
(تحریر: سہیل رضا تبسم)
کسی جنگل میں جب کوئی ہاتھی پاگل ہوجاتا ہے تو وہ پورے جنگل میں تباہی پھیر دیتا ہے۔ وہ بدمست ہاتھی نہ صرف جنگل میں درختوں اور پودوں کو نقصان پہنچاتا بلکہ جنگلی جانوروں کی زندگیوں سے بھی کھیلتا ہے۔ اس ہاتھی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کی سونڈ کے پیچھے کتنا بڑا اور طاقت ور وجود ہے جو اگر قابو سے باہر ہو تو ایک قیامت کی مانند سب کےلیے تباہی ہے۔
یہی حال آج کل کراچی کی سڑکوں کا ہے، جہاں یہ ڈمپر کسی بدمست ہاتھی کی طرح اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو روندے جارہا ہے۔ اس ہاتھی نما ڈمپر کا دماغ وہ ڈرائیور ہے جو شاید کسی نشے میں اسے چلاتے ہیں جنھیں سڑک پر موٹر سائیکل والے کوئی کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے ہیں، جنھیں روندنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں کراچی میں ان خونی ڈمپروں کی ٹکر سے اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 7 سے تجاوز کرچکی ہے۔
5 فروری راشد منہاس روڈ ملینیئم مال کے قریب خونی ڈمپر نے میاں بیوی سمیت 3 افراد کو کچل دیا، جبکہ ایک نوجوان شدید زخمی ہوا۔ اسی طرح 8 فروری کو کورنگی کراسنگ کے قریب ریتی بجری سے بھرے ڈمپر نے موٹر سائیکل سوار 3 افراد کو زندگی سے محروم کردیا۔ 8 فروری کی شب اسٹیل ٹاون موڑ کے قریب ڈمپر نے ایک اور موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری جس سے زخمی ہونے والے دو افراد میں سے ایک دم توڑ گیا۔
لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے یہ ڈرائیور اس بات کا ذرا بھی ادارک نہیں رکھتے کہ ان کی یہ بے پرواہی کیسے پورے کا پورا خاندان اجاڑ دیتی ہے اور پیچھے خاندان کے بقیہ افراد میں سے چند کو یتیم، کسی کو بیوہ اور کئی افراد کو محتاج بنادیتی ہے۔ ان حالیہ واقعات میں سے ہم کورنگی کراسنگ والے واقعے کے بتاتے ہیں کہ کیسے اور کتنا نقصان کرکے ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔
8 فروری کو تین افراد موٹر سائیکل پر سوار اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ ان میں سے ایک محمد شوکت جو بائیک چلا رہا تھا پاکستان نیوی کا ملازم اور ایم ٹی خان رو ڈ پر نیوی کی ہاؤسنگ سوسائٹی این او آر ای ون کا رہائشی تھا۔ بقیہ دو افراد 25 سالہ آصف ولد حضور بخش اور 27 سالہ امجد جیلانی ولد غلام جیلانی تھے۔ یہ دونوں شوکت کے کزن تھے اور روزگار کے سلسلے میں بہاولپور سے کراچی آئے تھے۔ محمد شوکت ایک بچے کا باپ جبکہ امجد جیلانی دو بچوں کا باپ تھا۔
ہفتے والے دن محمد شوکت اپنے دونوں رشتے داروں کو نوکری کے سلسلے میں کسی سے ملوانے لے جارہا تھا کہ CBM کالج کے قریب رانگ سائیڈ سے آنے والے اس تیز رفتار ڈمپر نے انھیں کچل ڈالا اور موقع پر تینوں جاں بحق ہوگئے۔ حسب روایت ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔ لوگوں نے مشتعل ہوکر ڈمپر کو آگ لگادی۔ لیکن جو نقصان وہ ٹرک ڈرائیور کرگیا اس کی بھرپائی ناممکن ہے۔ ان جوانوں کی بیویوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرگیا۔ ان تین افراد کے ساتھ ساتھ خود ان کے اور ان کے گھر والوں کے ارمان، امیدیں سب کچل گیا۔
یہاں سب سے زیادہ مجرمانہ غفلت ٹریفک پولیس کے عہدیدار اور اہلکاروں کی ہے۔ حکومت کی جانب سے کئی مرتبہ اعلانات کرنے کے باوجود کہ ان ٹرک، ڈمپر اور واٹر ٹینکر کو رات 11 سے صبح 6 تک سڑکوں پر آنے کی اجازت ہے، یہ پولیس اہلکار رشوت لے کر انھیں جانے دیتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ان ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتے لیکن پیسہ پھینک تماشا دیکھ والی صورتحال کی مانند انتظامیہ بس تماشا دیکھنے تک محدود ہے۔ ابھی یہ کچھ دنوں کا واویلا ہے پھر سب کچھ ویسا ہی چلے گا جیسے ابھی چل رہا ہے۔ وہ کراچی جو کبھی غریبوں کی ماں ہوا کرتا تھا اب موت کے کنویں کی مانند ہے جس میں ہم سب بس گھومے چلے جارہے ہیں۔
ڈمپر ایسوسی ایشن کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ ان سب کی ذمے دار کراچی پولیس ہے جو پیسے لے کر ان ڈمپروں کو نقل و حرکت کی اجازت دیتی ہے۔
حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی میں روزانہ تقریباً 500 افراد سڑک حادثات میں زخمی ہوتے ہیں، جن میں سے 70 فیصد متاثرہ افراد نوجوان موٹر سائیکل سوار ہیں۔ 2023 میں کراچی میں سڑک حادثات میں 1,400 سے زائد شہریوں کی جانیں گئیں اور 18,000 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، سالانہ 30,000 سے زائد سڑک حادثات رپورٹ ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں تقریبا 6,000 افراد کی اموات ہوتی ہیں اور بے شمار دوسرے افراد زخمی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں سڑک حادثات کی سب سے بلند شرح رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور مختلف قومیت کے لوگ یہاں آباد ہیں، یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیا دہ ٹریفک حادثات بھی یہیں ہوتے ہیں۔ کراچی پولیس کے مطابق، رواں سال کے دوران ٹریفک حادثات میں 480 افراد جاں بحق ہوئے اور ان میں سے تقریباً نصف ہلاکتیں کیماڑی علاقے میں ہوئی ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کراچی کے پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے کہا کہ 50 فیصد حادثات ڈمپرز، واٹر ٹینکرز، منی بسوں، ٹریلرز اور دیگر بھاری گاڑیوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ نے کہا کہ اس سال اب تک ٹریفک حادثات میں 480 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جن میں سے 50 فیصد ہلاکتیں کیماڑی، غربی اور ملیر اضلاع میں ہوئیں، جہاں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم جانے والی بھاری گاڑیاں چلتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 7,000 ڈرائیورز کو گرفتار کیا گیا اور ایسے مہلک حادثات میں ملوث 350 گاڑیوں کو ضبط کیا گیا۔
شہر کے پولیس چیف نے کہا ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گرفتار ڈرائیورز کو ضمانت پر بھی رہا نہیں کیا جائے گا کیونکہ انہیں ایسی ضمانت عدالت سے حاصل کرنی پڑے گی۔‘‘ اوڈھو نے یہ بات بھی بتائی کی کہ 57 فیصد متاثرہ افراد موٹر سائیکل سوار تھے، اور کہا کہ وہ 10 دنوں کی مہم شروع کر رہے ہیں جس کا مقصد موٹر سائیکل سواروں میں ہیلمٹ پہننے اور پچھلے آئینے نصب کرنے کی عادت کو بڑھانا ہے تاکہ مہلک حادثات کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’’ایک بڑی مہم این جی اوز کے تعاون سے شروع کی جائے گی۔‘‘
ان تمام تر دعوؤں اور پریس کانفرنس کے باوجود نیرو چین کی بانسری بجارہا ہے۔ اب تک یہ تمام باتیں بس باتوں کی حد تک محدود ہیں اور خونی ڈمپر اسی طرح لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کر رہے ہیں۔ شاہراہ فیصل ، کورنگی روڈ ، اسٹیل ٹاؤن اور دیگر شاہراہوں پر دن دیہاڑے یہ ڈمپر، واٹر ٹینکر اور ریتی بجری کے ٹرک بد مست ہاتھی کی طرح دوڑتے نظر آتے ہیں۔ جب تک پولیس اور انتظامیہ کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جائے گا لوگ اسی طرح سڑکوں پر کیڑوں مکوڑوں کی مانند مرتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔