یہ مائنڈ سیٹ نہیں چل سکتا

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو


لطیف چوہدری February 03, 2025

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ نیا ہے نہ اچانک ہورہا ہے ، باعلم اور بااثر طبقات کی اہم شخصیات کو یقیناً ان’’ ہاتھوں‘‘ کا بھی پتہ ہوگاجنھیں عرف عام میں ’’ خفیہ ہاتھ ‘‘کہا جاتا ہے ۔ یہ ’’ہاتھ‘‘ ہم جیسوں کے لیے تو خفیہ ہوتے ہیں، لیکن خواص کے جانے پہچانے ہوتے ہیں۔ البتہ چند خواص نے دستانے بھی پہنے ہوتے ہیں۔ان کی مہارت کو ہی شاعر نے یوں داد دی ہے،

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

 جو راہ الفت میں قتل ہوئے، انھیں تاریک راہوں کے مسافر کہتے ہیں ۔ میری بات کہیں لکھ لیں کہ ریاستیں ہمیشہ ’’اپنوں‘‘ کی غلط کاریوں کی وجہ سے برباد ہوتی ہیں، باہر کا دشمن اسی وقت حملہ آور ہوتا جب اندر سے اسے اتحادی اور مخبر مل جاتے ہیں۔جرائم کہانی کی پنچ لائن تو یہی بنتی ہے کہ جو کوئی بھی اپنے بہادر اورمخلص بھائی کو قتل کرانے کے لیے دشمن سے مدد لیتا ہے ، آخر میں خود بھی اس کی تلوار کا شکار ہوکر سر کٹی لاش میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

تاریخ ایسے کرداروں اور ان کے انجام سے بھری پڑی ہے ۔ شاید ایسے ہی ’’اپنوں‘‘ کے لیے پاک فوج کے سربراہ نے ’’نام نہاد دوست نما دشمن‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہنے والے کو پتہ ہے اور جسے کہا گیا ہے ، اسے بھی پتہ ہے ۔ آگے جسے دے مولا۔ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو اپنے آپ سے لڑ رہا ہے۔

افریقہ کا تو ہر ملک خود سے برسرپیکار ہے ۔ حال ہی کانگو میں تیتسی قبائل پر مشتمل مسلح ملیشیاء نے اپنے اتحادی کانگولیز دھڑے سے مل کر مارکاٹ شروع کردی ہے ۔ روانڈا کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ تیزی سے ترقی کرنے والا افریقہ کا ملک ہے جب کہ کانگو بھی خوشحال ہورہا ہے لیکن لگتا ہے کہ نخوست و تباہی کے سائے یہاں آکر ٹھہرگئے ہیں، اب یہاں کتنا خون بہے گا، اس کے داغ نجانے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نفرت کا جذبہ آگ ہوتا ہے، اسے جتنی ہوا دی جائے گی، یہ اتنا ہی پھیلتا ہے۔کسی قوم ، زبان، کلچر کو نشانے پر رکھ کر اس پر نفرت کی آگ پھینکیں اور پھونکنی سے ہوا دیتے رہیے، تودیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف ہاہاکار مچ جائے گی۔ پاکستان میں بھی مخصوص مائنڈ سیٹ یہی کام کررہا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل کے علاقے کلاچی میں چند روز قبل جو دہشت گرد مارے گئے تھے، میڈیا کی اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ ان میں ایک دہشت گرد افغانستان کے صوبہ بادغیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد کا بیٹا بدرالدین عرف یوسف بھی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان کے اہم عہدیداروں کے خاندان کے چشم و چراغ بھی پاکستان میں کیسے کیسے گل کھلانے آرہے ہیں۔ اب قلات میں جو کچھ ہوا ہے، اس کے بارے میں بی ایل اے کا نام سامنا آرہا ہے۔

ذرا سوچیں! پاکستان میں جتنے بھی دہشت گرد گروہ ہیں، ان کے پاس تعمیر و ترقی کا کیا ویژن ہے؟خود احتسابی کا فقدان اتنا ہے کہ جس انفراسٹرکچر کو وہ استعمال کرکے قتل و غارت کرتے ہیں، اس کی تعمیر میں ان کا حصہ ایک دمڑی بھی نہیں ہے۔ قومی خزانے کو رہنے دیں، انھوں نے اپنے صوبے، اپنے ضلع حتی کہ اپنی یونین کونسل میں ایک روپیہ ٹیکس جمع نہیں کرایا ہوگا۔ بھلا ایسا مائنڈ سیٹ کوئی ملک چلا سکتا ہے؟ایسا مائنڈ سیٹ تو کسی دفتر میں ہیلپر کاکام بھی نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس کے لیے قانون اور ضوابط پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔

پاکستان کا شمال مغربی بارڈر پون صدی سے زائد عرصے سے’’ نرم سرحد ‘‘ چلا آرہا ہے۔سرد جنگ کے دور میں تو یہ بندوبست یا ریاست کی پالیسی کام کرتی رہی کیونکہ یہی ’’مفادات‘‘ کا تقاضا تھا لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی حالات ہی نہیں بلکہ علاقائی حالات میں بھی بہت بدلاؤ آیا ہے۔

شمال مغربی سرحد کو’’ نرم رکھنا‘‘پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچارہا ہے ۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے چھوڑے ہوا اسلحہ ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹرز آرگنائزیشنز‘ بی ایل اے اور دیگر بلوچستان بیسڈ گروپوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ دہشت گرد گروپ مشترکہ اہداف کو لے کر چل رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں ۔ سرحدی علاقے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کام کررہے ہیں۔ پاک ایران سرحد پر بھی کئی مسائل موجود ہیں۔ پاکستان اور ایران کے پالیسی سازوں کو حقائق کا بخوبی علم ہے۔

افغان طالبان، ٹی ٹی پی ، بی ایل او اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروپ ایک نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کا ایجنڈا پاکستان کی وحدت و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ افواجِ پاکستان اور دیگر سیکیورٹی ادارے ان کے نشانے پر ہیں، روزانہ کی بنیاد پر شہادتیں ہورہی ہیں۔ فوج اور سیکیورٹی اداروں کا کام ہی لڑنا ہے، وہ اپنا یہ کام پوری ایمانداری اور جی جان سے کررہے ہیں لیکن سیاسی قیادت کا اس حوالے سے عزم، موقف اور ویژن ڈھمل اور کمزور نظر آ رہا ہے یا دوسرے لفظوں میں اس میں کمٹمنٹ کی کمی ہے۔

مذہبی قیادت نے دہشت گردی کو امریکا، یورپ اور اہل یہودو صیہونیت سے جوڑ کر اس کی کو ڈائنامکس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے، پاکستان کا شاعر وادیب اور اہل علم طبقہ ایوارڈز ، ادبی اداروں کی ملازمتیں ڈھونڈنے کے لیے درباری کلچر کا اسیر ہو کر نمک کی کان میں نمک ہوگیا ہے۔ رہی سول سوسائٹی، میں اپنے دوستوں سے اکثر کہتا ہوں کہ لاہور میں جو سول سوسائٹی ہے، وہ صرف دو افراد کی تنظیم ہے، کراچی کا کیا حال ، کسی کو پتہ ہوتو ضرور رہنمائی کرے۔

 پاکستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے دہشت گردوں اور انتہاپسندی کے خلاف کبھی رہنما کردار ادا نہیں کیا ہے۔جو سیاسی جماعتیں حکومتوں کا حصہ ہیں، ان کی قیادت بھی صرف روایتی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کررہی ہے۔ مذہبی قیادت تو ہمیشہ خاموش رہتی ہے۔ قلات اور بلوچستان میں ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ہیں، مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں کی قیادت تو منہ دکھانے کے لیے کوئی نہ کوئی مذمتی بیان جاری کردیتی ہے لیکن نام نہاد قوم پرست قیادت کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔

قوم پرستی کے نام پرسیاست کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نفرت کی آگ بھڑکائی جائے ،کسی مذہبی سیاسی جماعت کی قیادت کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے خلاف ایسا موقف اختیار کرے جس سے اگرمگر اور چونکہ چنانچہ کا پہلو نکلتا ہو۔

سیاسی قیادت ہو‘مذہبی قیادت ہو‘قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والی قیادت ہو‘کاروباری طبقہ ہو‘ سرکاری افسر شاہی ہو یا آئینی اداروں کے سربراہان ہو‘ ججز ہوں ، جنرلز ہوں یا عام شہری ،ان پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کی وحدت اور سالمیت کو سب سے پہلے رکھیں‘ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کے مفادات کے تحفظ کی خاطر سیاست کریں، کاروبار کریں اور افسری کریں لیکن اپنے حصہ کا ٹیکس دیں، فرض ادا کریں، تنخواہیں لیں اور منافع کمائیں۔

دہشت گردی اور انتہا پسندی پاکستان اور عوام دونوں کے مفادات کے بالکل خلاف ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طبقہ صرف سہولتیں مانگے ‘اچھا انفراسٹرکچر مانگے ‘عہدے مانگے اور خوشحالی مانگے لیکن جب کچھ دینے کی باری آئے توڈھٹائی سے کہے میرے سوا باقی سارے کرپٹ ہیں۔ میں کسی کو نہیں مانتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں