چیف سیکریٹری پنجاب …ایک شاندار بیوروکریٹ

ایک سیاسی حکومت میں افسر شاہی کو مکمل طور پر غیر سیاسی رکھنا بھی زاہد اختر زمان کا ہی کمال ہے


مزمل سہروردی February 13, 2025
msuherwardy@gmail.com

پاکستان میں ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ افسر شاہی کوئی کام نہیں کرتی۔ افسران فائلوں پر سائن نہیں کرتے۔ معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھا دیا جاتا ہے۔ تاہم پنجاب کے چیف سیکریٹری نے کافی حد تک اس کلچر کو تبدیل کیا ہے۔

چیف سیکریٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے جنوری 2023میں چیف سیکریٹری پنجاب کا چارج سنبھالا تھا۔ اس طرح انھیں اب پنجاب میں چیف سیکریٹری کا منصب سنبھالے دو سال سے زائد ہو گیا ہے۔ اگر پنجاب میں چیف سیکریٹری کے عہدے کا بغور جائزہ لیا جائے تو دو سال مکمل کرنے والے چیف سیکریٹریز کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ عہدہ ہی ایسا ہے کہ ایک سال بھی مل جائے تو غنیمت ہی سمجھا جاتا ہے۔

زاہد اختر زمان کی مدت کو اس لیے بھی مختلف سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے ان دو سالوں میں دو مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ورنہ عمومی طور پر نئی حکومت بلکہ نیا وزیر اعلیٰ آنے کے بعد سب سے پہلے اپنی مرضی کا چیف سیکریٹری لگاتا ہے۔ ہر وزیر اعلیٰ کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اعتماد کا بیوروکریٹ چیف سیکریٹری لگایا جائے۔ لیکن زاہد اختر زمان مسلسل دو حکومتوں اور دو وزیر اعلیٰ کے ساتھ چیف سیکریٹری رہے ہیں۔ جو اپنی جگہ ایک الگ بات ہے۔ جس کی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے۔

زاہد اختر زمان کو پہلے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دور میں چیف سیکریٹری پنجاب تعینات کیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو محسن نقوی کی کامیاب وزارت اعلیٰ کے پیچھے بھی زاہد اختر زمان ہی تھے۔ اب وہ مریم نواز کے چیف سیکریٹری ہیں۔ اور اب تک مریم نواز نے بطور وزیر اعلیٰ جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں بھی ان کے ساتھ زاہد اختر زمان شامل ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ زاہد اختر زمان نے پنجاب کی بیوروکریسی کو ایک نیا کلچر دیا ہے۔ انھیں افسر شاہی سے کام لینا آتا ہے۔ وہی افسر شاہی جس کے بارے میں یہ رائے تھی کہ وہ کام نہیں کرتی۔ زاہد اختر زمان نے اسی افسر شاہی سے کام لے کر دکھا دیا ہے۔

ایک سیاسی حکومت میں افسر شاہی کو مکمل طور پر غیر سیاسی رکھنا بھی زاہد اختر زمان کا ہی کمال ہے۔ افسران کو میرٹ پر لگانا اور پھر ان سے کام لینا ایک نئی پالیسی ہے۔ جس کے نتائج پنجاب میں نظر آرہے ہیں۔

میں مانتا ہوں کہ اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا اعتماد زاہد اختر زمان کو حاصل ہے۔ ایک وزیر اعلیٰ کو اچھے افسر لگانے کے لیے چیف سیکریٹری کا ہی کام ہے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ایک وزیر اعلیٰ افسران کو اس طرح نہیں جانتا جیسے چیف سیکریٹری جانتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں پنجاب میں تعیناتیوں کے لیے زاہد اختر زمان نے نیک اور اچھے افسران کے انتخاب میں وزیر اعلیٰ کی بہت مدد کی ہے۔ سیاسی تعیناتیوں کو روکنے میں بھی ان کا بہت ہاتھ ہے۔ انھوں نے ایک سیاسی حکومت میں ایک غیر سیاسی کام کیا ہے۔

آج پنجاب میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کی کامیابی کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن مکمل طور پر ناکام ہوتے بھی دیکھے ہیں۔ سیاسی حکومتیں لوگوں کی ناراضگی کی وجہ سے ایسے آپریشن روک بھی دیتی رہی ہیں۔ پھر امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہو جاتے تھے۔ آپریشن میں لوگ احتجاج بھی کرتے تھے۔

پورے پنجاب میں تجاوزارت ختم ہو گئی ہیں۔ جن سڑکوں پر کئی دہائیوں سے تجاوزات موجود تھیں۔ جن سڑکوں پر کئی حکومتیں تجاوزات ختم کروانے میں ناکام رہیں ۔ وہ سڑکیں اور مارکیٹیں صاف ہو گئی ہیں۔ لیکن کوئی شور نہیں۔ کوئی امن وامان کا مسئلہ نہیں، کوئی احتجاج نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی آسان کام تھا چٹکی بجاتے ہی ہو گیا۔ لیکن میں دوستوں کو کہتا ہوں کہ ماضی میں کئی حکومتوں نے ایسے آپریشن میں ناکام رہی ہیں۔

تا ہم اب یہ سب ممکن ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ پنجاب میں بہت سے ایسے کام ہوئے ہیں جو اس سے پہلے نہیں ہوئے ہیں۔ پنجاب میں ٹینڈر کے نظام کو شفاف بنا دیا گیا ہے۔ ایک دن میں زاید اختر زمان کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انھوں نے کہا کہ پنجاب کے سب ٹینڈر ای ٹینڈر کر دیے گئے ہیں۔ اب ٹینڈروں کی کرپشن ختم ہو گئی ہے۔ میں نے کہا سی اینڈ ڈبلیو کے افسران تو بھوکے مر جائیں گے۔ وہ مسکرائے، انھوں نے کہا مجھے پتہ ہے فی ٹینڈر کیا کرپشن تھی۔ میں نے ختم کر دی ہے۔ جب افسر کا ٹینڈر دینے میں کوئی کردار ہی نہیں تو کرپشن کیسی۔ ہم نے افسران کا کردار ختم کر دیا ہے۔

زاہد اختر زمان کے بارے میں بہت سے لوگوں نے بہت غلط اندازے لگائے۔ ایک رائے یہ بھی تھی کہ وہ لمبی اننگ کے کھلاڑی نہیں ہیں۔ لیکن انھوں نے دکھایا ہے کہ وہ ٹی ٹونٹی نہیں ٹیسٹ میچ کھیلتے ہیں۔ پتہ ہی تب چلتا ہے جب سنچری ہو جاتی ہے۔ وہ شور نہیں کرتے۔ وہ خود نہیں بولتے ان کا کام بولتا ہے۔ آپ پنجاب میں صفائی کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔ کبھی بڑے شہروں کی صفائی ایک بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔

اب دوبارہ صرف لاہور نہیں بلکہ پورے پنجاب کی صفائی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تحصیلوں میں صفائی کا نظام پہنچ گیا ہے۔ انھوں نے ایک شفاف طریقہ سے پنجاب بھر میں صفائی کے نظام کی نج کاری کر دی ہے۔ کمپنیوں نے کام سنبھال لیا ہے۔ کوئی شور نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ خاموشی سے کام کا افسر شاہی کو ایک نیا کلچر ملا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ جب بھی کوئی نیا چیف سیکریٹری آئے گا تو کارکردگی کا موازنہ زاہد اختر زمان کی کارکردگی سے ہی کیا جائے گا۔ وہ پنجاب میں دیر تک یاد رکھے جانے والے چیف سیکریٹری ہوں گے۔

ان کے کام کو پنجاب میں بنچ مارک کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی اب ان کے کام کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب چیف سیکریٹری پنجاب زاہد اختر زمان کو نئے افسران کو یہ پڑھانا بھی شروع کر دینا چاہیے کہ ایک چیف سیکریٹری کیسا ہونا چاہیے۔ انھیں اب استاد کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ انھوں نے افسر شاہی کے پرانے طریقوں کو بدل دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں