بنگلہ دیش: محبت کا زمزم پھر بہنے لگا ہے؟

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے دَور کا آغاز ہونے جارہا ہے


تنویر قیصر شاہد February 03, 2025
tanveer.qaisar@express.com.pk

شنید ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیر اعظم ، جناب اسحاق ڈار، فروری 2025 کے پہلے ہفتے بنگلہ دیش جا رہے ہیں ۔ 7جنوری2025 کو وفاقی سیکرٹری اطلاعات (عنبرین جان) اور اسلام آباد میں متعین بنگلہ دیشی ہائی کمشنر (اقبال حسین خان )کی ملاقات بھی ہو چکی ہے۔

53سال قبل بنگلہ دیش معرضِ عمل میں آیا تھا ۔ تب سے اب تک وقت کے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ پرانے مبینہ زخم بھی تقریباً مندمل ہو چکے ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہُوئی کہ بنگلہ دیش میں زیادہ تر حسینہ واجد اور’’ عوامی لیگ‘‘ کی حکومت رہی ۔ دونوں ہی پاکستان سے عناد رکھتے تھے۔ دونوں ہی نے اسٹریٹجی کے تحت بنگلہ دیشی عوام کو باور کروایا کہ بھارت اُن کا’’ محسن ‘‘اور’’ مخلص دوست‘‘ ہے۔ یوں بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف جذبات کو خوب ہوا دی گئی ۔ اگست2024 کو حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوتے ہی مگر سارا منظر بدل گیا ۔

جس طرح سابق شامی صدر (بشارالاسد) کو رُوس ، ایران اور حزب اللہ کے سہارے اور امدادی بیساکھیاں بچانے میں ناکام رہیں،حسینہ واجد کو بھارت کی پُشت پناہی اور ہرقسم کی امداد بھی بچانہ سکی۔ بشارالاسد شام سے فرار ہو کر رُوس پہنچے اور حسینہ واجد فراری بن کر بھارت پہنچیں ۔

حسینہ واجد کا اقتدار ختم ہوتے ہی عوام نے شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے زمیں بوس کر دیے۔ اب تو نوبت ایں جا رسید کہ نئی بنگلہ دیشی حکومت نے ایک قانون کے تحت بنگلہ دیش کے تعلیمی نصاب سے یہ مسلّط شدہ بات بھی مٹا دی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے بانی تھے ۔ شیخ صاحب مرحوم کی جگہ اب جنرل ضیاء الرحمن (مرحوم) نے لے لی ہے ۔ اِس سلسلے میں 3جنوری2025 کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں ایک خبر اِس سرخی کے ساتھ شائع ہُوئیZia replaces Mujib as Bangladesh founder in revised curriclum۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار صاحب بنگلہ دیش میں قدم رکھنے جارہے ہیں ۔

 حسینہ واجد کے بھارت فرار ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ سونار دیش جہاں پاکستان کا نام لینا بھی دشوار ہو چکا تھا ، اب اُسی بنگلہ دیش میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش منایا جا رہا ہے اور کلامِ اقبال کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے ۔ 25دسمبر2024ء کو خبر آئی کہ  ڈھاکہ ، میں نواب سلیم اللہ خان اکیڈمی کے تحت پریس کلب میں بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے یومِ ولادت کے حوالے سے ایک شاندار سیمینار منعقد کیا گیا۔ بنگالی دانشوروں ، سیاستدانوں ، پروفیسروں ، صحافیوں اور علمائے کرام نے قائد اعظم کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا۔

یہ سب اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی ، سماجی اور تعلیمی حالات بدل چکے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی حالات کے بدلاؤ اور بنگالی قلوب کو بدلنے میں بنگلہ دیشی طلبا و طالبات نے اساسی اور مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ جناب پروفیسر محمد یونس نے بدلے حالات کی حساسیت کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ اب ہمارے وزیر خارجہ ، جناب اسحاق ڈار ، ڈھاکہ پہنچ رہے ہیں تو اُنہیں نہائت حکمت وتدبر سے بنگلہ دیش کی بدلی فضاؤں کو پاکستان کے حق میں مفادات کا پانسہ پلٹنا ہوگا ۔

بھارت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ منظر خصوصاً سوہانِ رُوح بنا ہُوا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے لیے محبت و احترام کے زمزمے کیوں گونجنے لگے ہیں۔ پاکستان و بنگلہ دیش کے درمیان تعاون اور اخوت کی نئی اور گرمجوش لہریں کیوں اُٹھ رہی ہیں۔

جونہی بنگلہ دیش اپنے مفاد میں بھارت کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتا ہے ، بھارت سمجھنے لگتا ہے کہ پروفیسر محمد یونس نے یہ اقدام پاکستان کی ایما پر کیا ہے ۔مثلاً:6جنوری2025 کو بھارتی میڈیا نے یہ خبر نشر کی :’’ بنگلہ دیش نے اپنے 50ججوں اور اعلیٰ عدالتی افسروں کو بھارت میں دیے جانے والے ٹریننگ پروگرام میں شرکت کرنے سے روک دیا ۔ اِس ٹریننگ کے جملہ اخراجات بھارت نے ادا کرنے تھے ۔ بنگلہ دیشی ججوں کی ٹریننگ کا معاہدہ حسینہ واجد حکومت نے کیا تھا ۔ پروفیسر محمد یونس کی عبوری حکومت میں مگر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے کے تحت اِن ججوں کو بھارت جانے سے روک دیا ہے ۔‘‘

بھارتی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا نے بنگلہ دیشی عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے خلاف بڑا شور مچایا ہے اور بین السطور اِس کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی بھی ناکام کوشش کی ہے ۔ مجھے کئی بھارتی سوشل میڈیا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہُوا ہے ۔ اِن میں ولاگ کرنے اور اِن کے شرکت کنندگان نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بڑھتے بھائی چارے اور تعاون کے خلاف ہفوات بکنے تک کا ارتکاب کیا ہے۔ اور جب سے یہ خبر آئی ہے کہ مبینہ طور پر بنگلہ دیش کی پولیس اور فوج کی ٹریننگ بھی اب پاکستانی ہی کریں گے، بھارت کے تن بدن میں آگ لگ گئی ہے۔

اور جب جنوری2025 کے دوسرے ہفتے بنگلہ دیش آرمی کے سینئر فوجی افسران (جن کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم کریم الحسن کررہے تھے) نے پاکستان آرمی کے سربراہ ، جنرل عاصم منیر، سے ملاقات کی تو یہ ملاقات بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہو رہی ۔ پاکستان اور ہم پاکستانیوں کو مگر بھارتی سوچ کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے خاموشی اور محبت سے بنگلہ دیشی بھائیوں سے پیار کی پینگیں بڑھانی چاہئیں ۔ اِسی ماحول میں ہمارے وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیر اعظم ، جناب اسحاق ڈار، ڈھاکہ پہنچ رہے ہیں ۔اُنہیں ڈھاکہ میں ہر قدم احتیاط سے اُٹھاناہوگا ۔ خصوصاً بنگلہ دیشی میڈیا سے بات چیت کرتے وقت کہ عین ممکن ہے کہ بنگلہ دیشی میڈیا میں اب بھی بھارت کے خیر خواہ موجود ہوں ۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے دَور کا آغاز ہونے جارہا ہے ۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی بنگلہ دیش نے پاکستان سے اعلیٰ کوالٹی کی 25ہزار ٹن چینی خریدی ہے ۔

اِس سے پہلے بنگلہ دیش ،بھارت سے چینی خریدتا رہا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ، محترم پروفیسر محمد یونس، نے جب سے ’’چیف ایڈوائزر‘‘ کی حیثیت میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا اقتدار سنبھالا ہے ، بنگلہ دیش کی فضاؤں میں پاکستان کے حق میں محبت کے زمزم پھر سے بہنے لگے ہیں ۔

اِس سلسلے میں سب سے قابلِ ذکر اور شاندار وہ ملاقات تھی جب دسمبر2024 کے آخری ہفتے مصر کے دارالحکومت ، قاہرہ، میں ڈی ایٹ کے تحت ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان محمدشہباز شریف اور پروفیسر محمد یونس صاحب محبت و مسرت سے باہم بغلگیر ہُوئے تھے۔ اِس تاریخ ساز ملاقات نے پاک، بنگلہ دیش تعلقات کے نئے دروازے کھولے ہیں ۔ اور ہاں،یکم فروری 2025 کو پشاور میں بنگلہ دیشی ہائی کمشنر، جناب اقبال حسین ، نے پریس کانفرنس کرتے ہُوئے یہ نوید بھی سنائی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان (54 سال بعد) براہِ راست پروازیں شروع ہونے والی ہیں۔یہ اقدام ، انشاء اللہ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں تعاون اور محبتوں کا نیا سنگِ میل ثابت ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں