
ٹرمپ کو ایوان صدر سنبھالے ہوئے ابھی ایک مہینہ نہیں ہوا ہے اور جناب نے پوری دنیا میں نئے کٹے کھول دیے ہیں۔ آئے دن ٹرمپ کا کوئی نہ کوئی نیا بیان سامنے آتا ہے اور دنیا اپنا سر پکڑ لیتی ہے۔ ایک جانب اس نے دنیا بھر سے تجارتی جنگ چھیڑ لی ہے اور دوسری جانب اس نے امریکی انتظامی ڈھانچے کو بھی شدید دھچکے دینا شروع کردیے ہیں۔
حال ہی میں ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ جو بیان جاری کیا ہے، اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کو شدید ترین خطرات بھی لاحق ہوچکے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ کے مخالفین سے زیادہ اس کے حمایتی پریشان ہیں کیونکہ ٹرمپ نہ روایتی سیاستدان تھا اور نہ ہے اور وہ جو کر رہا ہے، اس کو صرف وہی سمجھتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ساتھ بٹھا کر اس صدی کا متنازع ترین بیان دیا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ ٹرمپ کو فلسطین اسرائیل مسئلے کی ابجد کا بھی علم نہیں ہے ورنہ ایسی حماقت کی توقع اس سے نہیں کی جاسکتی تھی۔
اسرئیلی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ غزہ کو خالی کردیا جائے اور تمام اہل غزہ مصر اور اردن کی جانب ہجرت کرجائیں۔ اُس نے کہا کہ ہم غزہ کی تعمیر نو کریں گے اور اس زمین کو جدت دیں گے۔ جب وہ یہ بکواس یا اعلان کر رہا تھا تو ساتھ میں تشریف فرما قصاب نما اسرائیلی وزیراعظم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ چھپ نہیں رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا صدیوں پرانا کوئی خواب پورا ہو رہا ہے اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹرمپ کے جوتے اتار کے چاٹ لے۔
اس بیان کے بعد پوری دنیا سے ہی اس کی مخالفت سامنے آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا نے اس کو تسلیم تو نہیں کرنا تھا۔ اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے غزہ کو بطور ملک نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کے ایک قطعہ کے طور پر دیکھا اور فیصلہ کیا ہے۔ تعمیر نو کے بعد وہ زمین ظاہر ہے کہ اسرائیلی عملداری میں جائے گی تو اہل غزہ کی آج تک لڑائی ہی اس نقطے اور مسئلے پر ہے کہ یہ ہماری زمین ہے اور ہم مزید غاصبانہ قبضہ برداشت نہیں کریں گے۔ یعنی کہ ٹرمپ کے منصوبے کی بنیاد ہی غلط ہے۔ حماس پر کوئی عالمی اثر و رسوخ نہیں چلتا ہے۔ اس کو ایران نے جو دھوکا دینا تھا، وہ دے دیا اور انہوں نے اب جو لڑائی شروع کی ہے، اختتام بھی وہی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے بیان کے بعد حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی مزید رہائی بھی روک دی ہے اور ٹرمپ نے جواباً ایک ہفتہ کی مہلت ان الفاظ میں دی ہے کہ اس کے بعد غزہ میں صرف تباہی ہوگی۔ ٹرمپ سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی ملک کی آبادی کو اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا حکم دینا عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ضمرے میں نہیں آتا ہے؟ یہ کیا اسرائیل کے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی جانب ایک قدم مزید نہیں ہے؟ کیا یہ اس کے ’’نیو مڈل ایسٹ ‘‘ پلان کی جانب ایک قدم مزید نہیں ہے کہ جس کا نقشہ اُس نے اقوام متحد ہ کے اجلاس میں دکھایا تھا۔ اس پلان کو اہل عرب نے مسترد کرنا تھا، وہ کردیا ہے۔ اردن، مصر اور سعودیہ نے واضح مخالفت کر دی ہے جس کے جواب میں ٹرمپ نے مصر اور اردن کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
یہاں ایک نقطہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ سجی دکھا کر کھبی مارتا ہے۔ وہ روایتی سیاست دان نہیں بلکہ ایک کاروباری انسان ہے جو کہ ڈیل میکر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ اپنی زندگی میں تین مرتبہ بینک رپٹ یعنی مکمل دیوالیہ سے ملینئیر بنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کوئی چھنا کاکا نہیں ہے، وہ ذہین انسان ہے اور وہ جو بھی کر رہا ہے وہ نشے میں ہرگز نہیں کر رہا ہے۔ اگر تو وہ جو کہہ رہا ہے، وہی کرے گا تو یہ بالکل ہی ناقابل عمل ہے۔ نہ اہل غزہ اس کو تسلیم کریں گے، نہ ہی فلسطینی اس کو تسلیم کریں، نہ عرب دنیا اس کو مانے گی اور نہ ہی باقی دنیا اس منصوبے کو تسلیم کرے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا اصل منصوبہ کیا ہے اور وہ اس خطے میں اصل میں کیا کرنا چاہ رہا ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔