معاملے کی گہرائی، بات کی اصل تشریح ہے

 انسان دنیا میں قدم رکھتے وقت فرشتے کی مانند ہوتا ہے، پاک روح کا مالک


سیدہ شیریں شہاب February 16, 2025

دنیا کا ہر مسلمان اس حقیقت سے واقف ہے کہ مذہبِ اسلام میں صاف صفائی کے اہتمام کو نصف تکمیلِ ایمان کا درجہ حاصل ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بات محض انسان کی جسمانی اور اردگرد کی صفائی تک مقید ہے؟ میرے عقل و فہم کے مطابق معاملہ اتنا مختصر ہرگز نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ربِ کائنات کا کوئی بھی فرمانِ مبارک سطحی نہیں ہوتا ہے۔

اُس ذاتِ عظمت کے ہر نعمت، انعام اور نوازش کے پسِ پشت گہرائی و افادیت پنہاں ہوتی ہے جو جستجو رکھنے والے اُس کے بندوں پر تھوڑی سی محنت کے بعد ظاہر ہو جاتی ہے، شرط فقط اتنی ہے کہ خلق کی اصل خواہش مقصد کھوجنا ہو، بے ادبی کرنا نہیں۔

 ارشادِ کریم، ’’ صفائی نصف ایمان ہے‘‘ اپنے اندر چار الفاظ کی الگ الگ وضاحت سموئے ہوئے ہے۔ لفظِ صفائی کے کئی معنی ہیں دراصل طہارت، پاکیزگی، نکھار، سادگی، صداقت اور بالکل خالی ہو جانا ’’صفائی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ جیسے ہی صفائی کے معنی سے آگے بڑھیں یہ ایک لفظ پانچ مختلف اقسام میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ 

’’جسمانی صفائی، روحانی صفائی، ذہنی صفائی، زبان کی صفائی اور ماحول کی صفائی۔‘‘ کسی انسان کے وجود میں ایمان کی موجودگی اُسے مسلمان بناتی ہے اور جب بات اُسی ایمان کے نصف مکمل ہونے کی آئے تب اہلِ ایمان کا کانٹے دار راستوں پر ننگے پاؤں سفر کرنا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔

 بچپن میں اپنے اردگرد موجود مذہبی علم و فراست سے آشنا شخصیات سے یہ سنہری بات اکثر و بیشتر سنتے رہتے تھے کہ صفائی نصف ایمان ہے، عمر کے اُس حصے میں یہ جملہ قلب کو بے حد بھاتا اور طبیعت کو قرار بخشتا تھا کہ محض پاکی و صفائی کا خیال رکھنا کلی طور پر باایمان ہونے کی آدھی کامیابی مہیا کرتا ہے۔

اُس چھوٹی عمرکی بے عقلی اور نادانی نے کبھی اس عام سے جملے کے خاص معنی کو صحیح طور پر سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا لیکن جب مزاج کو سنجیدگی اور عقل کو بالیدگی نصیب ہوئی تب خالق کے تخلیق کردہ منظر کے پس منظر میں پنہاں رازوں کو جاننے کی شدید خواہش دل میں بیدار ہوئی۔

 انسان دنیا میں قدم رکھتے وقت فرشتے کی مانند ہوتا ہے، پاک روح کا مالک، اس جہانِ فانی کی آلودگی سے بے نیاز، اُس کے دل میں کسی قسم کا وسوسہ ہوتا ہے نہ وجود میں فتنہ گری کا خیال۔ انسان جیسے جیسے دنیا میں قدم جمانے اور اپنی زندگی کو پروان چڑھانے لگتا ہے وہ ماحول کے اثرات کا اثر لے کر گناہ کی مورت بن بیٹھتا ہے۔

ویسے اگر سوچا جائے کہ آخر کیا ہے یہ زندگی؟ بس پانی کا ایک بُلبلا اور اس بُلبلے کے پیچھے انسان اپنی ابدی زندگی کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے، سونے پر سہاگا وہ اپنے دل میں یہ یقین لیے گھومتا ہے کہ آدھے ایمان کی تکمیل صفائی کے عوض ہوجائے گی، جب کہ ایسا گمان کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 انسانی ذات میں صفائی درحقیقت جسمانی صفائی کے ذریعے داخل ہوتی ہے، انسان کا اپنے وجود کو صاف رکھنا خالق کا حکم اور نبی کریم کی سنت ہے۔ جسمانی صفائی کے بعد روحانی صفائی انسان کے لیے لازمی ہے کیونکہ اگر کسی فرد کی روح پر منفیت طاری ہو تو اُس کی روح سے وابستہ تمام معاملات میں بگاڑ پیدا ہونا لازم ہے۔

جسمانی اور روحانی طہارت کے اہتمام کے بعد ذہنی صفائی کی باری آتی ہے، انسان کا ذہن صرف اُسی صورت پاک تصور کیا جاتا ہے جب وہ ہر طرح کے پراگندہ خیالات سے عاری ہو اور وہاں دوسرے انسانوں کے لیے منفی سوچ اور گناہ کرنے کا کوئی خیال موجود نہ ہو۔

جس انسان کا جسم، روح اور ذہن اُجلا ہو تو اُس کی زبان میں شائستگی خود بخود آجاتی ہے لیکن اگر کسی انسان کی زبان ہی گندی ہو تو پھر کسی طرح کی صفائی بھی اُسے اخلاقی اعتبار سے ایک برا انسان بننے سے روک نہیں سکتی ہے۔ سب سے آخر میں آتی ہے ماحول کی صفائی جہاں سے تمام خرابیوں کی شروعات ہوتی ہے ساتھ وہیں سے اُن کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔

ماحول ہی مثبت اور منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔ ماحول پُر مسرت ہو تو انسانی جسم توانا اور روح شفاف رہتی ہے، ذہن مثبت خیالات کے نور سے جگمگاتا ہے اور زبان سے بھی پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں اس کے برعکس اخلاقی طور پر حبس زدہ ماحول فقط برائیوں کو پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے۔

طہارت و پاکیزگی کے ذریعے نصف ایمان کا حصول حقوق العباد کے راستے سے گزر کر ہوتا ہے، لہٰذا خالق نے حقوق العباد کا احترام کرنے کے لیے اپنی خلق پر خاص زور دیا ہے۔ لوحِ قرآنی میں رب العالمین فرماتے ہیں ’’ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کرو۔‘‘

قرآن میں ایک اور مقام پر حقوق العباد کے متعلق ارشادِ خداوندی ہے ’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو،کوئی قوم دوسری قوم سے مذاق نہ کرے، اس کو حقیر نہ جانے، ایسی گفتگو نہ کرے جس سے اس کی تذلیل ہو اور نہ عورتوں کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کرو، کیا خبر تم جن کو حقیر سمجھتے ہو، اللہ کے نزدیک وہ اعلیٰ ہو۔‘‘

قرآن انسان کے لیے نسخہ حیات کا درجہ رکھتا ہے، خداوند کریم نے اس میں دنیا کے باسیوں کو حقوق العباد کا خیال رکھنے کی بے حد تلقین فرمائی ہے اور اس موضوع پر بیشمار احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حقوق العباد کا آسان راستہ چننے کی ہدایت فرمائی ہے۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ایک فرمان ہے، ’’ مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ انسان کا اگر ظاہر صاف ہو، وہ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام بھی کرتا ہو مگر اُس کی باطنی غلاظت سے دوسرے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ایسی صفائی ایمان کو فائدہ نہیں اُلٹا نقصان پہنچاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

ہارڈ اسٹیٹ

Mar 30, 2025 02:24 AM |

’’ماں‘‘

Mar 30, 2025 01:29 AM |