آئیں تو انھیں کالا باغ لے جایا گیا، جہاں انھوں نے اسی تنگ پٹری والی ریل پر سفر بھی کیا۔ ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہیں پر چوڑی پٹری اور تنگ پٹری دونوں کا ملاپ بھی ہوتا تھا۔ پلیٹ فارم کے ایک جانب چوڑی لائن تھی جب کہ دوسری جانب تنگ لائن تھی۔ انگریز کے وقت میں چوڑی ریل سے سامان اتار کر پلیٹ فارم پر رکھتے اور ساتھ ہی دوسری طرف اسے تنگ پٹری پر کھڑی ریل میں رکھ دیا جاتا۔ جو ریلوے کا نظام انگریز ہمیں دے کر گئے، وہی انھوں نے بھارت کو بھی دیا مگر کمال بات کہ بھارت میں آج بھی تنگ پٹری کی ریل چل رہی ہے، الیکٹرک ریل دوڑتی ہے۔ صدر ایوب کے دور میں لاہور تا خانے وال الیکٹرک ریل چلائی گئی تھی مگر 1971 کی جنگ میں بھارت کی بمباری کی وجہ سے اس ریلوے لائن کو کچھ نقصان پہنچا تو ہم بھی ایسی کمال قوم کے اسے درست کرنے کی بجائے بجلی کے کھمبے تک اکھاڑ کے بیچ ڈالے۔
دل جلانے سے کیا حاصل۔ چلیں کمر مشانی چلتے ہیں۔ کمر مشانی کالا باغ سے نکلے تو ہمارا رخ میاں والی کی تحصیل کمر مشانی کی طرف تھا۔ سنا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں پیروں فقیروں کا بہت زور تھا۔ عام لوگ پیر کو روشن ضمیر کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ ان کا نہایت ادب اور احترام کرتے۔ پرانی کتابوں میں ہے کہ کمر مشانی میں پہلے بنے ’’شکنی‘‘ کا رواج تھا۔ وہ جائیداد جو کسی اور کی ہوتی ہے، آپ زورزبردستی اس پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس کو کھاتے ہیں اور اس کا آدھا کرایہ یا آدھا حصہ بٹائی نہیں دیتے بلکہ زبردستی کھاتے ہیں تو یہ فقیر ایسے تھے جو بنے شکنیاں بھی کھاتے تھے۔ پہلے الیکشن بھی وہی جیتا تھا جس کی طرف پیر تگڑا ہوتا تھا۔ جس امیدوار کی طرف کوئی بڑا پیر نہ ہوتا، اس کے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کمر مشانی عین پنجاب اور خیبرپختونخوا کی سرحد پر واقعی ہے۔ پہلے پہل یہاں ہیروئن، چرس اور افیون کا بہت کاروبار تھا، آج کا پتہ نہیں۔ کمر مشانی کے پہاڑی علاقے بھی خوب ہیں جن میں چاتری، چشمیہ، ٹولہ منگی اور سلطان خیل شامل ہیں۔ چاتری کا پرانا ڈیم بہت منفرد ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کمر مشانی تحصیل عیسیٰ خیل اور تحصیل لکی مروت کی سرحد پر آباد ہے شاید اسی لیے بے توجہی کا شکار ہے۔ کمر مشانی کا علاقہ آیا تو کسی سے یہاں کے ریلوے اسٹیشن بارے پوچھا۔ نوجوان نسل کو نہیں پتا کہ کمر مشانی میں کبھی کسی زمانے میں ریل بھی چلتی تھی۔ میں کسی نوجوان سے بات کر رہا تھا کہ اندر ذرا بڑی عمر کا شخص کود پڑا اور ریلوے اسٹیشن کی پرانی عمارت بارے بتانے لگا۔
عمارت کیا تھی؟ فقط شکایات کا انبار لگائے ایک بڑا سا کمرا تھا جس کے پاس ریلوے کورٹروں کے چھوٹے بچے والی بال کھیلنے میں مصروف تھے۔ پلیٹ فارم پر کھڑا ہوا تو دور دور تک پٹری کا نام و نشاں بھی نہ تھا۔ نوے کی دہائی میں جب تنگ پٹری والی ریل بند ہوئی تو ظالم حکم رانوں نے ریل کی پٹری تک اکھاڑ ڈالی۔ جب نیتوں میں فتور ہو تو کوئی قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ کاش اس وقت کے حکم راں یہی سوچ لیتے کہ وقتی طور پر اگر یہ ریل منافع نہیں دے رہی تو اسے بعد بہتر کرلیا جائے گا۔ چوں کہ ظالموں کی نیت ہی خراب تھی، اس لیے پوری پٹری کو ہی اکھاڑ دیا گیا۔ انگریز اس تنگ پٹری کو کھلا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، ہم نے وہ پٹری ہی اکھاڑ ڈالی۔ خس کم جہاں پاک۔۔۔
کمر مشانی ریلوے اسٹیشن سے نا امید ہو نکلے تو اگلی منزل ترگ ریلوے اسٹیشن تھا۔ میرا راہ نما مجھے بتانے لگا کہ یہاں راستے میں ایک اور ریلوے اسٹیشن بھی ہے جس کا نام وہ بھول چکا ہے۔ لوگوں سے معلومات لینے پر پتا چلا کہ اس ریلوے اسٹیشن کا نام خدوزئی ہے۔ یہ ریلوے اسٹیشن میری فہرست میں بھی شامل نہیں تھا۔ لوگوں سے ہی پوچھ پوچھ کر ہم اس جانب نکلے تو درختوں میں گھری ہوئی ایک عمارت نظر آئی۔ عمارت کے قریب جانے پر ہی ہمیں پٹھانوں نے روک لیا۔
معلوم پڑا کہ خدوزئی ریلوے اسٹیشن پر اب ایک مہاجر کیمپ بن چکا ہے اور یہاں مستقل طور پر پٹھان بلکہ درست بات کی جائے تو افغان مہاجر بھائی آباد ہیں۔ یہاں سے وہاں تک جھونپڑیاں، ادھر اُدھر دھرے چھپر، کچھ دریچے، روشن دان۔ کیمپ کے قریب جانے کی کوشش کی تو روک دیا گیا۔ افغانی بچے دیکھ کر ہوں گمان گزرتا تھا کہ ہم ریلوے اسٹیشن کی تلاش میں افغانستان نکل آئے ہیں۔ ہر طرف افغان صورتیں، افغان بولیاں، افغان رسم و رواج، افغان سلوک اور افغان ٹوپی والے برقعے۔ بعد میں معلوم پڑا کہ یہ لوگ افغان جہاد کے وقت سے یہاں آباد ہیں اور ہمارے آس پاس جو چھوٹے چھوٹے بچے گھوم پھر رہے تھے، ان کے ماں باپ بھی یہیں پیدا ہوکر جوان ہوئے اور شادیاں کرکے بچے بھی پیدا کیے۔ شروع شروع میں ان افغان مہاجرین کی حکومت بھی مدد کرتی تھی مگر اب انھیں محنت مزدوری کر کے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنا پڑتا ہے۔ ان سب افغانوں کی ہم دردیاں اگرچہ آج بھی افغانستان کے ساتھ ہیں مگر افغانستان جانا کوئی نہیں چاہتا۔ یہاں تک کہ ان کی موجودہ نسل جس نے افغانستان کا صرف نام سنا ہے، وہ بھی افغانستان کو ہی اپنا وطن کہتی ہے حالاں کہ انھوں نے نہ افغانستان دیکھا ہے اور نہ وہ افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم نے خدوزئی ریلوے اسٹیشن پر مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور ترگ ریلوے اسٹیشن کی طرف رخ کرلیا۔ جلد ہی کھیتوں میں ہمیں ترگ ریلوے اسٹیشن کی بوسیدہ سی عمارت نظر آگئی۔ اگرچہ کہ ترگ ریلوے اسٹیشن کی ہمارے پاس کوئی لوکیشن موجود نہیں تھی مگر ابھی ترگ میں بہت سے لوگ یہ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں کھڑی یہ مختصر سی لاوارث عمارت حکومتی ملکیت ہے، ترگ ریلوے اسٹیشن ہے۔
آس پاس کوئی پٹری نہیں۔ ظالموں نے چھوڑی ہی نہیں۔ پہلے ریل بند کی، بعد میں پٹری تک اکھاڑ کر بھٹی میں پگھلا ڈالی۔ آج ترگ ریلوے اسٹیشن کی عمارت بند پڑی ہے۔ اندر نہ جانے کیا ہے، دیواریں کیسی ہوں گی، الماریاں کیسی ہوں گی۔ جیسی بھی ہوں گی، کم از کم ہم تو انھیں نہیں دیکھ سکیں گے۔ میں تو نہیں دیکھ سکا، آئندہ آنے والے لوگوں کا پتا نہیں۔ ترگ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی زمین میں ہل چل رہا تھا اور سورج بھی رفتہ رفتہ نیچے ہورہا تھا۔
( جاری ہے )
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔