مغرب کا ایک اور جنگی جواز پہلا حصہ
اس سازشی نظریے کو بورژوا نے فلسفیانہ تصورات اور نفسیاتی تجزیات کے ذریعے ہر سطح پر اس طرح مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔
جدید عہد کے مغربی معاشروں کی ترقی میں تعقلی فلسفوں کا اہم اور مرکزی کردار ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب والے اپنے ہر عمل کو کسی سوچ یا نظریے کی بنیاد پر قائم بھی کرتے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرتے ہیں اور پھر اس عمل کے نتیجے میں سامنے آنے والے اچھے یا برے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے سماج اور اعمال کو تھیورائز کرکے نئے خیالات و نظریات سامنے لاتے ہیں، یعنی عمل اور خیال کی باہم کشمکش کے عمل کو تھیورائز کرکے اس کے تمام اچھے برے پہلوؤں کو متن کی صورت کتابوں میں استحکام بخشتے ہیں اور مزید بہتری کے لیے نئے نظریات و تصورات کی تشکیل بھی متن ہی کی ساخت میں سامنے لاتے ہیں اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی نئی سماجی، معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو ترتیب دیا جاتا ہے۔
لہٰذا جدیدیت سے مراد وہ عہد ہے جس میں تعقلی فلسفوں کی روشنی میں سماج کی ازسرنو تشکیل کی گئی اور مابعد جدیدیت؛ یعنی جدیدیت کے بعد کے عہد میں تعقلی فلسفوں کو رد کیا گیا اور انسان جو عقل کی بنیاد پر انسانی حیات و کائنات کا مرکز تھا اس کی مرکزی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جانے لگی کہ عقل انسانی حیات کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، کیونکہ انسانی عقل کے مساوی غیر عقلیت بھی سماج میں سرگرم عمل ہوتی ہے، یہ غیر عقلیت لاشعور ہے جس کو عقل جاننے سے قاصر رہتی ہے یا اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ سکتی جس کے نتیجے میں سماج میں انتشار جنم لیتا ہے یا جنگیں برپا ہوتی ہیں۔
اس سازشی نظریے کو بورژوا نے فلسفیانہ تصورات اور نفسیاتی تجزیات کے ذریعے ہر سطح پر اس طرح مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تیسری دنیا جس کو عقل کی بنیاد پر ابھی ترقی کے بہت سے بنیادی مراحل طے کرنے تھے اس نے بنا کسی تنقیدی سوچ اور جائزے کے مغرب اور بورژوا فلسفوں کو کافی سمجھتے ہوئے عقل کو ناکام کہنا شروع کردیا۔ اس نظریے کو عام کرنے میں تیسری دنیا کے ان دانشوروںاور شارحین کا بنیادی کردار ہے جنھوں نے بورژوا کی چالوں کو سمجھنے کے بجائے بنا کسی تنقیدی جائزے کے ان ہی کی تیار کردہ، عقل کے خلاف سازشی نظری آئیڈیالوجی کو قبول کرتے ہوئے اپنی تحاریر میں اصرار کرنا شروع کردیا کہ عقل ناکام ہوگئی ہے کیونکہ جتنی بھی تباہی ہے وہ غیر عقل کا نتیجہ ہے لہٰذا عقل غیر عقل کو نہیں جان سکتی اس لیے اس کے تحت ہونے والی تباہی کو بھی نہیں روک سکتی۔
اسی سلسلے میں کلاسیکل سماجی سائنسدان درھم، ویبر، تونیس اور سائمل نے روایت سے جدید سماج کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ کیا سماجی ادارے جو کسی نہ کسی قانون اور معاہدوں کی بنیاد پر قائم ہیں کسی معاشرے کے استحکام میں وہی کردار ادا کر سکے ہیں جو مذہب، رسم و رواج اور رویات کا تھا؟ یہ سوال بیسویں صدی میں اور عہد حاضر میں گلوبلائزیشن اور انفرادیت کے استحکام کے بعد اور بھی اہم ہوگیا ہے کیونکہ اس میں مستحکم سماجی حدیں کمزور اور منتشر ہوئی ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں نفسیاتی تجزیا تی تھیوریاں اس بحث کا حصہ بننا شروع ہوئی جن کی بنیاد میں فرائیڈ کے نظریات کا اہم کردار ہے۔
خصوصاً پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی متشدد سیاسی زندگی جس میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور پھر اس کے بعد کہا جانے لگا کہ عقل انسانی مسائل حل کرنے میں اور اس تشدد کی وجوہات جاننے میں ناکام ہوچکی ہے کیونکہ بربریت غیر عقل کی سرگرمی ہے جس کا سماج سے تعلق سمجھنا مشکل ہے۔
اس لیے نفسیاتی تجزیاتی تصورات سماجی ربط اور بے ربطگی کو سمجھنے میں اور اس کی وجوہات جاننے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں، خاص طور پر ان لمحوں یا واقعات کو جن میں سماجی ربط کے ضابطے ربط کو قائم رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور انتشار جنم لیتا ہے۔ جی نفسیات داں کے اس دعوی کی سچائی جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں نفسیاتی تجزیاتی تھیوریوں کی بنیادی تعریف معلوم ہو تا کہ ہمیں اس کی روشنی میں سماج میں رونما ہونے والے انجانے اور غیر متوقع واقعات کی اصل وجوہات کی تہ تک پہنچنے میں آسانی ہوسکے کہ کیا واقعی یہ غیر عقل کی سرگرمیاں ہیں؟
نفسیاتی تھیوریوں کا لاشعور کا نظریہ مختلف تصورات پر مبنی ہے۔ نفسیاتی تجزیہ کا جب ذکر آئے تو سگمنڈ فرائیڈ کا نام لازمی سامنے آتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ نے 1905 میں 'سہ چہرہ ذات' کے نمونے کی تشکیل کی جس کی بنیاد میں ایک حصہ اِڈ یعنی ID پر مشتمل ہے جس کو لاشعور((un conscious کہتے ہیں یا سماجی نفسیات داں کے الفاظ میں site یعنی ان چاہی خواہشوں کا جہاں، دوسرا حصہ Ego یا rational self پر مشتمل ہوتا ہے جسے عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے جو حقائق کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تیسرا حصہ supper Ego پر مبنی ہے جسے conscious یا شعور کہتے ہیں۔ سپر ایگو کا کام انسان کو سماجی اخلاقیات، رسم و رواج اور مفروضات کے مطابق اچھے اور برے کی فہم فراہم کرنا ہوتا ہے۔
فرائیڈ کا یقین ہے کہ ہر انسان بدہی طور پر اپنے اندر متشدد عناصر لے کر پیدا ہوتا ہے جسے وہ Libidinal کا نام دیتا ہے، اس کا خیال ہے کہ اگر ایک انسان کی پرورش مثبت ماحول میں ہوتو اس کی ذات میں موجود متشدد عنصر کسی تخلیقی و فنی یا سائنسی صلاحیت میں ڈھل جاتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق لاشعور انسانی دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ا نسان کی وہ ان چاہی خواہشات، سوچیں، احساسات اور جذبات اور یادیں ہوتی ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ادھوری ہوتی ہیں اور جن کو دماغ شعوری حصے لاشعور میں چھپا کر رکھتا ہے، مگر لاشعور کی یہ سوچیں، احساسات اور جذبات مسلسل انسانی رویوں اور کردار پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
یہ ایسے جذبے اور خواہشیں ہوتی ہیں جن کو سماجی مفروضوں کے تحت زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا اسی لیے ایک بچے کی پرورش کے درمیان جب اسے قدم قدم پر کوئی بھی کام کرنے سے روک کر اچھا یا برا بتایا جاتا ہے تو ایک بچہ ماں باپ اور سماج کے بتائے ہوئے اچھائی اور برائی کے پیمانوں کے مطابق مجبوراً خود کو ڈھالتا چلا جا تا ہے۔ اچھائی پر مبنی عمل کرنے کے ساتھ ساتھ جوخواہشیں مروجہ رسم و رواج یا سماجی مفروضات کے تحت برائی میں شمار ہوتی ہیں وہ بھی لاشعور میں اسی طرح پوشیدہ اور پختہ ہوتی جاتی ہیں، جیسے اچھی عادات شعور کا حصہ بنتی جاتی ہیں۔ لاشعور میں پوشیدہ جذبے اورخواہشیں انسانی رویوں میں ایک خوف اور بے چینی کی ساخت میں ڈھل جاتی ہیں جو اپنا اظہار کسی نہ کسی منفی سرگرمی کی صورت کرتی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسی خواہشوں کا عملی اظہار منفی سرگرمی کے طور پر شناخت ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک معاشرے کے مروجہ رسم و رواج سے مختلف مظہر ہوتا ہے۔ لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات بے چینی اور خوف کے احساسات پیدا کر تی ہیں، ان احساسات کے تحت ہونے والی سرگرمیاں لاشعوری سمجھی جاتی ہیں جو سماجی ربط پر اپنے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور سماج کی بے ربطگی کا باعث بنتی ہیں کیونکہ ایک ایسا فرد جو اس بے چینی، خوف یا انگزائیٹی کا شکار ہو، وہ اگر کسی اہم گروہ، تنظیم یا ریاست کے کسی اہم عہدے پر فائز ہو جس کے تحت اس کے پاس فیصلہ کرنے کے وسیع اختیارات ہوں تو وہ ان فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے میں بش کے کردار کو دیکھا جائے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ بش پیدائشی نفسیاتی مرض میں مبتلا تھا؟
(جاری ہے)