ترقی کے لیے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے

آج ایک بار پھرہمارا ملک ترقی کی راہ پرگامزن ہوچکا ہے ۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں


mnoorani08@hotmail.com

دنیا میں جتنے ملکوں نے ترقی خوشحالی کی منازل طے کرکے خود کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا ہے وہاں ہم صرف ایک چیز کو لازمی طور پردیکھتے ہیں وہ ہے پالیسیوں کاتسلسل۔جن ممالک میںپالیسیوں کاتسلسل نہیںہوتااورجہاں کوئی ایک حکومت بھی دیر تک قائم و دائم نہیں رہ پاتی وہ آج اس دوڑمیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ہم اپنے ارد گرد ہی دیکھ لیں۔ بھارت جہاں آج تک کسی حکومت کو یہ خطرہ لاحق نہیںرہتا کہ اُسے غیر جمہوری انداز میں تخت سے بیدخل کردیاجائے گا۔

معرض وجود میں آجانے سے اب تک بھارت میں جو بھی حکومت برسراقتدار آئی اُسے دستور و آئین کے مطابق چلنے دیا گیا۔کسی طالع آزما نے اُسے قبل ازقت معزول کرکے سارا ملکی نظام اتھل پتھل نہیں کیا۔چاہے کسی بھی حکمراں پر کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کے خواہ بے شمار الزام لگے ہیں لیکن وہاں معاملہ عوام کے صوابدید پرچھوڑ دیاگیا۔یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی کرکے آج اس مقام پرپہنچ گیا ہے جہاں پہنچنے کی ہم صرف تمنا ہی کرسکتے ہیں۔آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 600ملین ڈالرز سے بھی تجاوز کرچکے ہیںجب کہ ہم صرف 16 ارب ڈالرز کے خزانے کو بمشکل حاصل کرپائے ہیں۔

اُن 16ارب ڈالرز میں بھی ہمارے اپنے تو نصف ہی ہیں باقی مانگے تانگے کے ڈالرز ہیں جنھیں ہم نے اپنی عزت بچانے کی غرض سے دوست ممالک سے مستعار کیا ہوا ہے۔وہ ادھار کے ڈالرز ہم خرچ نہیں کرسکتے ہیں ،بس قومی خزانے کو سہارا دینے اورخود کو تسلی دینے کی غرض سے گزشتہ کئی برسوں سے لے رکھے ہیں اورحالت یہ ہے کہ ہرسال دوست ممالک سے درخواست کرکے انھیںواپس ادا کرنے کی تاریخ میں توسیع کروالیتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیںمعلوم کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ یہاں جو بھی حکومت بظاہر خود کو مستحکم سمجھتی رہی ہے وہ کبھی بھی مستحکم نہیں رہی۔ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والی حکومت بھی کمزور ترین حکومت ثابت ہوتی رہی ہے۔

پڑوس ممالک میں سے ہم بھارت کے علاوہ اگر بنگلہ دیش پر نظر دوڑائیںتو بھی ہم اس کی ترقی میں ہمیں یہی ایک فیکٹر ضرور ملے گا کہ 2009 سے وہاں حسینہ واجد کی حکومت تھی اورجو 2024تک بلاتعطل چلتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلادیش تیزی سے ترقی کرکے ہم سے بہت آگے نکل گیا۔

پندرہ برسوں میں اس ملک نے بلاشبہ بہت ترقی کرلی اورمعاشی طور پرمستحکم ہوگیا۔مالی بدعنوانیوں اورکرپشن کے الزامات اس حکومت پربھی لگائے جاتے رہے مگر وہاں لوگوں نے اسے چلنے دیا۔ یہی چیز ہم برادر اسلامی ملک ترکیہ میں بھی دیکھتے ہیں۔2001 سے وہاں طیب اردگان کسی نہ کسی شکل میں ملک کے سربراہ کی حیثیت میں موجود ہیں اورجن کی پالیسیوں کی وجہ سے وہ ملک آج بے مثال ترقی کرکے اس قابل ہوگیا ہے کہ عالمی طاقتوں کے اثرات اورپریشر سے باہر نکل گیا۔

 اب آئیے ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں جہاں آج تک کسی ایک سویلین حکومت کو پانچ سال سے زائد چلنے نہیں دیا گیا، بلکہ قبل ازوقت ہی معزول کرکے نشان عبرت بنادیا گیا۔ہمارے یہاں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے بعد اگرکسی حکمراں نے ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنائے اوراُن پرعمل پیرا بھی ہوا تو وہ میاں نوازشریف ہی تھا جس نے عارضی بنیادوں پرمنصوبہ سازی نہیں کی بلکہ طویل المعیاد منصوبوں پرکام شروع کیا۔ محدود مالی وسائل کے باوجود اُنھوں نے بڑے بڑے پروجیکٹ متعارف کروائے اورحتی المقدور اُن پرکام بھی کیا۔

ملک میں موٹروے بنانے کا خواب اُنھوں نے اپنے پہلے دور میں دیکھا تھا اوراس کی تعبیر بھی عملی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھی، مگر اُنہیںدو ڈھائی سال میں اسلام آباد سے چلتا کردیاگیا۔ 1997 میں وہ دوبارہ برسراقتدار آئے تواپنے چھوڑے ہوئے اس منصوبے پرپھراُسی جوش وجذبہ کے ساتھ کام شروع کیا۔یہی نہیں بلکہ مئی 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایک ساتھ چھ جوہری دھماکے کرکے دکھائے۔یہ ہماری قوم کے لیے ایک انتہائی اہم فیصلہ کن مرحلہ تھا۔

ذراسی چوک یا غفلت سے ہم یہ موقع کھوسکتے تھے،گرچہ ہماری معاشی حالت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ ہم دنیا کی طرف سے ایسی صورت میں مالی پابندیوں کاسامناکرسکیں، لیکن ہم اگر اس وقت ایسانہ کرتے تو پھرشاید ہی کبھی خود کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی ریاست کادرجہ دلا پاتے۔میاں نوازشریف نے اپنے اقتدار کی پرواہ کیے بغیر یہ اہم فیصلہ کرڈالا ۔ انھیںمعلوم تھا کہ اس کے بعد اُن کا برسراقتدار رہنا ناممکن ہوجائے مگر اُنھوں نے قوم کی خاطریہ قربانی بھی دے ڈالی۔ 1999  میں وہ نہ صرف محروم اقتدار ہوگئے بلکہ پابند سلاسل بھی ہوگئے۔2013 میں جب وہ تیسری بار منتخب وزیراعظم بنے تو ملک کی ترقی کے لیے پھر سے جانفشانی سے کام کرناشروع کردیا۔

کراچی میں کئی سالوں سے جاری بدامنی کا نہ صرف وقتی طور پرخاتمہ کیا بلکہ مستقل طور پریہاں امن وامان بھی قائم کرڈالا۔ ملک بھر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے قوم کو نجات دلادی اورسی پیک جیسے ایک عظیم الشان پروجیکٹ کی شروعات بھی کردی۔ حالانکہ اس دور میں انھیںایک دن بھی چین سے گزار نے کاموقعہ نہیں ملا ۔کبھی لانگ مارچ اورکبھی ڈی چوک پرچار مہینوں پرمشتمل سیاسی دھرنا،کبھی پاناما اسکینڈل تو کبھی عدالتی کارروائیاں۔ اِن سب رکاوٹوں کے باوجود وہ اپنے مشن پرقائم رہے۔مگر پھر انھیں ہٹا دیا گیا۔

 آج ایک بار پھرہمارا ملک ترقی کی راہ پرگامزن ہوچکا ہے ۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں۔ ISFCکے تحت غیرممالک کو یہاں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیاجارہاہے اوربڑی حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل ہورہی ہے۔بلوچستان کی زمین میں چھپے بے شمار معدنی ذخائر جوعرصہ دراز سے ہماری توجہ کے منتظر تھے انھیںہماری توجہ حاصل ہوچکی ہے۔ ریکوڈیک سے معدنیات نکالنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ بلاشبہ یہ اس کی ابتداہے اورفی الحال ہمیں اس کے ثمرات نظر نہیں آئیںگے لیکن انشااللہ آگے چل کے ہمارا ملک اُن ثمرات سے ضرو ر مستفید ہوگا۔

جس غیر ملکی مائننگ کمپنی کو اس کا ٹھیکہ دیاگیا ہے اس نے وہاں اپنا کام شروع کردیاہے۔ 600 سے زائد مقامی افراد کو روزگار بھی مل چکاہے اوربڑے پیمانے پر مائننگ کاکام شروع ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں چھپے معدنی ذخائر ہمارے دشمنوں کے نظروں سے بھی اوجھل نہیںہیں۔ وہ اِن ذخائر پرقبضہ بھی کرناچاہتا ہے۔

اس صوبے میں ہونے والی دہشت گردی اوربدامنی کے پیچھے بھی یہی ارادے اورعزائم کارفرماہیں۔ہمیں اِن خطرات سے بھی ساتھ ساتھ نمٹنا ہے۔دنیا میں کسی بھی ملک میں چھپے قدرت کے خزانے عالمی طاقتوں کی نظروں سے اوجھل ہرگز نہیںہوتے ۔ ہمیں انھیںاِن نظروں سے بچانا بھی ہے اوراپنے ملک کے لیے استعمال بھی کرنا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مشکل مشن ہے اور اس کے لیے حکومت کامستعد ہونا اورپالیسیوں کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔خدا ہمیں اپنے اس مشن میں سرخرو کرے ۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں