آرمی چیف سے ملاقات کی روداد

آرمی چیف حکومت کی کارکردگی سے بہت مطمئن ہیں وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں


مزمل سہروردی February 15, 2025
msuherwardy@gmail.com

ترکیہ صدر طیب اردگان کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ایک شاندار ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس ظہرانہ میں ملک کی عسکری قیادت بالخصوص آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔ وفاقی وزرا اور دیگر حکومتی عہدیدار بھی شریک تھے۔ اس ظہرانہ میں مجھ سمیت چند سینئر صحافی بھی مدعو تھے۔

صحافیوں کی ایک ہی ٹیبل تھی جس میں وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب بھی اس ٹیبل پر ہی آکر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے کہا میں صحافیوں میں خود کو بہتر محسوس کرتی ہوں حالانکہ ان کی ٹیبل وزیر اعلیٰ مریم نواز کے ساتھ تھی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر اور شیریں رحمٰن بھی صحافیوں کی اسی ٹیبل پر آکر بیٹھ گئے۔اس طرح اس ٹیبل پر کافی سیاسی گپ شپ رہی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی اس ٹیبل پر آئے اور سب سے ملے۔ اعجاز الحق اور عرفان صدیقی بھی اس ٹیبل پر کافی دیر موجود رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ بھی اس ٹیبل پر صحافیوں سے ملنے آئے۔

ظہرانہ کے خاتمے پر جب سب جانے لگے تو صحافی بھی نکلنے کے لیے اٹھے تو سامنے سے آرمی چیف جنر ل عاصم منیر آتے نظر آئے۔ سب رک گئے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے تو صحافیوں کو دیکھ کر رک گئے۔ ہم سب تو پہلے ہی ان کے انتظار میں تھے۔ ان کے رکنے کی دیر تھی کہ بات چیت شروع ہو گئی۔

پہلا سوال تھا کہ جنرل صاحب کیا سب ٹھیک چل رہا ہے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کیوں آپ کو سب ٹھیک نہیں لگ رہا۔ جوابی سوال کیا گیا کہ آپ کو سب ٹھیک لگ رہا ہے ؟ انھوں نے چہرے پر مسکراہٹ قائم رکھتے ہوئے کہا کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ سب اشاریے مثبت ہیں۔ ہر شعبہ میں بہتری نظر آرہی ہے۔ پھر حالات ٹھیک کیوں نہیں ہونگے۔ ملک ترقی کر رہا ہے۔ ہم سب کو اس پر خوش ہونا چاہیے۔ ملک ترقی کرے گا تو سب ٹھیک ہی رہے گا۔

حالات ٹھیک قرار دیے جانے کے بعد اگلا سوال خط پر کیا گیا۔ سوال کیا گیا کہ آج کل آپ کو بہت خط لکھے جا رہے ہیں؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے ہی جواب دیا کہ مجھے تو کوئی خط نہیں ملا۔ جنرل عاصم منیر بھی شاید گفتگو انجوائے کر رہے تھے۔ اس لیے وہ کھڑے تھے۔ ورنہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ ایک آدھا سوال کرتے ہیں اور مہمان آگے بڑھ جاتا ہے، دوسرا یا تیسرا سوال کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ لیکن یہاں ایسا نہیں تھا۔ جنرل عاصم منیر آرام سے کھڑے تھے۔

خط کا جواب دھرایا گیا کہ خط میڈیا میں تو آئے ہیں۔ انھوں نے کہا وہ خط مجھے نہیں لکھے گئے وہ میڈیا کو لکھے گئے ہیں۔ مجھے لکھا ہوتا تو مجھے مل جاتا۔ وہ میڈیا کو ہی لکھے گئے تھے۔ پھر سوال کیا گیا کہ اگر خط آپ کو مل جائے تو کیا کریں گے۔ انھوں نے بغیر کسی توقف کے کہا کہ اگر واقعی خط مجھے مل گیا تو میں وہ خط وزیر اعظم کو بھیج دوں گا۔ پاس کھڑے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا چلیں آپ کی خبر بن گئی۔ آپ کو خط کا جواب مل گیا کہ وزیر اعظم کو بھیج دوں گا۔

گفتگو ابھی جاری تھی۔ جنرل عاصم منیر ابھی کھڑے تھے۔ لیکن اب اور لوگ بھی ساتھ پہنچ گئے تھے۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ بہت فٹ نظر آرہے ہیں۔ لگتا ہے آج کل فٹنس پر توجہ دے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کو فٹ ہونا چاہیے۔ آرمی چیف نے تو جنگ لڑنی ہے۔ ہم ہر وقت جنگ کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس لیے فٹ رہنا ضروری ہے۔ ایک دوست نے ضمنی سوال کیا ویسے تو کئی ضمنی سوال ہوئے لیکن یہ آخری ضمنی سوال تھا کہ جنگ کے لیے تیار ہیں۔ تو انھوں نے کہا میرا کام ہی ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنا ہے۔ اس کے بعد اور لوگ آگئے اور آرمی چیف آگے بڑھ گئے۔ بعدازاں کئی مہمان ہم سے پوچھنے لگ گئے کہ کیا بات ہوئی۔ خط والی بات پر سب کو دلچسپی تھی۔

گفتگو کے بعد ہم سب صحافی اکٹھے ہو کر یہ بھی طے کرنے لگے کہ یہ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی یا آن دی ریکارڈ تھی۔ لیکن پھر یہی طے ہو اکہ جنرل عاصم منیر نے یہ نہیں کہا کہ یہ گفتگو آف دی ریکارڈ ہے۔ اس لیے یہی طے ہوا کہ یہ گفتگو آن دی ریکارڈ تھی۔ یہ بات میں نے جان بوجھ کر نہیں لکھی کونسا سوال میں نے کیا کونسا کس نے کیا۔ یہ بات آف دی ریکارڈ ہی رہنے دی گئی ہے۔ بہر حال ساری گفتگو آپ کے لیے لکھ دی ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اس گفتگو کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ وہ ملک کی ترقی اور حکومت کی کارکردگی سے بہت مطمئن ہیں۔ اگر کچھ دوست یہ باتیں کر رہے تھے کہ حکومت اور آرمی چیف کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ وہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو اس ساری گفتگو سے واضح ہو گیا کہ اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان ایک پیج موجود ہے۔ آرمی چیف حکومت کی کارکردگی سے بہت مطمئن ہیں وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انھیں ملک بھی ترقی کرتا نظر آرہا ہے۔ معاشی اشاریے مثبت ہیں۔ وہ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے حکومت اور آرمی چیف ایک ساتھ ہیں۔

خط کا بھی جواب آگیا ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کیونکہ میں وہاں موجود تھا۔ ساری گفتگو میری سامنے ہوئی اور کچھ سوال میں نے بھی کیے تو مجھے بانی تحریک انصاف کی خط و خطابت کا کوئی اچھا مستقبل نظر نہیں آتا۔ جب آرمی چیف نے کہا کہ وہ خط تو آپ کے لیے لکھے گئے ہیں تو وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ میڈیا کے لیے ہیں اور ان کے ذریعے میڈیا میں بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ تحریک انصاف فوج کے خلاف مہم چلاتی ہے۔ اس لیے مجھے یہی لگا ہے کہ ان خطوط کو بھی ایسی ہی مہم کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔ ان خطوط کو کوئی بات چیت کا ذریعہ نہیں سمجھا جا رہا ہے لہٰذا ان سے کوئی بریک تھرو ممکن نہیں بلکہ حالات میںکشیدگی بڑھے گی۔

آرمی چیف بہت ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے گفتگو کر رہے تھے۔ وہ بہت ریلیکس نظر آئے۔ یہ گفتگو کوئی پلاننگ سے نہیں کی گئی۔ آرمی چیف کا اچانک صحافیوں سے سامنا ہوا۔ کیونکہ ہمیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا آرمی چیف سے ٹاکرا ہو جائے گا۔ سب کچھ اچانک ہوا۔ لہٰذا ایسا نہیں کہ انھوں نے کوئی جواب تیار کیے ہوئے تھے۔ اس لیے مجھے لگا کہ وہ ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال اور دیگر امور سے کافی مطمئن ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔