
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے اور خشک سالی کی وجہ سے اس سال پنجاب میں گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ تاہم، زرعی ماہرین نے ایک ایسا فارمولا تیار کیا ہے جو پوری دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ اس کسان دوست فارمولے کا تجربہ بھائی پھیرو کے علاقے میں کیا گیا جہاں اس کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔
زرعی ماہر سید بابر حسین بخاری نے ایک آرگینک محلول تیار کیا ہے جو کلرزدہ اور بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی میں بھی کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔ پھول نگر کے نواحی علاقے میں مقامی کاشتکار رانا محمد افتخار نے اپنی چند ایکڑ زمین پر اس فارمولے کا استعمال کیا جس کے غیرمعمولی نتائج سامنے آئے۔
رانا محمد افتخار نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی زمین میں کالا شور(کلر) تھا جس کی وجہ سے کوئی بھی فصل یا تو بہت کم ہوتی تھی یا ابتدائی دنوں میں ہی سوکھ جاتی تھی۔ تاہم، اس فارمولے کے استعمال کے بعد ان کی زمین کی زرخیزی میں واضح بہتری آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوریا کھاد کے بغیر بھی فصل کی نشوونما شاندار رہی اور گندم کی مضبوطی اتنی زیادہ ہے کہ اس میں گھوڑے دوڑانے پر بھی کھڑی رہ سکتی ہے۔
پنجاب کے ایک معروف کاشتکار اور زرعی ماہر بریگیڈیئر (ر) سید جعفر عباس نے بھی اس فارمولے کے نتائج کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق گندم کے تنے کی جڑیں انتہائی مضبوط ہو چکی ہیں اور تنا اس قدر موٹا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ گندم کی نہیں بلکہ بانس کی فصل ہو۔ انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے نہایت اہم قرار دیا اور حکومت کو تجویز دی کہ وہ اس فارمولے کو زراعت کے فروغ کے لیے اپنے منصوبوں میں شامل کرے۔
سید بابر حسین بخاری نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 25 سال اس تحقیق کے لیے وقف کیے تاکہ کاشتکاروں کو بہتر اور مؤثر حل فراہم کیے جا سکیں۔ ان کے مطابق یہ فارمولا 100 فیصد قدرتی اجزاء پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کا کیمیکل شامل نہیں کیا گیا۔ یہ کسان دوست فارمولہ ماحول دوست بھی ہے اور قدرتی کیڑوں کو محفوظ رکھتا ہے جو زراعت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ فارمولا زمین میں تین فٹ تک پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پودے کو ضرورت کے مطابق پانی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین کے بند مساموں کو کھول کر جڑوں کو گہرائی تک جانے میں مدد دیتا ہے جس کے نتیجے میں پودے قدرتی غذائی اجزاء جذب کر پاتے ہیں اور زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ اس محلول کا استعمال نہ صرف فصل کی پیداوار بڑھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ بیماریوں کے خلاف بھی قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔
محلول کے استعمال کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے بابر حسین بخاری نے بتایا کہ ایک ایکڑ زمین کے لیے پانچ لیٹر محلول پانی میں ملا کر ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بارانی علاقوں میں جہاں پانی کی کمی ہوتی ہے، وہاں اس محلول کو اسپرے کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ زمین میں نمی برقرار رہے اور فصل خشک سالی کے دوران بھی بہتر انداز میں نشوونما پا سکے۔
زرعی سائنسدان غلام عباس نے اس فارمولے کے تحت اگنے والی گندم کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ اس فصل میں روایتی گندم کے مقابلے میں نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مٹی میں بیماریوں کی موجودگی ایک عام مسئلہ ہوتا ہے، اور تکنیکی طور پر اسے "ہائی پی ایچ پرابلم" کہا جاتا ہے۔ لیکن اس فارمولے کے استعمال سے مٹی کی بیماریوں کا خاتمہ ہوا اور اس کی زرخیزی میں بہتری آئی، جس کا مثبت اثر فصل پر پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں یہ فارمولا استعمال نہیں کیا گیا وہاں گندم کی نشوونما معمول کے مطابق رہی، جبکہ جہاں فارمولا اپلائی کیا گیا وہاں پیداوار تین سے چار گنا زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ ماہرین نے کہا یہ فارمولہ خشک سالی کے مسائل کے حل کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے اور اگر حکومت اسے اپنی زرعی پالیسی میں شامل کرے تو اس سے زراعت میں انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔