
چین میں گزشتہ سال شادیوں کی تعداد میں ریکارڈ 20 فیصد کمی دیکھی گئی جو کہ اب تک کی تیز ترین کمی ہے اور اس رجحان کے باعث ملک کی سکڑتی ہوئی آبادی کے بارے میں مزید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نوجوان جوڑوں کو شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے سلسے میں حکومتی اقدامات کے باوجود رجسٹرڈ ہونے ولای شادیوں کی تعداد صرف 6.1 ملین رہی جو کہ 2021 میں 7.68 ملین تھی۔
شادی کرنے کے رجحان میں کمی نوجوان چینی شہریوں میں روایتی خاندانی زندگی اپنانے کے والے سے بڑھتی ہچکچاہٹ کی نشاندہی کرتی ہے، ماہرین کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات اس کی بڑی وجوہات میں سے ہیں، اس کے علاوہ الیہ معاشی جمود نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا جس کی وجہ سے بہت سے گریجویٹس مستحکم روزگار تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال چین کو درپیش موجودہ آبادی کے چیلنج کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہے، انہوں نے بتایا کہ چین میں گزشتہ سال شادیوں کی تعداد 2013 میں ہونے والی 13.47 ملین کے مقابلے کے میں نصف سے بھی کم رہی، اگر یہ رجحان جاری رہا تو چینی حکومت کے سیاسی اور معاشی عزائم تباہ ہو جائیں گے۔
چینی حکام کے لیے شادی اور بچے پیدا کرنے میں شہریوں کی دلچسپی بڑھانا انتہائی ہام معاملہ ہے،
چین کی آبادی 1.4 بلین کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے جب کہ آبادی کی اکثریت تیزی سے بوڑھی ہو رہی ہے۔
چین کی 1980-2015 کی ون چائلڈ پالیسی اور تیزی سے شہروں کی طرف آباد کاری کی وجہ سے شرح پیدائش کئی دہائیوں تک گرتی رہی اور آنے والی دہائی میں تقریباً 300 ملین چینی جو کہ تقریباً پوری امریکی آبادی کے برابر ہیں، ان کے ریٹائرمنٹ کی عمر میں داخل ہونے کی توقع ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔