
نائن الیون کے بعد جو امریکی پالیسی کھل کر سامنے آئی ہے۔ اس میں باہمی مذاکرات کے طریقے کو یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے، یعنی ’’حملہ ہونے سے پہلے حملہ کردو‘‘ کی پالیسی کو فروغ دیا، جس کا سب سے بڑا فائدہ وہ ممالک اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھا رہے ہیں جو اسلحے کے بیوپاری ہیں۔
ایسے حالات میں یہ توقع رکھنا کہ دنیا امن کی طرف گامزن ہے، عبث ہے۔ سچ یہ ہے کہ دنیا تباہی کی طرف گامزن ہے۔ دنیا کے بڑے اسلحے کے بیوپاری ممالک ان ممالک پر اپنی توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں جہاں خانہ جنگی جاری ہے۔ جہاں لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر جنگیں لڑی جا رہی ہیں، جہاں امن ہوتا ہے وہاں یہ طاقتیں مل کر ایسے حالات پیدا کروا دیتی ہیں کہ وہاں ان کے اسلحے کی مارکیٹ بن سکے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں۔ نائن الیون کے بعد کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خاتمے کے نام پر امریکی سرپرستی میں اڑتیس اتحادی ممالک نے جو جنگ شروع کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کھنڈر بن گیا۔ لاکھوں انسان بے گھر کردیے گئے۔ افغانستان کو پتھرکے زمانے میں پہنچا دیا گیا۔
اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں نے نت نئے بت تراشے اور فتنے ابھارے۔ کھربوں ڈالرز اس لاحاصل جنگ کی آگ میں جھونک دیے گئے۔ آخر میں تھک ہارکر مفاد پرست ایک ایک کر کے افغان جنگ سے علیحدہ ہوتے گئے، اس طرح امریکا تنہا رہ گیا تو وہ طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگئے اور رسوا ہوکر افغانستان سے بھاگ گئے۔
لیکن جاتے جاتے بڑی تعداد میں اپنے جدید ہتھیار افغانستان میں چھوڑگئے، جو افغان طالبان کے ہاتھ لگ گئے پھرکسی نہ کسی طرح سے یہ امریکی جدید ہتھیار افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کے زیر استعمال آگئے، جن کا نشانہ پاکستان بنا ہوا ہے۔آئے روز افغانستان کے اندر سے پاکستان میں دہشت گردی کی جا رہی ہے۔
امریکا خود تو بھاگ گیا مگر پاکستان کو پھنسا گیا۔ آئے روز پاکستان کے شہری جاں بحق ہو رہے ہیں، ان کی املاک تباہ ہو رہی ہیں۔ ہمارے فوجی جوان شہادت نوش کر رہے ہیں اور دہشت گرد خود بھی جہنم رسید ہورہے ہیں۔ اور امن نہ جانے کہاں کھو گیا ہے؟ مگر اسلحہ خوب فروخت ہوگیا۔
افغان جنگ کے دوران ہی امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے دنیا کو یہ باورکرانا شروع کردیا تھا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جن کا خاتمہ کر کے دنیا کو محفوظ کیا جائے گا۔ عراق سے ایٹمی ہتھیار تو نہیں ملے لیکن امریکی ضد برقرار رہی۔
بعد ازاں کہا گیا کہ عراق سے صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔ عراقیوں کو آزادی اور جمہوریت میسر آئے گی۔ پھر عراق پر حملہ کردیا گیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کو اقتدار سے معزول کیا گیا۔ صدام چھپ گئے مگر انھیں تلاش کرکے گرفتار کر لیا گیا اور امریکی سائے میں قائم عدالت کے کٹہرے میں بطور ملزم کھڑا کردیا گیا۔
صدام حسین پر جھوٹے الزامات کو سچ ثابت کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور بالآخر صدام حسین کو ناکردہ جرم کی پاداش میں پھانسی دیدی گئی اور امریکا نے کہا کہ عراق میں آزادی اور جمہوریت بحال کردی گئی ہے، لیکن پھر بھی عراق میں امن قائم نہ ہوسکا۔ حالات خانہ جنگی میں بدل گئے۔ بے حساب انسانوں کو ہلاک کر کے بھی عراق میں امن نایاب رہا بلکہ جو امن صدام حسین حکومت میں تھا، اسے بھی ختم کر کے مزید خانہ جنگی کے حالات پیدا کیے گئے۔
اسی دوران ایران کی باری کے لیے حالات بگاڑنے کے اسباب تراشنا شروع کر دیے گئے۔ ایران کی طرف سے ایٹمی تنصیبات کے دروازے بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کے لیے کھولنے کے باوجود ایران اب تک امریکی اور اس کے اتحادی ممالک کے زیر عتاب ہے۔ ایران پر عالمی سطح پر معاشی و اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، لیکن ایران تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔
اسی دوران شام اور شمالی کوریا بھی عالمی سامراج کے پروسسز سے گزر رہے تھے، بعد میں شام میں بھی خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی گئی اور پھر اس پر جنگ مسلط کی گئی۔ شام میں بھی ہزاروں انسان ہلاک ہوگئے۔ شام کو بھی کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا لیکن یہ جنگ جاری رہی۔
گزشتہ سال سن دو ہزار چوبیس کے آخری ہفتوں کے دوران مسلح گروپوں نے انقلاب برپا کردیا۔ جبری حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ ملک کی باگ ڈور انھوں نے سنھبال لی، لیکن اسرائیل بیچ میں گھس گیا، اس نے شامی سرحدوں پر حملے شروع کردیے، اس طرح شام میں بھی امن کا خواب شرمندہ تعبیر کا منتظر ہے۔ دوسری طرف شمالی کوریا، امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایٹمی طاقت کے حصول میں مصروف ہے۔
پاکستان و بھارت کے درمیان باہمی تعلقات معمول پر نہیں ہیں، وقتی طور پر ان کے درمیان ایٹمی جنگ کو ٹال دیا گیا ہے مگر مسئلہ کشمیرکی وجہ سے جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کی دہشت گردی عروج پر ہے۔ جہاں انسانیت سسک رہی ہے، ایسے میں انسانی حقوق کے چمپئین ممالک اور ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت، امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ دنیا پر عیاں ہے اور پاکستان مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
سعودی عرب بھی عالمی دہشت گردی کے نشانے پر رہا اور اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ امن و امان کے مسئلے سے دوچار رہا۔
نائجیریا، انڈونیشیا، چیچینیا، تھائی لینڈ، مصر، بوسینیا اور دیگر ممالک کا امن تباہ کرنے کے بعد باقی جہاں امن ہے وہاں کے حالات بھی بگاڑنے کے اسباب پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا امن کی راہ پرگامزن ہے؟
سچ یہ ہے کہ دنیا کا امن دانستہ طور پر تباہ کیا جاتا رہا ہے اور تباہ کیا جا رہا ہے۔ تبدیلی سرکارکے نام پر پاکستان کے ساتھ جوکھیل کھیلا گیا وہ آہستہ آہستہ دنیا پر عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ نو مئی کا واقعہ اس سازش کی کڑیوں میں سے ایک کڑی تھی جو بروقت ناکام بنا دیا گیا بصورت دیگر خدا ناخواستہ پاکستان ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوجاتا مگر دشمن اب بھی خاموش نہیں ہے وہ پاکستان کی سیاست میں دراندازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بلوچستان میں لگائی جانے والی آگ بھی اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے کمزور کر کے فتح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن ان تمام رکاوٹوں کو دورکرتے ہوئے پاکستان عنقریب بلندیوں پر نظر آئے گا اور دشمن منہ تکتے رہ جائیں گے۔ جس سرزمین کی مٹی میں شہیدوں کا سرخ خون شامل ہو، اس سرزمین کو فتح کرنا کسی کا خواب ہوگا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوسکتا
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔