بلوچستان میں دہشت گردی

دہشت گردی کا مسئلہ سنگین ترین صورت اختیار کرچکا ہے


ایڈیٹوریل February 03, 2025

بلوچستان میں مختلف آپریشنز میں مجموعی طور پر 23 دہشت گرد ہلاک کیے جاچکے ہیں، تاہم آپریشنز کے دوران مادر وطن کے اٹھارہ بہادر سپوتوں نے جرات و بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

کالعدم بی ایل اے نے قلات میں فورسز پر حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ نام نہاد دوست نما دشمن کچھ بھی کریں ان کو شکست ضرور ملے گی، دشمنوں کو قوم اور مسلح افواج کی قوت سے شکست ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں سے سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں ان سیکیورٹی چیلنجزمیں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے متصل علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے۔

ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان کی حدود سے باہر خصوصاً افغانستان میں ہیں۔ یہ اسمگلنگ ڈرگز اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کرنے والوں پر مشتمل ہیں۔ یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں ان کا مقصد سیکیورٹی فورسز کا مورال ڈاؤن کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز سے زیادہ طاقتور ہیں۔گزشتہ برسوں کے دوران کئی عسکریت پسند گروہوں نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے چین کو پاکستانی علاقوں میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھنے کے خلاف بار بار دھمکیاں دی ہیں۔

اِن گروہوں نے متعدد حملے کیے ہیں جن میں چینی انجینئرز پر حملے، کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ اور تین چینی اساتذہ کا قتل شامل ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان اور چین دونوں نے انسدادِ دہشت گردی اور مسلسل ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔دہشت گردی کا مسئلہ سنگین ترین صورت اختیار کرچکا ہے۔

ایک سانحے کا دکھ ابھی مندمل نہیں ہوتا کہ دوسرا رونما ہوجاتا ہے۔ دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا لہولہان ہیں۔ سیکیورٹی فورسزکے اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک جام شہادت نوش کررہے ہیں۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات سے پاکستان کی فضا سوگوار ہے۔ ہم سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوانوں اور غازیوں کو سلام پیش کرتے جو اپنی جانوں پر کھیل کر وطن کا دفاع کررہے ہیں۔

پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے اپنے بیان میں دوست نما دشمن کا ذکرکیا ہے، یقیناً ہم سب اس دشمن کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ بلاشبہ پاک فوج نے جس طرح ماضی میں پاک وطن کو امن کا گہوارہ بنایا تھا تو مستقبل میں پاک فوج دشمن کی ناپاک کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ایسے ہی اپنا کردار ادا کرتی رہے گی اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑے گی۔

بلوچ قومیت کے نام پر جس طرح دہشت گردی کی جا رہی ہے اس سے عام بلوچ شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں چند مٹھی بھر عناصر شامل ہیں جو بھارت کی شہ اور بھارت کی جانب سے اسلحے اور پیسہ ملنے کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کو بھارت کی جانب سے سپورٹ کیاجاتا ہے اور یہ عناصر پیسے اور شہرت کے لیے بھارت کی بولی بھی بولتے ہیں بلکہ بھارت کے ایما پر پاکستانیوں پر حملہ آور بھی ہوتے ہیں۔

بھارت کی خفیہ ایجنسی را ایک عرصے سے بلوچستان میں سرگرم ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح بلوچستان کو بد امنی کا شکار کیا جائے۔ جس طرح نوجوانوں کو بلوچستان میں ورغلایا جا رہا ہے اور انھیں جس طرح سے سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ ان کے لیے ڈراؤنے خواب ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کی اہمیت اور آزاد ملک میں رہنے کی قدر و قیمت تو ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو اغیار کی غلامی میں جی رہے ہیں۔

بھارت جس کو بلوچستان کا اتنا درد ہے اس کے اپنے ملک میں اس وقت مسلمان غلامی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے اور طرح طرح کے لالچ کے باوجود مقبوضہ کشمیر کا نوجوان بھارت کی سرکار کے جھانسے میں نہیں آ رہا۔ بھارت بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں پاکستان سے متنفر کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے وہ ناکام ہو گی کیونکہ اگر بھارت مسلمانوں کا اتنا ہی خیر خواہ ہوتا تو اس کے اپنے ملک میں آج مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔

جہاں تک بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی بات ہے تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور ختم ہو جائے گی کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کو مالی و عسکری امداد ہمسایہ ممالک کے ذریعے بھارت پہنچا رہا ہے اور پاک فوج بھارت کا یہ نیٹ ورک توڑنے میں ضرورکامیاب ہوگی کیونکہ ماضی میں بھی پاک فوج نے کلبھوشن یادیو کو بلوچستان میں تخریب کاری کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

اس کے لیے سوشل میڈیا کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، اب اگر کوئی بچہ منہ میں کوئلہ لے لے یا ہاتھ میں آگ پکڑ لے تو اس بچے کو بچانا اس کے والدین کا فرض ہے تو ہم یہ کہہ کر انکار نہیں کرسکتے کہ بچے کی مرضی وہ جو چاہے کرے اسی طرح سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ دراصل بھارت ہر اُس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جس سے پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے حالانکہ 2021 میں امریکی انخلا کے بعد بھارت نے بھی افغانستان سے فرار میں عافیت سمجھی تھی کیونکہ بھارت نے اشرف غنی حکومت پر جو سرمایہ کاری کی تھی، وہ مشکلات کا شکار ہوئی تو بھارت نے افغانستان سے جانے میں ایک لمحہ بھی ضایع نہ کیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابق افغان صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا اور ان کے ادوار میں بھارت نے افغانستان پر نوازشات بھی کیں۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ان نوازشات کا اصل ہدف پاکستان کو سفارتی سطح پر نقصان پہنچانا تھا۔ بھارت اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا کیونکہ یہی وہ دور تھا جب بھارت کو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کھل کر سازشیں کرنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

اگست 2021میں جب افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو عمومی خیال یہی تھا کہ چونکہ افغان طالبان بھارت کے حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے ساتھ تعلقات سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے افغانستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ رہیں گے مگر وِکرم مشری اور امیر خان متقی کی دبئی میں ہونے والی ملاقات اس تاثر کو زائل کرتی ہے۔ بھارت نے افغانستان پر ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے پر بھی زور دیا ہے۔

اس ملاقات کی دوسری وجہ بنگلہ دیش کے حالات ہیں جہاں بھارت نے پچھلے 50برسوں سے جو سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد رائیگاں ہوگئی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس اور وزیراعظم شہباز شریف کی مصر میں ڈی ایٹ ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ملاقات اور اگلے ماہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا متوقع دورہ بنگلہ دیش بھارت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں اندازہ تھا کہ بھارت مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔

بھارت کو جب اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو افغان طالبان کے ساتھ روابط بڑھانا شروع کردیے ہیں جس کا مقصد طالبان حکومت کے ساتھ تعاون سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ پچھلی دو دہائیاں شاہد ہیں کہ بھارت نے کھیل کے میدانوں سے لے کر ہر سطح پر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔

اس کے لیے بھارت نے سفارت کاری کا سہارا لیا ہے تاکہ دنیا کے نظروں میں بھی اچھا بنا رہے اور اپنے مذموم اہداف بھی حاصل کرتا رہے۔ سفارت کاری کے ذریعے مخالف ملک کو شکست دینے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی جنگ یا فوجی کارروائی کے اس ملک کو سیاسی، اقتصادی اور عسکری میدانوں میں کمزور کر دیا جائے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں طاقت کے بجائے دماغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی جنگ میں بالعموم مذاکرات، دھمکی، اتحاد یا پروپیگنڈا جیسے طریقہ کار آزمائے جاتے ہیں۔ بھارت نے بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد حکومت کے ساتھ اتحاد کیا۔

کہنے کو یہ صرف تجارتی اتحاد تھا مگر یہاں سے پاکستان کے خلاف سازشیں تیارکی جاتی تھیں۔ شیخ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان جو دوریاں پیدا ہوئیں اس کے پیچھے بھارتی سوچ کارفرما تھی۔ اسی طرح بھارت نے افغانستان میں اشرف غنی اور حامد کرزئی کو اپنا اتحادی ظاہرکیا مگر اس اتحاد کا مقصد افغانستان سے پاکستان کے خلاف سازشی منصوبوں کو کامیاب بنانا تھا۔

پاکستان نے ہمیشہ مستحکم افغانستان کی بات کی ہے اور عملی طور پر اس کے لیے کوششیں بھی کی ہیں، اس کے جواب میں اگر افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے تو پاکستان کو آنے والے دنوں میں اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ابھی سے تیار کرنا ہو گی، کیونکہ اس گٹھ جوڑ کے باعث خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں