کوچۂ سخن


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل
غزل
جو بچ گئی تھی زندگی فرقت کے نام ہو گئی
منزل پہ کیا پہنچنا تھا رستے میں شام ہوگئی
دو پل کا اِک سکون تھا بے چینی پھر حیات کی
یہ بھی عجب کہانی تھی پل میں تمام ہو گئی
الفت سے تیری عمر کا مطلب سمجھ میں آ گیا
تیرے سبب سے زندگی ناقص سے تام ہو گئی
شوخی تو اُسکی دیکھیے محفل کے عین بیچ میں
جنبش وہ ایک چہرے کی طرزِ سلام ہو گئی
ساغر کے ایک دور کو سمجھے جو دورِ زندگی
گردش مرے نصیب کی گردشِ جام ہو گئی
محفل میں مجھ کو آنے کا جو سرسری سا کہہ دیا
اب وہ سمجھ رہا ہے کہ حجّت تمام ہوگئی
اُس بزم میں بھی بارہا ہم جا چکے ہیں دوستو
یارو جہاں پر خامشی خود اِک کلام ہو گئی
ساجدؔ کہیں سے ایک بھی اچھی خبر نہ مل سکی
لگتا ہے تیری زندگی بھی اختتام ہو گئی
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)
غزل
جانے کیا اِسم بچھڑتے ہوئے پڑھ جاتا ہے
وہ جسے چھوڑ کے جاتاہے، وہ مر جاتا ہے
ہم ہیں کھنڈرات کے تہہ خانوں کی تصویروں سے
جو کوئی دیکھنے آتا ہے وہ ڈر جاتا ہے
آس کی پُوریں ہیں مسیحائی کے اُس درجے پر
گھاؤ جیسا بھی ہو چُھو لینے سے بھر جاتا ہے
یعنی چالیس برس حد ہے بلوغت کے لیے
یعنی اس عمر میںانسان سدھر جاتا ہے
سوچتا رہتا ہوں بستر پہ پڑا رات گئے
چاند مغرب کی طرف کون سے گھر جاتا ہے
یہ لڑائی ہے مفادات کی فیصل ؔصاحب
اِس میں دستار نہیں جاتی ہے ،سر جاتا ہے
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)
غزل
ترے کرم سے مرا شعر لازوال ہے دوست
کمال میرا نہیں ہے ترا کمال ہے دوست
ہزار بار یہ سوچا مگر نہ سمجھا میں
بہار میں بھی مرا جسم کیوں نڈھال ہے دوست
تو ان اداؤں سے مشہور ہوگیا ورنہ
تو ان اداؤں سے ہٹ کر بھی باکمال ہے دوست
تجھے میں کیسے بتاؤں،مجھ ایسے شاعر کو
ترے وجود سے بڑھ کر ترا خیال ہے دوست
ہم ایک دوجے کے اربابؔ ہو نہیں سکتے
وہ اور بات کہ یہ رابطہ بحال ہے دوست
( ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)
غزل
رقصاں رہی ہوائے شبِ غم چراغ پر
چھایا رہا خیال کسی کا دماغ پر
بانہوں میں سمٹی جاتی تھی دنیا کو بھول کر
رکھتی نہیں تھی قرض وہ باقی فراغ پر
رستوں میں بانجھ پن تھا، ہوا تند و تیز تھی
منزل اضافی بوجھ تھی بجھتے چراغ پر
انگلی پہ کہکشاں کو گھمانے کے شوق میں
کتنے شہاب گر گئے اپنے ہی باغ پر
سب لوگ چکھ رہے تھے جب آنکھوں سے تشنگی
میں نے بھی ہونٹ رکھ دیے اپنے ایاغ پر
جیسے یہ تیر سیدھا لگا میرے دل کے پار
دشمن نے آنکھ رکھی ہوئی تھی سراغ پر
لاؤں گا خود کو ڈھونڈ کے اس در پہ پھر مقیمؔ
تھوڑا سا داغ اور لگاؤں گا داغ پر
(رضوان مقیم۔ فیصل آباد)
غزل
حسد کی آگ میں ہر سو ہیں جلنے والے لوگ
کہاں ہیں موم کی صورت پگھلنے والے لوگ
زمیں کے کرب سے اب تک جو روشناس نہیں
بلندیوں سے وہی ہیں پھسلنے والے لوگ
ہمارے چہرے کی تصویر کھینچ کر رکھ لو
ہمیں ہیں ٹھوکریں کھا کر سنبھلنے والے لوگ
یہاں نہیں ہے گلابوں کا قدر داں کوئی
ہیں بات بات پہ پہلو بدلنے والے لوگ
مرے ضمیر کی قیمت لگانے آئے تھے
امیرِ شہر کے ٹکڑوں پہ پلنے والے لوگ
دکھانا چاہیے جوہر جہاں فصاحت کے
وہاں بھی بیٹھے ہیں اُردو نگلنے والے لوگ
تم اپنی بات لبوں کے حصار میں رکھنا
یہاں زباں سے ہیں آتش اگلنے والے لوگ
ہر ایک سمت گھٹا نفرتوں کی ہے خالدؔ
برائے نام ہیں الفت پہ چلنے والے لوگ
(خالد ندیم بدایونی۔ محلہ ناگران، شکیل روڈ، بدایوں، بھارت )
غزل
حشر کے دن ہی فیصلہ ہو گا
میں ترا اور تو مرا ہو گا
ایک دن یہ بھی سانحہ ہو گا
وہ کہیں اور ہنس رہا ہو گا
دیکھنا ہے کہ بے بسی کی حد
پار کرنے کے بعد کیا ہو گا
ایک دل میں تو دو نہیں ممکن
یا تو تُو ہوگا یا خدا ہو گا
بس یہی سوچتے کٹی ہے حیات
میں اگر مر گیا تو کیا ہو گا
آخری فیصلہ یہی ہے عمر
اب مجھے اُس کو بھولنا ہو گا
(محمد عمر۔ پشاور)
غزل
کسی کے دل کو دکھانا کمال ہے کہ نہیں
تمھیں بھی اس کا ذرا سا ملال ہے کہ نہیں
ترس رہی ہیں نگاہیں یہ دیکھنے کے لیے
کہ تو بھی پہلے کے جیسا نڈھال ہے کہ نہیں
میں دے رہی ہوں تمھاری مثال دنیا کو
تمھارے پاس بھی میری مثال ہے کہ نہیں
خدا کا شکر کہ اس نے بھی مجھ سے پوچھ لیا
تمھارے دل میں کسی کا خیال ہے کہ نہیں
میں دیکھنے کو چلی آئی دفعتاً خاموش
عمودؔ اس کے بھی لب پر سوال ہے کہ نہیں
(عمود ابرار احمد ۔کراچی)
غزل
درد و الم فراق و تنہائی ہے کہاں تک
ملتا نہیں کہیں بھی منزل ترا نشاں تک
لگتی ہیں قافلے میں اونٹوں کی جب قطاریں
چلتے رہے مسلسل صحرا میں سارباں تک
قصہ ٔدردِ دل اب سنتا نہیں ہے کوئی
لفظوں کے کارواں بھی رکنے لگے زباں تک
دھوکہ دیا ہے تو نے صحرا میں آ کے مجھ کو
ایسا خیال میرے آیا نہ تھا گماں تک
افسردگی نے میری فرزان کی ہے چینی
مایوس ہر گھڑی ہے مری تو کارواں تک
سنتا نہیں ہے کوئی میرے دکھ کی داستان کو
سنبھلا نہیں ہے مجھ سے میرا تو رازداں تک
چل چھوڑ آج قصہ دل بھر گیا ہے میرا
قاصرؔ نہیں رہا اب میرا تو آشیاں تک
(قاصر ایاز میمن۔ تھرپارکر)
غزل
مرے ساتھ جب سے وہ رہنے لگے ہیں
پرندے بھی تعظیم کرنے لگے ہیں
تصوف کی باتیں وہ کرنے لگی جب
تو بھٹکے ہوئے رہ پہ چلنے لگے ہیں
ہوئے خود سے کب بے نیاز اس قدر ہم
یہ سب رنگ اس کے ہی چڑھنے لگے ہیں
مراسم جو تم نے بڑھائے ہیں ہم سے
نئے دیپ آنکھوں میں جلنے لگے ہیں
تماشے میں دنیا کہ دنیا تماشہ
اسی رنگ میں ہم بھی ڈھلنے لگے ہیں
اسے میں نے اتنا بگاڑا ہے ناصرؔ
مجھے لوگ اچھا سمجھنے لگے ہیں
(ناصر معروف۔ عمان)
غزل
یوں بھی کمرے کو پریشان کیے دیتا ہوں
اپنی تنہائی کو زندان کیے دیتا ہوں
روز اکتا کے نکل آتا ہوں تصویر سے میں
در و دیوار کو حیران کیے دیتا ہوں
گھر کے پیڑوں سے بنا لیتا ہوں دستے میں بھی
اپنی سائے کا یوں نقصان کیے دیتا ہوں
دھند سورج کے توسط سے اتر جائے گی
میں چلو گھر کی ہی پہچان کیے دیتا ہوں
جنگ تعبیر کی خوابوں میں چھڑی رہتی ہے
اور آنکھوں کو میں میدان کیے دیتا ہوں
موت کے شہر میں آیا ہوں تو اس بار چلو
جسم کو روح کا مہمان کیے دیتا ہوں
میں نے جانا بھی نہیں ہوتا مگر پھر بھی نہالؔ
جانے کیوں جانے کا سامان کیے دیتا ہوں
(علی نہال۔ چنیوٹ)
غزل
سکونِ دل لٹائے جا رہا ہوں
میں اشکوں میں نہائے جا رہا ہوں
سبق کوئی تو لے گا اس کتھا سے
کتھا اپنی سنائے جا رہا ہوں
مہک اٹھے گا جس سے گلستاں یہ
میں ایسے گل کھلائے جا رہا ہوں
جو رشتے خار کی مانند تھے، میں
وہ رشتے بھی نبھائے جا رہا ہوں
جو پورے ہو نہیں سکتے کبھی بھی
وہ سپنے بھی سجائے جا رہا ہوں
وطن کی آبیاری گر ہے لازم
لہو اپنا پلائے جا رہا ہوں
یقیں تھا کہ اکیلے رہ نہ پاتا
میں ساگر میں سمائے جا رہا ہوں
(رجب علی ساگر ۔ ڈیرہ اسماعیل خان،پہاڑ پور)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی