پاک بحریہ مشترکہ عالمی مشقیں اور امن ڈائیلاگ... خطے میں میری ٹائم سکیورٹی کیلئے انتہائی اہم!!

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تشخص کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی: ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


عکاسی: محمود قریشی

2007ء سے پاکستان بحریہ علاقائی امن اور استحکام کیلئے عالمی بحری مشقوں کا انعقاد کرتی ہے۔ رواں برس 7 فروری سے 11 فروری تک عالمی امن مشقوں کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ امن ڈائیلاگ کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر سے آنے والے بحری افواج کے سربراہان اور ماہرین شرکت کریں گے۔

امن کیلئے ان بحری مشقوں اور ڈائیلاگ کے خطے کی سکیورٹی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ ان کی اہمیت اور افادیت کیا ہے؟ اس کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین نے سیر حاصل گفتگو کی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ریئر ایڈمرل (ر) نوید احمد رضوی

قدرتی طور پر سمندر ایک مختلف میڈیم ہے۔ انسان زمین پر رہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے سمندروں پر بھی دسترس دی ہے۔ انسان کی ضروریات زمین سے پوری نہیں ہو رہی تھیں لہٰذا اس نے سمندروں کا رخ کیا اور وہاں سے معدنیات اور دیگر وسائل حاصل کرنے کی کوشش کی۔ دنیا کے ممالک نے سمندروں میں اپنی حدود متعین کیں اور اس طرح سمندر کا قانون وجود میں آیا۔ سمندروں اور اردگرد خصوصی معاشی زون بنے، ماہی گیری بھی ایک بڑا معاشی ذریعہ بنا ۔ ہمارے لیے سمندر کے حوالے سے دو بڑے خطرات ہیں، ایک تو روایتی حریف اور دوسرا غیر روایتی چیلنجز ہیں جن میں انسانی سمگلنگ، بحری قذاق، منشیات، سائبر وار فیئر و دیگر شامل ہیں لہٰذا تمام ممکنہ چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ امن مشقوں کی بات کریں تو پاکستان نیوی نے ان مشقوں کا آغاز 2007ء میں کیا جس میں 28 ممالک نے حصہ لیا۔ گزشتہ برس اس میں 50 ممالک نے شرکت کی تھی جبکہ رواں برس ساٹھ سے زائد ممالک اس میں شریک ہورہے ہیں ۔ یہ پاکستان خصوصاََ امن مشقوں اور ہمارے سمندر میں دنیا کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس خطے میں بحر ہند اور بحیرہ عرب ہے جو عالمی توانائی کوریڈور کا سنگم ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان نیوی نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں عالمی طاقتوں کو اکٹھا کرکے چیلنجز اور مواقع دیکھے جائیں اور یہ طے کیا جائے کہ مسائل سے کیسے نمٹنا ہے۔ جب مختلف ممالک کی فورسز اور ماہرین آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپنے تجربات اور مہارت شیئر کرتے ہیں، دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں، اس طرح ہماری امن مشقیں تمام فریقین کیلئے سود مند ثابت ہوتی ہیں۔ امن مشقوں کی تین جہتیں ہیں، پہلی مشقیں، دوسری امن ڈائیلاگ اور تیسری اعلیٰ سطحی مشاورت ہے۔ امن مشقوں میں مختلف ممالک اپنے بحری جہازوں اور ایئر کرافٹس وغیرہ کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ امن ڈائیلاگ میں دنیا کے ماہرین اپنے مقالے پڑھتے ہیں، اس میں بحری افواج کے سربراہان بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ دنیا کو درپیش خطرات ، انہیں ختم یا دور کرنے پر بات ہوتی ہے۔ اعلیٰ سطحی مشاورت میں دنیا کی نیول فورسز کے سربراہان شرکت کرتے ہیں۔ امن مشقوں کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف دنیا میں ہماری ساکھ بہتر ہوتی ہے بلکہ سکیورٹی اور معاشی حوالے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ جب مختلف موضوعات، چیلنجز اور فوائد پر بات ہوتی ہے تو اس میں گوادر، پاناما ، سوئس کینال و دیگر پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ گوادر پاکستان کیلئے ایک اہم اور بڑا منصوبہ ہے، رواں برس بھی اس کی اہمیت دنیا کو دکھانے اور بتانے میں بھی مدد ملے گی۔ کراچی پاکستان کی شہہ رگ ہے کیوں کہ وہاں سمندر ہے۔ اب گوادر کی صورت میں ہم ایک اور کراچی بسانے جا رہے ہیں جو ہمارے روایتی دشمن سے بھی دور ہے۔ وہاں لوگوں کو روزگار ملے گا، عالمی تجارت ہوگی اور سب کو بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا ہے، دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور گوادر کو کامیاب۔ بلیو اکانومی سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔ اس میں صرف ماہی گیری ہی شامل نہیں بلکہ معدنیات، تجارت، سیاحت و دیگر چیزیں شامل ہیں۔

کمانڈر (ر) فیصل شبیر

(ڈائریکٹر میری ٹائم سینٹر فار ایکسیلنس)

رواں برس امن مشقوں میں 60 سے زائد ممالک شرکت کریں گے جو ایک دوسرے سے تجربات سے سیکھیں گے۔ ممالک کی باہمی مشقیں ہوتی ہیں۔ اس دوران کمیونیکیشن، ٹیکنالوجی، سمگلنگ، سائبر اٹیک، آرٹیفیشل انٹیلی جنس و دیگر پہلوؤں کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ممالک کی آپس میں کووارڈینیشن بہتر ہوتی ہے، ایک دوسرے سے وسائل بھی شیئر کیے جاتے ہیں۔ بحر ہند بہت بڑا ہے، اگر سب اس پر الگ الگ کام کریں تو توانائی اور وسائل زیادہ خرچ ہونگے لیکن اگر جوائنٹ ونچرز کریں تو اخراجات کم ہونگے، کارکردگی بہتر ہوگی اور خطرات سے نمٹنے میں بھی آسانی ہوگی۔ امن مشقوں میں سپیشل آپریشنل فورسز بھی شرکت کریں گی جن کا انسداد دہشت گردی میں کلیدی کردار ہے۔ اس سے دنیا کو بہت فائدہ ہوگا۔ میرے نزدیک امن ڈائیلاگ کے بحر ہند کے سٹرٹیجک ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سمندر ایک نیوٹرل پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان کا خصوصی اکنامک زون دو لاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ براعظمی علاقہ 50 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ بحر ہند38 ممالک کے ساتھ لگتا ہے لہٰذا یہ سب کا حق ہے کہ وہ اس کے وسائل استعمال کریں لیکن اس میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ جب امن مشقوں میں امریکا، یورپ، مشرق وسطیٰ و دیگر ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونگے تو بہت فائدہ ہوگا۔ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل کرتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اقوام متحدہ کا رکن ملک ہونے کی وجہ سے ہماری فورسز بھی اس کے حل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ کولیشن میری ٹائم فورسز میں 150اور 151 ہے، اس میں بھی ہماری فورسز مختلف ممالک کے ساتھ ملک کر کام کرتی ہیں۔ ہماری 90 فیصد تجارت بذریعہ سمندر ہوتی ہے۔ اسے ’’سی لائنز آف کمیونیکیشن‘‘ کہتے ہیں۔ جتنے بھی جہاز پاکستان کی حدود یا بحیرہ عرب سے گزر رہے ہیں، ان کی حفاظت ہم نے یقینی بنانی ہے۔ جب ممالک کی آپس میں بہتر کووارڈینیشن ہوتی ہے تو سکیورٹی بہتر ہوتی ہے اور مسائل سے باآسانی نمٹ لیا جاتا ہے۔ ہم سرچ اینڈ ریسکیو میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مختلف ممالک اور محکمے آپس میںانفارمیشن شیئرنگ بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی کشتی یا ماہی گیروں کو کوئی حادثہ درپیش ہو یا کوئی اور مسئلہ ہوجائے تو بلا امتیاز مدد کی جاتی ہے۔ 2023ء کی امن مشقوں میں ایران، سری لنکا و دیگر علاقائی ممالک نے بھی شرکت کی۔ اس میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکا اور چین بھی شریک ہوئے ۔ بحری افواج کی کووارڈینیشن مثالی اور بہترین ہوتی ہے۔ پاکستان نے اس میں پُل کا کردار ادا کیا ہے اور کر رہا ہے۔ اس مرتبہ 60 سے زائد ممالک شرکت کر رہے ہیں، یقینا اس سے مزید بہتر نتائج حاصل ہونگے۔ سی پیک اور گوادر کے حوالے سے پاکستان نیوی ہر طرح سے تیار ہے اور حکومت کی مدد بھی کر رہی ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو اس سے معاشی طور پر درست فوائد حاصل ہوں۔ چین کے لیے بھی گوادر اہم ہے، یہ عالمی تجارت کیلئے ٹرانزیشنل روٹ بھی ہوگا۔ ہم اس کے ذریعے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاکستان نیوی کی جانب سے امن مشقوں کا انعقاد وقت کی ضرورت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ مشقیں تو 2007ء سے ہو رہی ہیں مگر اس بار اس میں کوئی ساٹھ ممالک حصہ لیں گے جن میں امریکا بھی شامل ہے۔ مگر اس بار نیوی کے سربراہ نے ان مشقوں کی حیثیت کو دو چند کر دیا ہے کہ پہلی بار امن ڈائیلاگ 2025ء کا بھی انعقاد کروایا جا رہا ہے کہ جس میں سیمینار وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے بحری فوج کے افسران ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکیں گے اور ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھ سکیں گے۔ امن ڈائیلاگ 2025 اور یہ مشقیں بحری تزویراتی امور کے حوالے سے پاکستان سمیت بہت سارے ممالک کے باہمی اشتراک کو وسعت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہونگی۔ یہ سمندری گزرگاہ کوئی معمولی اقتصادی نقل و حرکت نہیں رکھتی ہے بلکہ یہاں سے سالانہ تین ٹریلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب ہند بحر الکاہل سے جنوبی بحیرہ چین تک انڈین نیوی اپنے اثرات مرتب کرنے میں مصروف ہے۔عالمی معیشت میں اس وقت بلیو اکانومی یا سمندری معیشت کی حیثیت مسلمہ ہے اور اس وجہ سے ہی درست طور پر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اس حوالے سے کیا حکمت عملی ہے؟ اور اس سے مفادات کو کشید کیسے کیا جا سکتا ہے؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستانی برآمدات کا حجم ساٹھ ارب ڈالر تک بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس تناظر میں یہ جاننا بہت اہم ہے کہ اس ساٹھ ارب ڈالر کے ہدف کو حاصل کرنے کی غرض سے جو پالیسی تیار کی گئی ہے یا تیار کی جا رہی ہے اس میں بلیو اکانومی '' سمندری معیشت '' پر کتنی توجہ دی گئی ہے۔ گوادر وزیر اعظم فیروز خان نون کے دور اقتدار میں پاکستان کا حصہ بنا اور پاکستان کی زمینی سرحدوں میں پر امن توسیع ہو گئی۔ پاکستان کی بحری سرحدوں میں توسیع مارچ 2015ء میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں ہوئی جب پاکستانی سمندری حدود کو دو سو ناٹیکل میل سے بڑھاکر ساڑھے تین سو ناٹیکل میل کرنے کے پاکستانی دعوے کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن لمٹس آف کانٹیننٹل شیلف نے تسلیم کر لیا اور خطے میں پاکستان پہلا ملک بن گیا کہ جس کا یہ دعوی مان لیا گیا، نتیجے کے طور پر پچاس ہزار مربع کلومیٹر پاکستانی سمندری حدود میں اضافہ کے ساتھ پاکستانی سمندری رقبہ دو لاکھ نوے ہزار مربع کلو میٹر ہو گیا اور اس اضافہ کے ساتھ ہی پاکستانی سمندری رقبہ صوبہ بلوچستان کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا علاقہ بن گیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کا مشترکہ رقبہ بھی اس سمندری رقبے سے کم ہے۔ اس کامیابی کے بعد جب میری وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی تو ان کو اس کامیابی پر مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ بلیو اکانومی کا بھی تذکرہ کیا وہ اس کی اہمیت سے آگاہ اور اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اب پھر مسلم لیگ ن کی حکومت وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہے اور حکومت کی توجہ ہر صورت بلیو اکانومی پر ضرور ہونی چاہیے ۔ سنہ دو ہزار میں انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی نے ایک اسٹڈی کی اور اس اسٹڈی کے مطابق پاکستانی کانٹیننٹل شیلف (سمندری حدود) اور اس کے اطراف میں مینگنیز، کوبالٹ اور نکل جیسی دھاتیں بڑی مقدار میں موجود ہیں یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کا سمندری رقبہ دو سو ناٹیکل میل تھا جو اب ساڑھے تین سو ناٹیکل میل ہو چکا ہے۔ بلیو اکانومی میں جو شعبہ سب کو نظر آتا ہے وہ ماہی گیری ہے۔ پاکستان کی مچھلی کی مصنوعات کی سالانہ ایکسپورٹس تین سو سے چار سو ملین ڈالر ہے حالانکہ اس میں برآمدی قوت تین سے چار ارب ڈالر ہیں اور جس کو محنت کرکے مزید بھی قابل قدر حد تک بڑھایا جا سکتا ہے مگر یہ صرف ساڑھے تین سو ملین ڈالر تک کیوں محدود ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ماہی گیری عالمی معیارات کے مطابق نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کم و بیش بیس ہزار کشتیاں اس مقصد کیلئے استعمال ہوتی ہیں مگر ان میں سے صرف چار سو سے زائد ایسی کشتیاں ہیں کہ جن کو عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ دنیا چاہتی ہے کہ کشتی پر فریزر ہو تا کہ مچھلی کو محفوظ کیا جا سکے مگر ہم برف کا ہی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ 1970ء کے عشرے تک پاکستانی مرچنٹ شپس 74تھے جو اب گیارہ رہ گئے ہیں۔ انیس سو اسی کے عشرے تک پاکستان بڑے پیمانے پر چین، مڈل ایسٹ، فار ایسٹ کو بحری جہاز بنا کر دیتا تھا مگر اب یہ قصہ ماضی ہوا، گڈانی کی شپ بریکنگ انڈسٹری چین، انڈیا سب سے آگے تھی مگر اب ہمارا نمبر بنگلہ دیش کے بھی بعد میں پہنچ چکا ہے۔ سمندری سیاحت دنیا بھر میں مقبول ہے، پاکستان کے ساحلوں کو دو حصوں ساحل سندھ اور ساحل مکران میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ساحل سندھ پر 14 اور ساحل مکران پر 17 ایسے مقامات ہیں کہ جو سمندری سیاحت کے لئے بہت پر کشش ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان نیوی سکیورٹی و دیگر حوالے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں ہماری بحری فوج کم تھی لیکن اس نے کمال مہارت سے بھارت کو روکے رکھا۔ پاکستان نیوی کا ملک کیلئے کلیدی کردار ہے۔ امن مشقوں سے ملک کو مزید فائدہ ہوگا۔ n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں