
’’کیا یار اتنے پیسے خرچ کر کے میچ دیکھنے آئے اور یہ پھر ہار گئے‘‘ ٹرائنگولر سیریز فائنل کے بعد میں نے واپس جاتے ہوئے 2 لڑکوں کو یہ باتیں کرتے سنا، دیگر بھی ٹیم کی کارکردگی پر مایوس نظر آ رہے تھے۔
اس سے 2 دن پہلے ہی پاکستان نے جنوبی افریقہ کیخلاف ریکارڈ ہدف عبور کیا تھا، جس کے بعد ٹیم سے وابستہ توقعات بھی بڑھ گئی تھیں لیکن نیوزی لینڈ کیخلاف مسلسل دوسری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پی سی بی نے 12 یا 17جتنے بھی ارب روپے خرچ کیے لیکن اسٹیڈیمز ضرور بنا دیے، لاہور کے بعد کراچی کا وینیو بھی تیار ہو چکا لیکن بدقسمتی سے ٹیم تیار نہیں ہو سکی، محسن اسپیڈ یہاں کام نہیں آ سکتی کیونکہ فیلڈ میں تو کھلاڑیوں کو ہی پرفارم کرنا ہوتا ہے۔
چیمپئنز ٹرافی کا پہلا میچ اب 2 دن دور ہے اور ہم اب تک اپنا کمبی نیشن ہی تیار نہیں کرسکے، پہلے دن سے سلیکشن پر جو تنقید ہوئی ٹرائنگولر سیریز میں وہ درست ثابت ہوئی، بطور اوپنر بابر اعظم پرفارم نہیں کر سکے لیکن ہمارے پاس فخرزمان کا ساتھ دینے کیلیے کوئی ریگولر اوپنر موجود ہی نہیں ہے۔
سعود شکیل ٹیسٹ پلیئر ہیں لیکن ہر آئی سی سی ایونٹ میں نجانے کیسے کھیلنے لگتے ہیں، واحد اسپیشلسٹ اسپنر ابرار احمد بھی بے اثر ثابت ہوئے ہیں، فہیم اشرف اورخوشدل شاہ کی کارکردگی سے واضح ہو گیا کہ ان پر تنقید غلط نہ تھی۔
سابق کرکٹرز اور میڈیا شور مچاتے رہے لیکن سلیکٹرز کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، چیئرمین پی سی بی کے مشورے کو بھی نظر انداز کر دیا گیا،اب تبدیلی کا وقت بھی گذر چکا، حقائق دیکھیں تو ٹیم سے زیادہ توقعات نہیں وابستہ کی جا سکتیں لیکن گرین شرٹس ہمیشہ سے ہی ناقابل پیشگوئی ثابت ہوئے ہیں کیا پتا چیمپئنز ٹرافی میں کمال کر جائیں۔
بابر اعظم آغاز تو اچھا لیتے ہیں لیکن پھر آؤٹ ہو جاتے ہیں، شاید اب ان کی جانب سے بڑی اننگز سامنے آ جائے، فخرزمان کوئی کمال کر جائیں یا محمد رضوان اور سلمان علی آغا کی جانب سے پروٹیز سے میچ جیسی پرفارمنس پھر سامنے آ جائے،شاہین پھر میچ ونر کے روپ میں سامنے آئیں یا نسیم اور حارث حریف بیٹنگ کو اڑا دیں، اب تو یہی امیدیں لگائی جا سکتی ہیں۔
پی سی بی کی موجودہ انتظامیہ نے بھی سابقہ مینجمنٹ کی طرح کئی سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو ملازمتوں پر رکھ لیا،کئی کو ریکارڈ تنخواہیں بھی مل رہی ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا، چیمپئنز کپ کا کون سا کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بن کر پرفارم کر رہا ہے؟ عبدالرزاق کے اسٹرائیک کیمپ سے کس نے چھکے لگانا سیکھا؟
پہلے تو بورڈ حکام میڈیا مینجمنٹ کیلیے سابق کرکٹرز کو نوکریاں دیتے تھے، چیک ملنے پر وہ کسی کے خلاف بات نہیں کرتے، اب تو کسی صحافی یا سابق کرکٹر کی جرات نہیں کہ محسن نقوی کے بارے میں کچھ کہے، بڑے بڑے طرم خان بھی ان سے ڈرتے ہیں، ایسے میں بورڈ کو چاہیے کہ صرف ان سابق کھلاڑیوں کو ملازمت پر رکھے جو واقعی ضروری ہوں، دیگر کو مشاورت کی حد تک محدود رکھیں، اس سے بچت بھی ہوگی، ویسے ہی اسٹیڈیمز کی تعمیر نے خزانہ کافی حد تک خالی کر دیا ہے۔
طویل عرصے بعد ملک میں چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں بڑا ایونٹ ہو رہا ہے، اس میں فتح بیحد ضروری ہے، آپ چاند پر بھی کرکٹ اسٹیڈیم بنا دیں مگر کسی بھی کرکٹ بورڈ کی کارکردگی کو ٹیم کے کھیل سے ہی جانچا جاتا ہے۔
آپ دیکھ لیں جب گرین شرٹس ہارے تو لوگ اسٹیڈیمز کی خوبصورتی کی باتیں بھول کر شکستوں کو ڈسکس کرنے لگے، اب پہلا میچ ہی نیوزی لینڈ سے ہونا ہے جس سے لگاتار 2 ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، پھر دبئی میں بھارت سے مقابلہ کرنا ہے، ہمارے کھلاڑی پہلے ہی نفسیاتی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔
آپ سلمان علی آغا کا انٹرویو دیکھ لیں جو ابھی سے ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ ’’بھارت سے ہار بھی گئے تو مسئلہ نہیں ہم چیمپئنز ٹرافی جیتنا چاہتے ہیں‘‘ سلمان کا انٹرویو دوسرے سلمان (بٹ) نے لیا، سمجھ نہیں آتا پی سی بی کیوں ان پر اتنا مہربان ہے، سلمان بٹ کو جتنا کرکٹرز سے دور رکھیں وہ اچھا ہے اور یہاں پوڈ کاسٹ کا میزبان بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان کیلیے بھارتی ٹیم کو شکست دینا ضروری ہے، اس نے ہمارے گراؤنڈز، تیاریوں کو لے کر خوب منفی خبریں پھیلائیں، سب یہاں آ رہے ہیں لیکن اپنے میچز دبئی میں منتقل کرا لیے،ہماری ٹیم کو اسے ہرا کر منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔
جسپریت بمرا ویسے ہی نہیں ہیں لہذا فتح کا اس سے اچھا موقع کہاں ملے گا، آپ یہ دیکھیں کہ کل افتتاحی تقریب لاہور میں ہوئی جس میں کوئی کپتان یا موجودہ کھلاڑی موجود نہیں تھا، کپتانوں کی روایتی پریس کانفرنس یا فوٹو شوٹ بھی نہیں ہو سکا، اس سب کا ذمہ دار بھارتی بورڈ ہی ہے جس نے اپنی ٹیم کو نہیں بھیجا۔
ٹرائنگولر سیریز کے دوران کراچی میں کم شائقین اسٹیڈیم آئے، حالانکہ خبریں یہی چل رہی تھیں کہ تمام ٹکٹس فروخت ہوگئے، پی سی بی کو اس حوالے سے انکوائری کرنا پڑے گی کہ جب تمام ٹکٹس بک جاتے ہیں تو لوگ آتے کیوں نہیں ہیں؟ گوکہ اسٹیڈیم کے باہر بڑے بورڈز وغیرہ لگے ہیں لیکن چیمپئنز ٹرافی کی شہر میں ویسی برینڈنگ نہیں ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔
میں جب کبھی لاہور میں کوئی میچ دیکھنے جاؤں تو وہاں میلے جیسا سماں ہوتا ہے کراچی میں اس کا فقدان ہے، امید ہے چیمپئنز ٹرافی میں شائقین اسٹیڈیم کو مکمل بھر دیں گے، اس کیلیے ٹیم کی اچھی کارکردگی بھی ضروری ہے۔
نیوزی لینڈ سے شکست پر تمام تر ملبہ محمدرضوان پر ڈال دیا گیا کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کیوں کی، حالانکہ یہ صرف ان کا فیصلہ نہیں تھا، عاقب جاوید و دیگر بھی برابر کے ذمہ دار تھے، ہم اب بھی بچوں کی طرح کیچز ڈراپ کر رہے ہیں، ریویو لینے کے معاملے میں اتنے اناڑی ہیں کہ کسی سے کوچنگ لے کر سیکھنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔
ٹیم کو صائم ایوب کی کمی محسوس ہو رہی ہے، وہ علاج کیلیے انگلینڈ گئے ہوئے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے چھٹیاں منانے ولایت گئے ہیں، انھیں محتاط رہنا چاہیے آج کل ’’ہنی ٹریپ‘‘ وغیرہ عام ہیں، جلد فٹ ہو کر کرکٹ میں واپسی کا سوچیں سیرو تفریح کے مواقع تو زندگی بھر ملتے رہیں گے۔
خیر اب چیمپئنز ٹرافی کاآغاز ہونے والا ہے، سلیکشن وغیرہ کی غلطیاں بھول کر ہم سب کو اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے، کیا پتا کنگ کچھ کر لے یا شاہین کی اونچی اڑان شروع ہو جائے،امید پر دنیا قائم ہے ہمیں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔