زباں فہمی نمبر 236 ،مچھلی جَل کی رانی ہے

زباں فہمی نمبر 236 ،مچھلی جَل کی رانی ہے; تحریر:سہیل احمد صدیقی


سہیل احمد صدیقی February 16, 2025
زباں فہمی نمبر ، 234 چائے چاہیے…… تحریر: سہیل احمدصدیقی، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

’’میٹھے پانی کی زندہ مچھلی‘‘......یہ صدا میرے ذہن کے دریچوں میں آج بھی گونجتی اور بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے۔ بھاری بھرکم آواز اور ہفتے میں کئی بار سُن سُن کر یہ بول یاد ہوگئے۔ یہ لکڑی کی بنی ہوئی ٹرالی نُما چیز پر مچھلی بیچنے والے بنگالی کی صدا تھی جو کچھ ہی عرصے کے بعد ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی۔ آہ! مچھلی کا وطن، مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہوگیا ۔

آبی یا سمندری (نیز دریائی) مخلوقات میں مچھلی کی اپنی جداگانہ شناخت اور مقام ہے۔ یہ بجائے خود ایک مکمل موضوع ِ تحقیق ہے اور شاید ہی دنیا کی کوئی زبان ایسی ہوگی جس میں مچھلی سے متعلق ادب تخلیق نہ کیا گیا ہو۔ اردو شاعری میں مچھلی کے موضوع پر کہے گئے اشعار کا انتخاب پیش کرتا ہوں:

مچھلی پر غزلیہ اشعار

تکلیف قید زلف مرے دل سے پوچھیے

خالق کہیں پھنسائے نہ مچھلی کو جال میں

                        (لالہ مادھو رام جوہرؔ)

آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے

مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا

                        (اسماعیل میرٹھی)

مچھلی نے ڈھیل پائی ہے، لقمے پہ شاد ہے

صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی

            (اکبرؔ الہ آبادی)

حیران مت ہو تیرتی مچھلی کو دیکھ کر

پانی میں روشنی کو اُترتے ہوئے بھی دیکھ

                        (محمد علوی)

حقیقت سرخ مچھلی جانتی ہے

سمندر کیسا بوڑھا دیوتا ہے

                        (بشیر بدر)

ہے یاد اہل وطن یوں کہ ریگ ساحل پر

گری ہوئی کوئی مچھلی ہو جال سے باہر

                                    (امجد اسلام امجد)

آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں

وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے

                        (عدیمؔ ہاشمی)

یم بہ یم روح مچلتی ہوئی مچھلی کی طرح

دم بہ دم وقت کے ہاتھوں سے پھسلتا ہوا مَیں

                        (شاہد ذکی)

مچھلی پرنظمیہ اشعار

جب چھوٹتی ہے پانی سے

ہاتھ دھوتی ہے زندگانی سے

                        (الطاف حسین حالیؔ)

منو کی مچھلی نہ کشتی ٔ نوح اور یہ فضا

کہ قطرے قطرے میں طوفان بے قرار سا ہے

                                    (کیفیؔ اعظمی)

تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو

مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو

                                    (علامہ اقبال)

چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی

نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی

                        (علامہ اقبال)

دیکھ کے دسترخوان پہ مچھلی

پاؤں پٹختے بھاگے جائیں

            (احمد حاطب صدیقی)

ہمارے عہد کے ایک مشہور ومستند شاعر جناب رئیس فروغ نے ادبِ اطفال میں بھی خوب اضافہ کیا۔ اُن کی یہ نظم اپنی جگہ بہت منفرد ثابت ہوئی:

ایک گیت کئی کھیل

رئیس فروغ

آئے بادل چلی ہوا

جاگے پھول سجیں بیلیں

آج ہماری چھٹی ہے

چھٹی کے دن کیا کھیلیں

ہرا سمندر گوپی چندر

بول میری مچھلی کتنا پانی

اپنے دل میں اتنی ہمت

بیچ سمندر جتنا پانی

کوڑا جمال شاہی

پیچھے دیکھا مار کھائی

ہنستے بستے ہنسی خوشی

کھیلیں بہنیں کھیلیں بھائی

کھیل بھی ہے یہ ورزش بھی

کھیلے کودے جان بنائی

ہم پھولوں بھرے آتے ہیں

آتے ہیں آتے ہیں

تم کس کو لینے آتے ہو

آتے ہیں آتے ہیں

وہ ساتھی جو کھیل میں اول

جو ساتھی تعلیم میں آگے

اس کو ہم لے جائیں گے

اپنا ساتھی بنائیں گے

ہم تو سب ہی آگے ہیں

ہم تو سب ہی اول ہیں

تم پھولوں بھرے جاتے ہو

جاتے ہو جاتے ہو

آگے بڑھنے سے پہلے یاد آیا کہ گزشتہ ایک دو عشروں سے ٹیلیوژن کے توسط سے، بچوں کے لیے لکھی گئی ایک نظم بہت مقبول ہوئی (جو بہرحال کچھ کچھ اصلاح طلب بھی ہے)۔ اُس کا متن بھی بطور ِحوالہ پیش ِ خدمت ہے:

’’مچھلی جل کی رانی ‘‘

مچھلی جل کی رانی ہے

 جیون اس کا پانی ہے

 ہاتھ لگاؤ تو ڈر جائے گی

پانی سے نکالا تو مر جائے گی

پانی میں ڈالو گے تو تیر جائے گی

اس نظم کے لکھنے والے کا نام معلوم نہ ہوسکا۔ اسی اثناء میں کراچی سے تعلق رکھنے والی ہماری ایک خُرد معاصر نیناعادل صاحبہ کی یہ نظم فیس بک کی زینت بنی:

’’ساگر جل کا پنچھی‘‘

مچھلی جھیل کی رانی ہے اور رانی گھر کی ملکہ

ملک میں رانی کے چلتا ہے راج مگر سلطاں کا

سلطانوں کے سلطاں کے ہیں دستر خوان کے چرچے

دستر خوان کے بھیتر دریا، نہر، سمندر، جھیلیں

اوپر اوپر بھات سجا ہے کوے اڑ اڑ أئیں

بھان متی نے کنبہ جوڑا بھانڈوں بھانگ ملائے۔۔۔

ہسلا، پلا، سول، رہو سب خستہ لال سنہری

روغن مسکہ، مدرا شربت، ٹکیاں چاندی جیسی

تھالی تھالی بٹتا جائے

ساگر جل کا پنچھی

بھوجن کرکے ناچیں گائیں سائل اور درباری

بھیڑ میں اک اک جھوٹا برتن ہاہاکار مچائے

پیٹ بھروں کو چلا کھڑی میں بد ہضمی ہو جائے

………………

سندھو اور پدما پر تڑکے مچھوے جال بچھائیں

کیا جانیں یہ بھید شکاری ڈوریں کون ہلائے

اک پھندے میں لگی ٹھکانے جیون بھر کی بدبو

راش کا جھگڑا ختم ہوا تو

رنگ دکھائے چاقو

آٹا، سرکہ، نمک لگا کر

ماس کے ٹکڑے تل کے

جال کی ستھری ڈوری میں اپنی کم بختی بُن کے

ناؤ کا خالی پن دیکھیں گے

مچھوے بھوجن کرکے

………………

جنّاتی بیڑے

اور

 بجرے موج موج پر ڈولیں

کالا کالا دھواں اٹھے اور ساگر آنسو رولیں

گدلا تیل اور گدلا پانی

کھجلائے پھُل بہری

سڑنا پیٹ سے ہوئی شروع جو آدم زاد ،وہ مچھلی

مچھلی سے متعلق محاورے اور کہاوتیں

ہندی میں کہاوت ہے: بِن پانی/جل کے مچھلی تڑپَت ہے دن رَین

دِیا جَرت ہے رَین کو جِیا جَلَت ہے دن رَین

یعنی مچھلی بغیر پانی کے، دن رات تڑپتی ہے، چراغ رات کو جلتا ہے، مگر دل تو دن رات جلتا ہے۔ اردومیں بھی 'پانی کے بغیر مچھلی' مشہور محاورہ ہے۔ (جیساکہ ابھی اوپر ذکر ہوا کہ) بچوں کی مشہور نظم ہے، ''مچھلی جَل کی رانی ہے، جیون اُس کا پانی ہے، ہاتھ لگاؤ ڈرجائے گی، باہر نکالو، مرجائے گی''۔ مگر روسی زبان کا یہ محاورہ مچھلی کے بارے میں، مختلف ہی معلوم ہوا: ''Kak ryba, vytashchennaya iz  vody''(Like a fish out of water)۔ اس کے استعمالات میں جابجا کسی کی انفرادیت، اختصاص، نیا پن۔یا۔ نامانوسیت مراد لی جاتی ہے۔ (زباں فہمی:’’اردو اور دیگر زبانوں کے مشترک محاورات و ضرب الامثال، حصہ آخر‘‘ از سہیل احمد صدیقی، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین مؤرخہ 02اکتوبر 2022ء)

’’مَچھْلی‘‘ پر مشتمل اردو محاورے اور کہاوتیں

 مَچھلی کھانا: ایک قسم کی نیاز، عورتیں پکے ہوئے چاولوں کے طباق پر مچھلی کے کباب رکھ کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نیاز دلواتیں اور اسے کھاتی اور تقسیم کرتی ہیں۔

مچھلی تو نہیں کہ سڑجائے گی (کہاوت): مراد یہ کہ ایسی بھی کیا جلدی (جلدبازی) کہ گویا کوئی کام فوری نہ کرنے سے بگڑجائے گا۔

مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سِکھائے (کہاوت): مراد یہ کہ ہر شخص اپنے خاندانی پیشے یا کام سے بخوبی آشنا اور اُس کا ماہر ہوتا ہے۔

مَچھْلی کی طَرح تَڑَپنا: ازحد تڑپنا، بے حد بیقرار ہونا، بے چین ہونا، لوٹا لوٹا پھرنا، کمال بے قرار اور بیکل ہونا، (محصنات)دن اور رات چین نہ تھا مچھلی کی طرح تڑپتے تھے۔

مَچھلی لَگانا: (تیراکی) اونچی جگہ سے پانی میں غوطہ لگانے کا ایک انداز جس میں دونوں ہاتھ جوڑ کر سر کے بل پانی میں کودتے ہیں۔

مَچھْلی لَگنا: بنسی میں مچھلی پھنسنا، مچھلی شکار ہونا۔

مَچھلی مَچھلی کھیلنا: مضطربانہ حرکتیں کرنا۔

مچھلیاں پڑنا (فعل لازم): ڈنڑوں [Pushups] پر تیّاری کے سبب عُضلات اُبھرنے کو کہتے ہیں، نیز کسرت کے باعث رانوں یا بازوؤں کا پھِرجانا (آج کل کی زبان میں چڑھ جانا)

مچھلی کو ویسے تو اُردو میں ماہی بھی کہتے ہیں مگر بعض علاقوں کی مخصوص بولی ٹھولی (Slang) میں ’مچھّی‘ بھی کہا جاتا ہے، جبکہ اس کے لیے مِین، حُوت (عربی الاصل نام) اور جل توری بھی لغت میں شامل ہیں۔ بقول صاحبِ فرہنگ ِ آصفیہ بعض مقامات پر مچھلی کو چوہا بھی کہتے ہیں۔ بڑی مچھلی کو فقط ’مچھ ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کے عُضلے یا بازو کے گوشت /ڈولے کو اور جانور کی پنڈلی کو بھی مچھلی کہا جاتا ہے۔ ہتھیلی کے اندرونی گوشت کے لیے بھی مچھلی کا لفظ مستعمل رہا ہے۔ کانوں میں پہنے جانے والا ایک طِلائی زیور، اسی جانور کی شکل کا ہونے کے سبب، ’مچھلی‘ کہلاتا ہے۔

مچھلی کی مخصوص بُو کو ’بِساند‘ اور ’مچھراند‘ کہتے ہیں، جبکہ مچھیرے کے لیے،’مچھلہارا‘ بھی بولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اُسے مچھوا، ماہی فروش، ماہی گِیر، دِھنیو اور جھِنیو بھی کہا جاتا ہے۔ ایک حیران کُن نام ’مچھ رنگا‘ ہے جو ایک ماہی (مچھلی) خور پرندہ ہے۔ اسے ’رام چڑیا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس کا نام Kingfisher بہت مشہور ہے۔ ہرچند کہ اِس کا کوئی تعلق بگلے کے خاندان سے نہیں، مگر یہ عادت مشترک ہے کہ بگلے کے خاندان میں بھی ماہی (مچھلی) خوری عام ہے۔

محاورے ہی میں نہیں، مشاہدے سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہتی، مگر پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری اور جامعہ پشاور کی مشترکہ ٹیم نے2013ء میں، نوشہر ہ کے نباتی باغ [Botanical garden] کی سالانہ بھل صفائی میں ایک ایسی منفرد مچھلی دریافت کی ہے جو خشک موسم میں زمین کی خشک تہہ پر چلی جاتی ہیں اور وہاں آکسیجن، گلپھڑوں کے بجائے دیگر کسی ذریعے سے حاصل کرتی ہے۔

ہمارے یہاں کھانے میں پاپلیٹ، سُرمئی، رہو/روہو، ہِیرا، دھوتر، مُشکا، پَلّا اور ڈابرا مچھلی بہت پسند کی جاتی ہے۔ یہاں ایک ’نامعلوم‘ مضمون نگار کی تحریر سے اقتباس پیش کرتا ہوں:

’’پلّامچھلی: یہ ایک ایسی نرالی مچھلی ہے جو رہتی تو سمندروں کے نمکین پانیوں میں ہے مگر بچّے دینے دریائے سندھ کے میٹھے پانی میں آتی ہے کیونکہ اس کے انڈے سمندر کے کھارے پانی میں زندہ نہیں رہتے اس لیے، افزائش نسل اس کی میٹھے پانی میں ہوتی ہے۔ یہ انتہائی نازک اور بڑی باہمت مچھلی ہے۔ نازک ایسی کہ اگر اسے کوئی انسانی ہاتھ چھو بھی لے تو یہ دم توڑ دیتی ہے۔ انسانی ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے اگر مچھلیوں کو پکڑنے والا ماہی گیروں کا جالا اس سے ٹکرا کر گزر بھی جائے تو اِس کی نزاکت کو یہ بھی برداشت نہیں، اسی وقت جان دے دیتی ہے۔

ایک پودے کا آپ نے نام سُنا ہوگا چھوئی موئی کا پودا، اس پودے کے بارے میں مشہور ہے ادھر اس کو کسی نے چھوا اور ادھر وہ مُرجھا گیا اور اسی لئے اس کا نام چُھوئی مُوئی پڑگیا۔ پلّا مچھلی بھی بس سمجھ لیجئے نزاکت کے حساب سے چُھوئی مُوئی ہے اور ہمت کی بات یہ، کہ وہ  بچے (انڈے) دینے کے لیے، نیچے سمندر (بحیرہ عرب) سے اُوپر دریا تک پانی کی مخالف سمت میں مُسلسل کئی مہینے بہتے ہوئے اپنا راستہ بناتی ہے اور ڈیڑھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کرکے دریائے سندھ کے میٹھے تازہ پانیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور تب وہاں پہنچ کر انڈے دیتی ہے اور انتہائی مشقت اُٹھا کر اپنی نسل کے لئے آرام اور راحت کا سامان فراہم کرتی ہے اور پھر اَنڈے دے کر اگلے سال تک کے لیے، واپس سمندر کی طرف لوٹ جاتی ہے‘‘۔ ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر احمد سہیل کی تحقیق کے مطابق، یہ مچھلی بہت ڈرپوک بھی ہوتی ہے۔ پلا مچھلی کو بنگلہ دیش اور بھارتی صوبے مغربی بنگال میں ’ہِلسا‘ (ilish) کہا جاتا ہے اور اُسے سرکاری و قومی مچھلی کا درجہ حاصل ہے۔ بنگلہ دیش اس مچھلی کی عالمی پیداوار میں 97 فیصد کا حصے دار ہے۔ علاوہ اَزیں اُڑیسہ، تری پورہ اور آسام میں بھی بہت مقبول ہے جبکہ مختلف ممالک میں اسے دیگر ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

دنیا کی انتہائی ذہین مخلوقات میں انسان کے بعد، مکڑی، بن مانس اور ڈولفن شامل ہیں۔ اب ان میں کم یا زیادہ کی درجہ بندی خاکسار نہیں کرسکتا۔ ڈولفن اپنی انسان دوست اور انسان نُما خصوصیات کے سبب بہت پسند کی جاتی ہے، جبکہ دریائے سندھ میں اُس کی ایک نابینا قسم ’انڈس ڈولفن‘ پائی جاتی ہے۔

حیدرآباد، سندھ میں میٹھے پانی یا دریا کی مچھلیوں کا کاروبار بھی خوب چلتا ہے۔ یہاں ایک انتہائی عجیب بات یہ عرض کروں کہ آنلائن دستیاب ایک تحقیق کے مطابق، امریکا میں پانچ سو کے لگ بھگ ایسی مچھلیوں کی خوراک کا تجزیہ کیا گیا تو وہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مُضرّ ثابت ہوئی۔ بہرحال اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس وجہ سے میٹھے پانی کی کوئی بھی مچھلی نہ کھائی جائے، کیونکہ ایسی تحقیق کل کو غلط بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

اس ساری گفتگو سے قطع ِ نظر انتہائی دل چسپ اور ناقابل ِیقین انکشاف یہ ہے کہ ’شاہ ِ ماہیان‘ یعنی مچھلیوں کا بادشاہ کسی لحیم شحیم مچھلی کو نہیں کہا جاتا، بلکہ یہ لقب سالمن (Salmon)کو دیا گیا ہے۔

آخرمیں عرض کرتا چلوں کہ دینی ومذہبی روایات اور حکایات میں مچھلی کا ذکر بہت ملتا ہے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعہ قربانی میں بھی اس کا ذکر ہے، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں رہنا اور پھر ہزاروں سال بعد ایسا ہی ایک اور واقعہ پیش آنا بھی صداقت ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے عہد ِمبارک میں ایک سریّہ میں صحابہ کرامؓ نے ایک بہت بڑی مچھلی کا گوشت کھایا تھا۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ مچھلی کے سِواء کوئی آبی جانور حلال نہیں۔ اس بابت عوام ہی نہیں، علماء بھی مغالطے کا شکار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں