
غزل
لرز رہا ہے بدن خون کی کمی سے بھی
ملال تھوڑا سا ہے اسکی بے رخی سے بھی
کھرے نہ اترے کسی عشق امتحان میں ہم
گئے سو اب کے محبت رہی سہی سے بھی
سراب اب کے نیا روپ لے کے آیا ہے
اندھیرے پھوٹ پڑے اب تو روشنی سے بھی
کبھی تو خار بھی راحت کا بن گئے ساماں
لگے ہیں زخم کبھی پھول کی کلی سے بھی
نکال پھینکا جو معمول سے تمہیں ہم نے
اسی طرح سے نکالیں گے زندگی سے بھی
یہ کیا کہ پھر سے اُسی در پہ لوٹ آئے ہیں
جو منہ بنائے ملو جتنا عاجزی سے بھی
منا کے لا نہ سکے جس کے بل پہ دوست، رشیدؔ
تو لینا کیا ہے بھلا ایسی شاعری سے بھی
(رشید حسرتؔ۔ کوئٹہ)
غزل
تو کسی دن مجھے آواز لگانا میرے دوست
دنیا دیکھے گی مرا بھاگ کے آنا مرے دوست
جنبشِ لب بھی نہیں، حرکتِ مژگاں بھی نہیں
کتنا دشوار ہے تصویر میں آنا میرے دوست
تو نے بھی سب کی طرح چھوڑ ہی دینا ہے مجھے
ہاتھ لگ جائے گا جب تیرے خزانہ میرے دوست
یہ پرندے سبھی زندان کا دکھ جانتے ہیں
تو فقط پاؤں کی زنجیر ہلانا میرے دوست
دن گزارا ہے یہاں رات کہیں اور سہی
کہاں ہوتا ہے ہم ایسوں کا ٹھکانہ میرے دوست
میرے جیسوں کا کبھی وقت نہیں آتا ہے
اب جو آنا ہوا،آئے گا زمانہ میرے دوست
دیکھتے دیکھتے سب خاک ہوئے جاتے ہیں
ہم بھی ہو جائیں گے اک روز فسانہ میرے دوست
(بلال قیس۔ شورکوٹ)
غزل
در و دیوار گھر کے آبدیدہ
پڑا ہے ایک لاشہ سر بریدہ
اگر میں داستاں کہہ دوں زمانے
تمہیں اچھے ملیں گے چیدہ چیدہ
کسے احوالِ دل جا کر سنائیں
کہاں جائیں ترے فرقت گزیدہ
عجب لگتا ہے جب ہر سُو ہو دولت
بھری بستی میں اک دامن دریدہ
اٹھا ہے شور ہر سُو العَطش کا
جسے دیکھو وہی ہے آبدیدہ
مرا شاعر قلم کو توڑ دے گا
نہیں لکھے گا حاکم کا قصیدہ
میں سچا ہوں ترے زنداں سے ڈر کر
کبھی ہوگا نہ میرا سر خمیدہ
ابھی مجھ سے تعلق مت بناؤ
ابھی حالات ہیں میرے کشیدہ
مقابل اس لئے آیا ہے زاہدؔ
تجھے آیا نظر میں سِن رسیدہ
(حکیم محبوب زاہد۔ منڈی بہاء الدین)
غزل
چاند تاروں کے یہ نزدیک نہیں ہوتی تھی
رات پھر بھی مری تاریک نہیں ہوتی تھی
آدھے تو مانتے تھے مجھ کو مسیحا اپنا
اور آدھوں کو یہ توفیق نہیں ہوتی تھی
کیسے منزل پہ پہنچتا مرے سالار بتا
جن دنوں سمت مری ٹھیک نہیں ہوتی
ایسا بھی وقت ہوا کرتا تھا پہلے پہلے
مانگی جاتی تھی مدد بھیک نہیں ہوتی تھی
کامیابی کے لیے لوگ دعا کرتے تھے
کوئی جلسہ کوئی تحریک نہیں ہوتی تھی
(اسد رضا سحر۔جھنگ)
غزل
دروازہ تک نہ کھلتا تھا دیوار بھی کھلی
شہزادی پر غلام کی جب سبزگی کھلی
خود آ گیا خدائی کے چکر میں چاک پر
جب اس پہ مجھ فقیر کی کوزہ گری کھلی
کل شب سفر کی دھول سے اٹ کر تھکا ہوا
میں گھر گیا تو مجھ پہ مری بے گھری کھلی
خوشبو کی مخبری ہوئی میرے حواس تک
پہلو میں اک خیال کی ایسی کلی کھلی
وہ ہونٹ گرم جوشی سے ماتھے پہ آ لگے
اور مجھ پہ ایک زنگ زدہ زندگی کھلی
پہروں کا حبس جھیل کے نکلی کوئی غزل
دیوار و در کے شور میں اک خامشی کھلی
میری تو کوئی بات بھی مبہم نہیں اسے
شعروں میں قسط وار مری اَن کہی کھلی
میں بعد میں بلایا گیا اس کی بزم میں
پہلے تو اس کے دل پہ مری شاعری کھلی
آنکھیں ہی موند لی تھیں کسی شکل نے کیان
گالوں پہ اشک ٹوٹے تو وہ جل پری کھلی
( منیب کیان ۔اسلام آباد)
غزل
مصیبت آن پڑتی ہے کہ جب کوئی نہیں رہتا
تو پھر ایسے میں جینے کا سبب کوئی نہیں رہتا
یہ میرے جسم کا زنداں ہے خالی ایک مدت سے
یہاں رہتا تھا پہلے میں پر اب کوئی نہیں رہتا
ضرورت ہو دلاسے کی تو کاندھے روٹھ جاتے ہیں
دعا کی گر ضرورت ہو تو لب کوئی نہیں رہتا
مری آنکھیں اسے دیکھیں تو سجدے میں چلی جائیں
کہا کس نے محبت میں ادب کوئی نہیں رہتا؟
ارے اربابؔ چاہت میں نہیں مرتا کوئی مانا
مگر یہ بات ہے جینے کا ڈھب کوئی نہیں رہتا
(ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو،گوجرانوالہ)
غزل
اک جہاں زاد چلتا بنا چھوڑ کر، اے حسَن کوزہ گر!
ہم کھڑے رہ گئے مثلِ دیوار و در، اے حسن کوزہ گر!
ہم کو عطّار یوسف نے بلوایا تھا، خوب سمجھایا تھا
دل پہ لیکن رہی گفتگو بے اثر، اے حسن کوزہ گر!
تیری کوزہ گری بھی ہوئی رائیگاں، عشق بھی بے اماں
اپنا کارِ جنوں بھی لگا داؤ پر، اے حسَن کوزہ گر!
لمحہ لمحہ پکارا مگر چپ رہی، سوختہ بخت بھی
آب و گِل کی طرح خاک تھی خاک پر، اے حسَن کوزہ گر
اے حَسن کوزہ گر، دیکھ تو اک نظر، ہم ہوئے معتبر
کوئی بھی ساتھ اپنا نہیں ہے مگر اے حَسَن کوزہ گر
تیرا شہباز نیّر جو ہم زاد تھا، کیسا آزاد تھا
وقت نے اس کو بھی رکھ دیا چاک پر اے حَسَن کوزہ گر
(شہباز نیّر۔ رحیم یار خان)
غزل
آیا ہو اک طرف سے جو خالی نکال پھینک
پھر دوسری طرف سے تو دریا میں جال پھینک
اِس وقت نے تو خاک نشیں کر دیا مجھے
تُو تو نہ بھر کے مٹھیاں گردِ ملال پھینک
مجھ کو کریدنے سے نہیں مل سکے گا تو
میرا بدن ادھیڑ دے یا پھر کدال پھینک
اب کام پھول سے نہیں پیسوں سے ہوتے ہیں
تجھ کو بھی چاہیے جو محبت تو مال پھینک
چاہیں تو ہم یہ جنگ ابھی روک سکتے ہیں
میں تیغ پھینک دیتا ہوں تو اپنی ڈھال پھینک
(شعیب مجیب ۔ننکانہ صاحب)
غزل
حق کی آواز اٹھاؤ گے تو مر جاؤ گے
سچ کی تصویر بناؤ گے تو مر جاؤ گے
چور کی یاری محافظ سے بہت گہری ہے
چور کو چور بلاؤ گے تو مر جاؤ گے
پارسائی کے لبادے میں چھپے حاکم کے
کالے کرتوت بتاؤ گے تو مر جاؤ گے
کون ہے؟ پانی سمجھ کر جو بہاتا ہے لہو
لب پہ یہ بات جو لاؤ گے تو مر جاؤ گے
پالتو بن کے رہو گے تو مزے لُوٹو گے
آنکھ سے آنکھ ملاؤ گے تو مر جاؤ گے
(دلاور حسین دلاور۔ ملتان)
غزل
ذرا سا وقت خوشی کا ادھار دینا مجھے
پھر اس کے بعد جو چاہو تو مار دینا مجھے
میں اپنے طور پہ چل کر ہی جیت لوں گا تجھے
تو اپنی چال پہ چل کر ہی ہار دینا مجھے
یہ التجا ہے مری کارواں کے رہبر سے
وفا کی آئے گلی تو اتار دینا مجھے
پتہ چلے گا کہ اک میں ہوں تیراخیراندیش
جب آئے تجھ پہ مصیبت پکار دینا مجھے
(محبوب الرحمان۔ سینے،میاندم،سوات)
غزل
جہاں جہاں بھی یہ راتوں کا سایہ جاتا ہے
وہیں چراغِ ہدایت جلایا جاتا ہے
پیام حق کو جہاں پر سنایا جاتا ہے
نقوشِ بد کو وہاں سے مٹایا جاتا ہے
یہ بات ہے تو ستم کی مگر کیا کریں ہم
یہاں فضول میں ہر دم ستایا جاتا ہے
عجیب دورِ سیاہ سے پڑا ہے پالا اب
کہ بھتہ خور کو رہبر بنایا جاتا ہے
جہاں میں جو بھی غریبوں کے پاس ہوتا ہے
کہیں سے چھینا کہیں پر جلایا جاتا ہے
یہ کون لوگ ہیں یا رب ستائے جاتے ہیں
کسی کو چور یا ڈاکو بنایا جاتا ہے
ہٹا کے منہ سے درونِ مے خانہ مے مجھ سے
یوں تشنہ لب پہ تبسم سجایا جاتا ہے
جو عہد عشق محبت کے روز کرتے ہیں
انہیں کو راہوں میں قاصر کیوں رلایا جاتا ہے
(قاصر ایاز میمن۔ تھرپارکر)
غزل
موج ہوں لہر ہوں ہوا ہوں میں
اِک سفینے کا نا خدا ہوں میں
کون کب آستیں سے نکلے گا
دوستوں سے توآشنا ہوں میں
سب کے چہروں سے با خبر ہوں میں
سب کے لہجے سے آشنا ہوں میں
دوستی میں کمال کرتا ہوں
دشمنی میں مگر جدا ہوں میں
کون اچھا برا ہے کیا معلوم
اب تو سب کے لیے برا ہوں میں
اُس کی نظروں سے دور ہوں ارسلؔ
اس کے دل پہ مگر لکھا ہوں میں
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
غزل
تجھ کو سوچوں تو مہک جاتا ہوں
اور سوچوں میں بھٹک جاتا ہوں
بھرا برتن ہوں کناروں تک میں
کوئی چھیڑے تو چھلک جاتا ہوں
جب بھی گھبراؤں،ترے گھرکی طرف
میں پکڑتا ہوں سڑک، جاتا ہوں
یاد آتی ہے مجھے ماں کی گود
کام کر کر کے جو تھک جاتا ہوں
ایم اے تعلیم ہے، پھر بھی اکثر
نام پر تیرے اٹک جاتا ہوں
بوجھ لگنے لگوں جو محفل میں
پھر میں چپکے سے کھسک جاتا ہوں
جو زمیں پر نہ ملا اس کو فریدؔ
ڈھونڈنے سوئے فلک جاتا ہوں
(فرید عشق زادہ ۔ بنگلہ گوگیرہ، اوکاڑہ)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔