اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ

پاکستان میں دہشتگردی کی صورتحال کوسامنے رکھا جائے توحکومت کا اسلام آباد میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ حیران کن نہیں ہے


Editorial July 27, 2014
پاکستان میں دہشت گردی کی صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو حکومت کا اسلام آباد میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ حیران کن نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد کی سکیورٹی فوج کے حوالے کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل245 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ ملک کو درپیش سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اسلام آباد کی سکیورٹی یکم اگست سے فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ناکوں اور اہم مقامات پر فوج تعینات کی جائے گی۔ نوٹیفکیشن کا اطلاق3ماہ تک جاری رکھا جاسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت مسلح افواج کی خدمات ملک کو درپیش کسی بیرونی یا اندرونی خطرے کے موقع پر سول انتظامیہ کے لیے حاصل کی جا سکتی ہیں اور اس حکم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل (3) 245 کے تحت جس علاقے میں فوج بلائی جاتی ہے وہاں ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا کہ غیرمعمولی سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر اسلام آباد میں یکم اگست سے3 ماہ کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے وزارت داخلہ نے وزارت دفاع کو ریکوزیشن بھجوا دی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے ملک بھر میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ کیا گیا ہے اور صوبائی حکومتوں کو خصوصی طور پر ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو تیار رکھیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو حکومت کا اسلام آباد میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ حیران کن نہیں ہے۔ اس وقت پاک فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن میں مصروف ہے۔ شمالی وزیرستان سے لاکھوں آئی ڈی پیز خیبرپختونخوا میں پناہ گزین ہیں۔

یہاں سے وہ پورے ملک میں پھیل رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی بہت سے لوگوں کی آمد ہو رہی ہے۔ یہ بھی شبہ کیا جا رہا ہے کہ بہت سے دہشت گرد بھی آئی ڈی پیز کے روپ میں شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر ملک کے دیگر علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اسلام آباد کی سکیورٹی کو غیرمعمولی طور پر فول پروف بنانا انتہائی ضروری ہے۔ ادھر اگست کے مہینے میں 14 اگست کو یوم آزادی بھی منایا جاتا ہے۔ حکومت نے اس دن اسلام آباد میں ہی 14 اگست کی تقریب منعقد کرنی ہے جس میں ملک کی ٹاپ قیادت نے شریک ہونا ہے۔

اس حوالے کو بھی سامنے رکھا جائے تو اسلام آباد میں سکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہونے چاہئیں۔ بعض حلقے حکومت کے اس فیصلے کو تحریک انصاف کے 14 اگست کے روز ہونے والے احتجاجی مارچ سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ حکومت تحریک انصاف کی طرف سے یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد تک لانگ مارچ کے اعلان سے خوفزدہ ہو گئی ہے اور اس نے وفاقی دارالحکومت کو فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی مؤقف یہ ہے کہ تحریک انصاف نے آزادی مارچ کے لیے اسلام آباد انتظامیہ کو کوئی درخواست نہیں دی ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے ابھی تک تحریک انصاف کے دھرنے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی۔

ادھر وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے نہیں کیا جارہا بلکہ فوج کو پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے محدود وقت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں لانگ مارچ وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کے کسی بھی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے فوج کو پولیس اور سول انتظامیہ کی معاونت کے لیے ایک محدود وقت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی جہاں جہاں فوج کی ضرورت ہوئی وہاں بھی یہ طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کو ملک کی سکیورٹی صورت حال کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے معاملات طے کرنے چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو لانگ مارچ کرنے یا جلسہ منعقد کرنے کا آئینی جمہوری حق ہے۔ ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔

جلسے جلوس جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں۔ جمہوری حکومتیں ان جلسوں سے گھبراتی نہیں ہیں بلکہ انھیں سہولت فراہم کرتی ہیں تاکہ جلسہ یا دھرنا پرامن انداز میں اختتام پذیر ہو جائے۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو بھی یہ حقیقت ضرور مدنظر رکھنی چاہیے کہ اس وقت ملک کی سکیورٹی صورت حال غیرمعمولی احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ حکومت نے شاید اسی غیرمعمولی احتیاط کے تحت اسلام آباد میں فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اپوزیشن نے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ فوج طلب کرنے کا مطلب سول انتظامیہ کی ناکامی ہے۔

اپوزیشن کا مؤقف اپنی جگہ درست نظر آتا ہے کیونکہ جمہوری حکومتیں امن و امان کے معاملات کو سول ایجنسیوں کے ذریعے ہی ہینڈل کرتی ہیں۔ بہرحال اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے حوالے سے غیرمعمولی حالات کا شکار ہے۔ ان حالات میں بہت سے غیرمعمولی اقدامات بھی ہو جاتے ہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ حکومت جو بھی فیصلہ کرے وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔