عیدی اور عطیات
اب پڑوس کی تعریف پہ غور کیا جائے تو بڑی اہم اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے۔
صدقات، خیرات اور امداد کے لیے رقوم مستحق افراد تک پہنچانا ایک چھوٹا مگر اہم ترین مسئلہ ہے۔ رمضان المبارک میں یہ مسئلہ بعض لوگوں کے لیے واقعی مسئلہ اور بعض کے لیے کمائی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
میں اپنے ایک واقف کار کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر اس سے قبل کہ میں ان کی مدد کرتا ایک سیاسی تنظیم کے کارکن میرے پاس آگئے اور طرح طرح کے دلائل دے کر سمجھانے لگے کہ وہ جس تنظیم کے پلیٹ فارم سے عوامی خدمت کا کام کر رہے ہیں وہ واقعی لوگوں کی حقیقی خدمت کرتی ہے اور مستحقین تک ایک ایک پائی پہنچاتی ہے۔
میں نے ہمت کرکے ان سے کہا کہ جناب گستاخی معاف! جس طرح آپ محنت کرکے مستحق افراد تک امداد پہنچاتے ہیں میں بھی ویسے ہی کرتا ہوں اور اس بار میں جس شخص کی مدد کرنے جا رہا ہوں وہ واقعی اس کا مستحق ہے لیکن وہ اس قدر خوددار بھی ہے کہ کسی کو اپنا حال بیان نہیں کرتا نہ ہی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ اگر میں اس کی مدد نہ کروں تو کہیں اور سے بھی اس کی مدد ممکن نہ ہوگی، جب کہ کوئی بھی تنظیم جس کو میں اپنے عطیات دوں گا وہ میرے عطیات پہلے گلی محلے کی سطح پرجمع کرے گی۔
پھر اپنے ادارے تک پہنچائے گی پھر ادارے کے مین مرکز میں عطیات جمع ہوں گے اور پھر اس طرح نیچے کی جانب اس کی ترسیل ہوگی اور اس کے حصول کے لیے مستحقین کو ان تنظیموں سے رابطہ کرنے کے لیے کئی چکر لگانا پڑیں گے، پھر میری دی گئی امداد کسی مستحق فرد تک پہنچے گی جب کہ اس عمل کے دوران ایک جانب تو خاصا وقت درکار ہوگا دوسری جانب اس سارے عمل کے اخراجات مثلاً دفتر، دفتر کے بجلی وغیرہ کے اخراجات، گاڑی، پٹرول اور تقسیم کاروں کی تنخواہوں وغیرہ پر بھی کثیر رقم خرچ ہوگی جوکہ ظاہر ہے کہ امدادی رقم سے ہی خرچ ہوگی۔ چنانچہ میں اگر اپنے واقف کار کو براہ راست امدادی رقم دیتا ہوں تو اس کو رقم نہ صرف فوری اور پوری کی پوری مل جائے گی بلکہ اس کو اس کے حصول کے لیے چکر بھی نہیں لگانے پڑیں گے، نہ ہی اس کی عزت نفس مجروح ہوگی۔
میری اس دلیل کو سن کر یہ عوامی خدمت کرنے والے کارکن قائل ہوگئے۔ مجھ سے عطیہ کے لیے اصرار کرنے کے بجائے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلے گئے۔ بات تھی بھی سیدھی کہ جب اصل مقصد مستحقین کی مدد کرنا ٹھہرا ہے تو پھر یہ مدد براہ راست ہی کیوں نہ کی جائے؟ اور جب امداد یا عطیات کی بات اسلام کے حوالے سے ہو تو یہ بات پھر ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام کی تعلیمات میں پڑوسیوں کے حقوق اہم ترین ہیں اور یہ جاننا بھی ہم پر فرض ہے کہ پڑوس میں کوئی شخص بھوکا تو نہیں ہے؟
اب پڑوس کی تعریف پہ غور کیا جائے تو بڑی اہم اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے۔ ہمارے ایک عالم دین نے ہمیں بتایا کہ پڑوس سے مراد آپ کے گھر کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے 40 گھر ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کتنے گھروں کے بارے میں جانتے ہیں کہ آج ان کے گھر میں کھانا پکا ہے یا نہیں؟
ذرا سوچیے! یہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ ایک شخص جو ضرورت مند اور مستحق بھی ہے آپ کی امداد کا مگر آپ اس کے قریب ہوتے ہوئے بھی نہیں جانتے بلکہ صدقات، زکوٰۃ و دیگر عطیات اپنی آسانی اور تعلقات کی بنا پر مختلف تنظیموں کو دے دیتے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ کسی فلاحی ادارے کو عطیات دینا غلط ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایک قریب کے مستحق شخص سے آپ بالکل بے خبر ہیں اور انسانی ہمدردی میں کسی اور کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ اسلامی نقطہ نظر سے پہلے پڑوس کی خبر گیری کے بارے میں سوال ہوگا۔ یہ بہت قابل غور بات ہے۔اول خویش بعد درویش بہت پرانا مقولہ ہے مگر سچا اور زمینی حقائق سے جڑا ہوا۔
اس تناظر میں یہ دیکھیے کہ ہمارے ہاں جو اجرت کسی مزدور یا دفتر وغیرہ میں کام کرنے والے کو دی جاتی ہے وہ کس قدر ہوتی ہے، کیا اس میں روز مرہ کا گزارا ہوسکتا ہے؟ خصوصاً کسی ایسے فرد کا جس کے تین چار بچے بھی ہوں۔ اگر اتنی کم اجرت ہے کہ ایک عام فرد اپنے خاندان کا مشکل ہی گزارا کر پاتا ہو تو پھرغورکیجیے کہ عید جیسے خوشی کے تہوار پر اس کی مالی پریشانی کا کیا حال ہوگا کہ جب بیوی بچے اس سے نئے کپڑوں اور جوتوں کا سوال کرتے ہوں گے، کیونکہ محلے کے دیگر لوگوں کو دیکھ کر ہر گھر میں بیوی بچے نئے جوڑوں اور جوتوں کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ کیا بحیثیت آجر مجھ پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ خوشی اور اخراجات کے اس موقعے پر میں اپنے ادارے (خواہ وہ چھوٹی سی دکان ہی کیوں نہ ہو) میں کام کرنے والوں کو ایک یا آدھی تنخواہ اپنی خوشی سے ''عیدی'' کے نام پر دے دوں تاکہ غریب ملازم کے بچے بھی عید پر نئے کپڑے پہن کر احساس کمتری کے دائرے سے باہر نکل آئیں۔
راقم نے اپنے گزشتہ سال کے عید کے موقعے پر لکھے گئے کالم میں بھی ان تمام لوگوں سے اپیل کی تھی کہ جن کے ہاں دو چار یا سیکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں ملازم کام کرتے ہوں انھیں اپنے کاروباری منافعے میں سے عید کے موقعے پر کم ازکم ایک یا آدھی تنخواہ اپنی خوشی سے بطور ''عیدی'' دیں۔ مہنگائی کے اس دور میں یہ بہت اہم بات ہے، بحیثیت مسلمان اگر ہم آخری پارے کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کا ترجمہ وتفسیر پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ غریبوں اور مستحقین کی مدد فرض ہے صرف زکوٰۃ وخیرات وغیرہ نہیں۔
چینلز پر آکر صاحب حیثیت لاکھوں روپے کے عطیات کا اعلان کردیتے ہیں، اگر وہ اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کو ''عیدی'' کے نام پر ہی کچھ فراہم کردیں تو یہ عمل ملازمین کی عزت نفس کو بھی بحال رکھتا ہے۔ یہ کہنے کو چھوٹی سی بات ہے مگر ہمارے معاشرے کی اس وقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔ آئیے! غور کریں اور اپنے گھر کے ملازم سے لے کر فیکٹری میں کام کرنے والے ملازموں تک سب کے لیے خوشی کے اس موقعے پر سوچیں اور عملاً کچھ مدد کریں۔
میں اپنے ایک واقف کار کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر اس سے قبل کہ میں ان کی مدد کرتا ایک سیاسی تنظیم کے کارکن میرے پاس آگئے اور طرح طرح کے دلائل دے کر سمجھانے لگے کہ وہ جس تنظیم کے پلیٹ فارم سے عوامی خدمت کا کام کر رہے ہیں وہ واقعی لوگوں کی حقیقی خدمت کرتی ہے اور مستحقین تک ایک ایک پائی پہنچاتی ہے۔
میں نے ہمت کرکے ان سے کہا کہ جناب گستاخی معاف! جس طرح آپ محنت کرکے مستحق افراد تک امداد پہنچاتے ہیں میں بھی ویسے ہی کرتا ہوں اور اس بار میں جس شخص کی مدد کرنے جا رہا ہوں وہ واقعی اس کا مستحق ہے لیکن وہ اس قدر خوددار بھی ہے کہ کسی کو اپنا حال بیان نہیں کرتا نہ ہی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ اگر میں اس کی مدد نہ کروں تو کہیں اور سے بھی اس کی مدد ممکن نہ ہوگی، جب کہ کوئی بھی تنظیم جس کو میں اپنے عطیات دوں گا وہ میرے عطیات پہلے گلی محلے کی سطح پرجمع کرے گی۔
پھر اپنے ادارے تک پہنچائے گی پھر ادارے کے مین مرکز میں عطیات جمع ہوں گے اور پھر اس طرح نیچے کی جانب اس کی ترسیل ہوگی اور اس کے حصول کے لیے مستحقین کو ان تنظیموں سے رابطہ کرنے کے لیے کئی چکر لگانا پڑیں گے، پھر میری دی گئی امداد کسی مستحق فرد تک پہنچے گی جب کہ اس عمل کے دوران ایک جانب تو خاصا وقت درکار ہوگا دوسری جانب اس سارے عمل کے اخراجات مثلاً دفتر، دفتر کے بجلی وغیرہ کے اخراجات، گاڑی، پٹرول اور تقسیم کاروں کی تنخواہوں وغیرہ پر بھی کثیر رقم خرچ ہوگی جوکہ ظاہر ہے کہ امدادی رقم سے ہی خرچ ہوگی۔ چنانچہ میں اگر اپنے واقف کار کو براہ راست امدادی رقم دیتا ہوں تو اس کو رقم نہ صرف فوری اور پوری کی پوری مل جائے گی بلکہ اس کو اس کے حصول کے لیے چکر بھی نہیں لگانے پڑیں گے، نہ ہی اس کی عزت نفس مجروح ہوگی۔
میری اس دلیل کو سن کر یہ عوامی خدمت کرنے والے کارکن قائل ہوگئے۔ مجھ سے عطیہ کے لیے اصرار کرنے کے بجائے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلے گئے۔ بات تھی بھی سیدھی کہ جب اصل مقصد مستحقین کی مدد کرنا ٹھہرا ہے تو پھر یہ مدد براہ راست ہی کیوں نہ کی جائے؟ اور جب امداد یا عطیات کی بات اسلام کے حوالے سے ہو تو یہ بات پھر ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام کی تعلیمات میں پڑوسیوں کے حقوق اہم ترین ہیں اور یہ جاننا بھی ہم پر فرض ہے کہ پڑوس میں کوئی شخص بھوکا تو نہیں ہے؟
اب پڑوس کی تعریف پہ غور کیا جائے تو بڑی اہم اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے۔ ہمارے ایک عالم دین نے ہمیں بتایا کہ پڑوس سے مراد آپ کے گھر کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے 40 گھر ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کتنے گھروں کے بارے میں جانتے ہیں کہ آج ان کے گھر میں کھانا پکا ہے یا نہیں؟
ذرا سوچیے! یہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ ایک شخص جو ضرورت مند اور مستحق بھی ہے آپ کی امداد کا مگر آپ اس کے قریب ہوتے ہوئے بھی نہیں جانتے بلکہ صدقات، زکوٰۃ و دیگر عطیات اپنی آسانی اور تعلقات کی بنا پر مختلف تنظیموں کو دے دیتے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ کسی فلاحی ادارے کو عطیات دینا غلط ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایک قریب کے مستحق شخص سے آپ بالکل بے خبر ہیں اور انسانی ہمدردی میں کسی اور کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ اسلامی نقطہ نظر سے پہلے پڑوس کی خبر گیری کے بارے میں سوال ہوگا۔ یہ بہت قابل غور بات ہے۔اول خویش بعد درویش بہت پرانا مقولہ ہے مگر سچا اور زمینی حقائق سے جڑا ہوا۔
اس تناظر میں یہ دیکھیے کہ ہمارے ہاں جو اجرت کسی مزدور یا دفتر وغیرہ میں کام کرنے والے کو دی جاتی ہے وہ کس قدر ہوتی ہے، کیا اس میں روز مرہ کا گزارا ہوسکتا ہے؟ خصوصاً کسی ایسے فرد کا جس کے تین چار بچے بھی ہوں۔ اگر اتنی کم اجرت ہے کہ ایک عام فرد اپنے خاندان کا مشکل ہی گزارا کر پاتا ہو تو پھرغورکیجیے کہ عید جیسے خوشی کے تہوار پر اس کی مالی پریشانی کا کیا حال ہوگا کہ جب بیوی بچے اس سے نئے کپڑوں اور جوتوں کا سوال کرتے ہوں گے، کیونکہ محلے کے دیگر لوگوں کو دیکھ کر ہر گھر میں بیوی بچے نئے جوڑوں اور جوتوں کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ کیا بحیثیت آجر مجھ پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ خوشی اور اخراجات کے اس موقعے پر میں اپنے ادارے (خواہ وہ چھوٹی سی دکان ہی کیوں نہ ہو) میں کام کرنے والوں کو ایک یا آدھی تنخواہ اپنی خوشی سے ''عیدی'' کے نام پر دے دوں تاکہ غریب ملازم کے بچے بھی عید پر نئے کپڑے پہن کر احساس کمتری کے دائرے سے باہر نکل آئیں۔
راقم نے اپنے گزشتہ سال کے عید کے موقعے پر لکھے گئے کالم میں بھی ان تمام لوگوں سے اپیل کی تھی کہ جن کے ہاں دو چار یا سیکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں ملازم کام کرتے ہوں انھیں اپنے کاروباری منافعے میں سے عید کے موقعے پر کم ازکم ایک یا آدھی تنخواہ اپنی خوشی سے بطور ''عیدی'' دیں۔ مہنگائی کے اس دور میں یہ بہت اہم بات ہے، بحیثیت مسلمان اگر ہم آخری پارے کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کا ترجمہ وتفسیر پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ غریبوں اور مستحقین کی مدد فرض ہے صرف زکوٰۃ وخیرات وغیرہ نہیں۔
چینلز پر آکر صاحب حیثیت لاکھوں روپے کے عطیات کا اعلان کردیتے ہیں، اگر وہ اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کو ''عیدی'' کے نام پر ہی کچھ فراہم کردیں تو یہ عمل ملازمین کی عزت نفس کو بھی بحال رکھتا ہے۔ یہ کہنے کو چھوٹی سی بات ہے مگر ہمارے معاشرے کی اس وقت کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔ آئیے! غور کریں اور اپنے گھر کے ملازم سے لے کر فیکٹری میں کام کرنے والے ملازموں تک سب کے لیے خوشی کے اس موقعے پر سوچیں اور عملاً کچھ مدد کریں۔