
قوم کے ہر ایک فرد کو مبارک ہو کہ انھوں نے اپنے جن نمایندوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجا تھا کہ وہ وہاں جا کر عوام کی نمایندگی کرتے ہوئے ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے ان کی آواز بنیں گے، انھیں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بھوک، افلاس، ناخواندگی جیسے درجنوں گمبھیر مسائل سے نجات دلانے کے لیے منصوبہ بندی کریں گے اور ایسی پالیسیاں بنائیں گے کہ جن کے نفاذ سے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آئے گی، آسودگی ملے گی، روزگار ملے گا، غربت کا خاتمہ ہوگا، معیار زندگی بلند ہوگا۔
ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے، علاج معالجے کی سہولیات ملیں گی اور انھیں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی کے بھاری بلوں اور جان ، مال، عزت و آبرو کا تحفظ ملے گا، آئین میں دیے گئے عام آدمی کے حقوق فراہم کرنے میں ہمارے نمایندے اپنا کردار ادا کریں گے، تو جناب! قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ان کے نمایندوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کا مداوا اس طرح کیا کہ اپنی تنخواہوں میں 140 فی صد اضافہ کر لیا جس سے ملک کے کروڑوں غریبوں کو براہ راست ’’فائدہ‘‘ پہنچے گا۔
کیوں جب ان کے حقیقی نمایندے امیر کبیر کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی بنیں گے، ان کا معیار زندگی بلند ہوگا، مہنگے علاقوں میں عالی شان بنگلوں میں رہائش اختیار کریں گے، ان کے بینک بیلنس میں دن رات اضافہ ہوگا، ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جائیں گے اور علاج معالجے پر ان کا دھیلا بھی خرچ نہیں ہوگا، غرض سب کچھ سرکار کے خرچے پر ہوگا تو ان کے خیال زریں میں عوام کے سارے غموں کا علاج بھی ہو جائے گا اور ان کے ووٹ کا حق بھی ادا ہو جائے گا۔
کیا طرفہ تماشا ہے کہ جس ملک میں کروڑوں افراط خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، ڈھائی کروڑ سے زائد بچے تعلیم حاصل کرنے اسکول جانے سے محروم ہوں، جہاں لوگ اس قدر اپنی مفلسی کے ہاتھوں بے بس ہوں کہ اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہو جائیں، گھروں میں فاقوں کا راج ہو اور بے کسی ایسی کہ خودکشی جیسا انتہائی قدم تک اٹھانے لگیں، اپنے جگر گوشوں کو چند لاکھ روپوں کے عوض فروخت کردیں، بہتر مستقبل کی تلاش میں لاکھوں روپے قرض لے کر ایجنٹوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر بیرون ملک جانے کی کوشش میں اپنی جانیں بیچ سمندر میں گنوا بیٹھیں، صحت کی ایسی سہولتیں کہ مائیں گدھا گاڑی میں بچے جنم دینے پر مجبور ہو جائیں اور دواؤں کی قیمتیں اتنی بلند کہ غریب آدمی جان بچانے والی دوائیں خریدنے سے بھی معذور ہو جائے اور اس کی زندگی ختم ہو جائے۔
بجلی گیس کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے لیے لوگوں کو اپنے گھروں کا سامان بیچنا پڑ جائے۔ اس پہ مستزاد ایک معمولی ماچس سے لے کر روز مرہ استعمال کی بیشتر اشیا پر سیلز ٹیکس اور آئی ایم ایف کی شرائط پر دیگر حوالوں سے ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کی دشواریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر غضب یہ کہ غریب عوام ہی کے ٹیکسوں سے قومی خزانے میں جمع ہونے والی رقم سے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات میں حالیہ اضافہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کو جو سمری ارسال کی گئی ہے۔
اس میں اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی کی تنخواہ و مراعات 5 لاکھ 19 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جو بیورو کریسی کے ایک وفاقی سیکریٹری کی تنخواہ کے مساوی ہے۔ اسی طرح چند ماہ قبل پنجاب کے اراکین صوبائی اسمبلی کی تنخواہ 4 لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ 9 لاکھ 60 ہزار روپے کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے جو ایک مقروض ملک کے غریب عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے جس کی کسی بھی حوالے سے پذیرائی نہیں کی جاسکتی۔ اس پہ مستزاد حکمران طبقے اور سر کاری ملازمین کو مفت بجلی، مفت پٹرول اور ریٹائرمنٹ کے بعد دیگر سہولیات و مراعات بھی قومی خزانے میں جمع عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے فراہم کی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں ہی گزشتہ دنوں جو اس ضمن میں ریکارڈ پیش کیا گیا ہے وہ ہوش ربا ہے جس کے مطابق 2023-24 میں دو لاکھ ملازمین کو 44 کروڑ سے زائد یونٹ سالانہ مفت بجلی دی گئی جب کہ حاضر سروس کو 30 کروڑ سے زائد یونٹ اور ریٹائرڈ ملازمین کو 13 کروڑ یونٹس سے زائد مفت بجلی دی گئی۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی مراعات، سہولیات اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے غریب عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے، انھیں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلانے کے بلند و بانگ دعوے کرکے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور ان کے ووٹ سے اسمبلی میں پہنچنے والی پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے سب ہی اراکین اسمبلی شامل ہیں۔
یہ عوام کے کیسے نمایندے ہیں جو غریب عوام کے ٹیکسوں سے اپنی تنخواہوں و مراعات میں ازخود اضافہ کرکے شاداں و مسرور ہیں لیکن انھیں کروڑوں غریب لوگوں کے چہروں پر مفلسی و بے بسی کی گہری لکیریں نظر نہیں آتیں۔ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے لیکن بجٹ میں ہر سال ان کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں معمولی اضافہ کیا جاتا ہے جو مہنگائی کے اس پُرآشوب دور میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔
حکمران دعوے کرتے ہیں کہ ملک کو کفایت شعاری کے ذریعے ترقی کی منزل پر لے کر جائیں گے، وزیر اعظم شہباز شریف اپنی تقریروں اور بیانات میں بار بار غریب عوام کو جلد خوش حالی کی نوید سناتے رہتے ہیں، قرضوں میں جکڑی معیشت کو آئی ایم ایف کے چنگل سے چھڑانے کے دعوے کرتے ہیں، عوام سے قربانی دینے اور کفایت شعاری اپنانے کے مطالبے کرتے ہیں لیکن یہ کیسی تضاد بیانی ہے کہ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات میں تو لاکھوں روپے اضافہ کر دیا جائے اور عام آدمی کے حصے میں صرف غربت، فاقے، خودکشی اور دربدری کو مقدر بنا دیا جائے۔
اگر حکمران طبقہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت واقعی عوام اور اس ملک کی خیرخواہ اور ہمدرد ہے اور ملک کو قرضوں سے نجات دلانا، معیشت کو مستحکم کرنا اور آئی ایم ایف سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے حکمران طبقہ خود قربانی پیش کرے، وزیر اعظم کو اراکین اسمبلی کی تنخواہوں کی سفارش ہرگز منظور نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا غریب عوام پر ظلم اور ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق ہوگا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔