
انسانی اسمگلنگ جدید غلامی کی ایک بدنما شکل ہے۔ یہ وہ جرم ہے جس میں ایک شخص اپنے مفاد کے لیے پیسے وصول کر کے دوسرے شخص کا استحصال کرتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ انسانیت کا قتل اور ایک گھناؤنا عمل ہے۔ یہ ایک جرم ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں لوگوں کو غیرقانونی طور پر ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچایا جاتا ہے۔
یہ جرم صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی اسمگلر اپنے شکار اور معصوم شہریوں کو گم راہ کرکے غیرقانونی راستوں سے یورپ لے جاتے ہیں اور اکثر انھیں سنہری خواب دکھا کر موت کی آغوش میں سلا دیتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں جس میں جنسی استحصال، مزدوری کا استحصال، جبری جرم، بھیک منگوانا اور اعضا غیرقانونی طور پر نکالنا شامل ہیں، لیکن سب میں نمایاں صورت دولت کے لالچ میں ملک کو چھوڑ کر جانے والوں کی ہے۔ یہ افراد اپنی مرضی سے غیرقانونی طریقوں سے اور بھاری رقم ادا کرکے یورپ اور دیگر ممالک کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی بڑی تعداد موت کی وادیوں میں کھوجاتی ہے۔
ہمارے یہاں رواج بن چکا ہے کہ ہم اپنے ملک میں محنت سے جی چراتے ہیں، ہر کوئی بہت جلد امیر ہونا چاہتا ہے، ہر کسی کی خواہش کوٹھی کار سے آگے کی ہوچکی ہے۔ قناعت کے لفظ سے اب ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہماری نوجوان نسل دولت کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور نوجوان شارٹ کٹ کے چکر میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے اور پاکستان میں اس کی بنیادی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، معاشی سست روی اور غیرمحفوظ سرحد ہے، جس سے انسانی اسمگلروں کا کام کافی آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جب کہ غربت کی شرح زیادہ اور انسانی معیار زندگی کے لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کے پست ممالک میں ہوتا ہے۔ غربت زدہ علاقوں سے نوجوانوں کو بہتر مستقبل کا لالچ دے کر ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے اور یہیں سے اس مکروہ کاروبار کا آغاز ہوتا ہے۔ منظم گروہ لوگوں سے ان کی جمع پونجی حاصل کرکے غیرقانونی راستوں کے ذریعے پاکستان سے ایران اور پھر وہاں سے ترکی کے راستے یورپ میں داخل کراتے ہیں۔ اگر کوئی قسمت سے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچ بھی جائے تو وہاں قانون کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔
انسانی اسمگلروں کے گروہ اتنے منظم طریقے سے کام کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے یورپ تک زمینی راستے کے سفر میں آنے والے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اکثر اداروں کے اہل کاروں سے سازباز کرکے اپنے گاہکوں کو یورپ تک بھیجنے میں بہ آسانی کام یاب ہوجاتے ہیں۔ غیرقانونی طور پر ممالک کی سرحدیں عبور کرنے کے دوران راستے میں ویران اور پہاڑی راستوں پر بھوک پیاس، چوٹ لگنے اور کشتیاں الٹنے سے اموات ہونا معمول کی بات ہے۔ کئی افراد سرحد عبور کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر بھی ان کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔
بڑھتی ہوئی انسانی اسمگلنگ کی بنیادی وجوہات میں بے روزگاری، روزگار کے ذرائع کی شدید کمی اور مہنگائی شامل ہیں، جنہوں نے نوجوانوں کو غیرقانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں بند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے کئی افراد کا دم گھٹ جاتا ہے یا گنجائش سے زیادہ افراد کشتیوں میں سوار کر دیتے ہیں۔ ایف ائی اے کے اعدادوشمار کے مطابق مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سرا بھی انسانی اسمگلروں کا شکار ہوئے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق بیشتر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، راولپنڈی، منڈی بہاؤدین اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر انہیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلر اس غیرقانونی کاروبار سے تقریبا 15 کروڑ ڈالرز تک سالانہ کماتے ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک راہ داری اور منزل تک پہنچنے کے ذریعے کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ پاکستان میں 2023 تک چار برسوں میں ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے 80 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہاں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اور کئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد نو سو کلومیٹر طویل ہے، جہاں انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، کیوںکہ صرف تافتان بلوچستان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان ایمیگریشن کا مرکز ہے اور وہاں بھی سہولیات کا فقدان ہے۔
پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور وہاں سے یونان انسانی اسمگلنگ کا ایک روایتی راستہ رہا ہے۔ ایران سے سالانہ تقریبا 15 ہزار اور عمان سے لگ بھگ 8 ہزار پاکستانیوں کو گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کرکے پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔ پاکستان سے خواتین، بچوں اور مردوں کو غیرقانونی طور پر خلیجی ممالک ترکی، ایران اور یورپ میں اونٹوں کی دوڑ، جسم فروشی اور جبری مشقت کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔
پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر 2018 میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے، جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018 جب کہ دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔ ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، امیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔ ان قوانین کی روشنی میں ملک سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں رکھی گئی ہیں، جب کہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک اور الم ناک دل خراش واقعہ رونما ہوا۔ ہمیشہ کی طرح مغربی افریقہ کے راستے غیرقانونی طور پر اسپین جانے والے تارکین وطن کی کشتی مراکش میں حادثے کا شکار ہوگئی، جس کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک ہوگئے، جن میں 44 پاکستانی بھی شامل تھے۔ مراکشی حکام کے مطابق کشتی میں سوار 36 افراد کو بچایا گیا ہے جو دو جنوری کو افریقی ملک موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں 86 تارکین وطن سوار تھے، جن میں 66 پاکستانی بھی شامل تھے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔
وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے متاثرین کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وزارت خارجہ میں کرائسس مینجمنٹ یونٹ فعال کردیا گیا اور سفارت خانے کی ٹیم روانہ کردی گئی۔ ورثا نے انسانی اسمگلرز پر قتل کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس واقعے میں مرنے والے 12 نوجوان گجرات کے رہائشی تھے، جو چار ماہ قبل یورپ کے لیے روانہ ہوئے، کشتی دو جنوری کو روانہ ہوئی، پیسے نہ ملنے پر کشتی کو سمندر میں کھڑا کردیا گیا اور انسانی اسمگلروں نے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا۔ 2024 کے دوران اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم ہسپانوی گروپ کے مطابق رواں برس سمندری راستے سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10 ہزار سے زائد تارکین وطن ہلاک ہوئے۔
2023 کے مقابلے میں 2024 میں مجموعی طور پر اموات میں 58 فی صد اضافہ ہوا۔ 2024 میں مغربی افریقہ سے ہزاروں تارکین وطن افریقی ساحل کے قریب واقع ہسپانوی جزائر کناری پہنچے۔ ان جزائر کو یورپ کی مرکزی سرزمین تک پہنچنے کے لیے پہلا پڑاؤ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے انسانی اسمگلروں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور کئی اسمگلروں کو گرفتار کر کے سزائیں دی گئی ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان جان بوجھ کر اپنی زندگی کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ اس سفر میں ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جان اور پیسے دونوں ہی انسانی اسمگلروں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ شرعی طور پر بھی یہ کام غلط اور حرام ہے کیوںکہ یہ خودکشی کے مترادف ہے۔ والدین بھی اس صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ والدین کو ہر حال میں اپنی اولاد کو روکنا چاہیے۔
انسانی اسمگلنگ کو عام زبان میں ڈنکی کہا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف مناسب اقدامات نہ ہونے پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا گیا، جس پر وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگی بنیادوں پہ اقدامات کر رہے ہیں۔ 2024 میں انسانی اسمگلنگ کے 3456 مقدمات رجسٹرڈ اور 1638 انسانی اسمگلرز گرفتار کیے گئے۔
اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ 2024 میں ریڈ بک میں شامل 38 انسانی اسمگلرز گرفتار ہوئے جب کہ انسانی اسمگلنگ کے 15 ماسٹر مائنڈ حراست میں لیے گئے۔ 68اعشاریہ 81 ملین مالیت کے اثاثے بھی منجمد کیے گئے۔ وفاقی وزیرقانون نے مزید کہا کہ دسمبر 2024 میں 42 واقعات ہوئے۔ یونان کے کشتی حادثے پر 38 افسران کو نوکریوں سے برخواست کیا گیا۔ اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وزیراعظم شہبازشریف انسانی اسمگلنگ کے معاملے پر ہفتہ وار بریفنگ لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بل بھی لایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلروں کی جائیدادوں اور اثاثوں کی ضبطی کے لیے فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
حکومت کے فرائض اپنی جگہ لیکن والدین اور اہل خانہ پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں، تاکہ انھیں زندگی بھر کا دکھ اور پچھتاوا نہ جھیلنا پڑے۔ بیرون ممالک جانے کا سوچنے والے نوجوانوں کو کئی نقصانات ہو سکتے ہیں جیسے گھر والوں سے دوری، ثقافتی چیلنجز اور ناکامی کے خطرات ان نوجوانوں کی زندگی متاثر کر سکتے ہیں۔ بیرون ملک جاکر بھی اکثر نوجوان کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے ان کی مالی حالت مزید خراب ہوجاتی ہے۔
ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے یہ نوجوان مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے انسداد کے لیے سخت قوانین کی تشکیل اور ان کے نفاذ کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، یوتھ منسٹری کو فعال بنائے اور طویل المعیاد معاشی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور فکر کرے، نئی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہمارے نوجوانوں کو اپنے ملک ہی میں باعزت روزگار میسر آسکے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔