
حال ہی میں شائع ہونے والی ’’اسٹیٹ آف دی پاکستان اکانومی رپورٹ 2025 ‘‘ میں حکومتی پالیسیوں کی تعریف کرتے ہوئے معاشی گروتھ کے سفر میں ترقی ظاہر کی گئی ہے، لیکن تنقیدی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس رپورٹ میں بہت سے اہم عوامل کو نظر انداز کردیا گیا ہے.
معاشی استحکام زیادہ تر عارضی بندوبست جیسا کہ آئی ایم ایف کی سپورٹ، ترسیلات زر، اور انتظامی پرائس کنٹرول اقدامات کا مرہون منت ہے.
رپورٹ میں صنعتی نمو میں جمود، قرضوں کی غیرپائیدار سطح اور اسٹرکچرل تجارتی عدم توازن پر بھی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے، حکومت کا شارٹ ٹرم فوائد پر زور ہے.
رپورٹ میں زرعی شعبے میں 1.15 گروتھ کو سازگار پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے، تاہم یہ گروتھ گزشتہ سال کی گروتھ سے کم ہے، گزشتہ سال زرعی گروتھ 8.09 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے.
حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلیے ابھی تک کوئی طویل المدتی منصوبہ نہیں بنایا ہے، جو زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کر رہا ہے.
رپورٹ میں مہنگائی میں نمایاں کمی کا جشن منایا گیا ہے، اس کمی کی وجہ بنیادی طور پر عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں کمی، مستحکم ایکسچینج ریٹ، اور پالیسی اقدامات ہیں، تاہم بنیادی افراط زر ابھی بھی 9.5 فیصد کی بلند سطح پر برقرار ہے.
انتظامی پرائس کنٹرول ایک عارضی انتظام ہے، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس معاشی مسابقت کی بجائے ترسیلات زر پر منحصر ہے، روپے کی قدر میں 1.9 فیصد اضافہ ہوا، اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 16.4 بلین ڈالر ہو گئے، جو صرف دو ماہ کی درآمدات پر محیط ہے.
اگرچہ یہ ایک بہتری ہے، لیکن یہ اب بھی چھ ماہ کی کوریج کے پائیدار بینچ مارک سے بہت دور ہے، بیرونی قرضوں کی جاری ذمہ داریوں اور آئی ایم ایف کی ادائیگیوں پر انحصار کے پیش نظر روپے کا استحکام مشکوک ہے.
ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن میں 25.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ بنیادی طور پر انڈائریکٹ ٹیکسز کی وجہ سے ہے، جس کا خمیازہ غریب طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے، حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سے قاصر رہی ہے، جو سوالیہ نشان ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔