ISLAMABAD:
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں فوج بلانے سے متعلق آرٹیکل 245 کا نفاذ سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ دارالحکومت کی سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا تاہم سیاستدانوں کی جانب سے ہر چیز کو متنازع بنایا جارہا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دینا درست نہیں کہ تحریک انصاف کے مارچ کی وجہ سے اسلام آباد میں فوج طلب کی جارہی ہے بلکہ دارالحکومت میں دہشتگردی کے خدشے کے پیش نظر فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ ایئرپورٹ سمیت دیگرحساس مقامات کو دہشتگردوں کی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 245 باہر سے نہیں لایا گیا بلکہ آئین کا حصہ ہے، حکومت نے اسلام آباد میں فوج بلانے کےلیے تمام قانونی اور آئینی پہلوؤں کا جائزہ لیا جس کے بعد حکومت، فوج اور چند اداروں کی جانب سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ جی ایچ کیو میں ہوا اور اسی فیصلے کی روشنی میں نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کو اندرونی اور بیرونی تحفظ کی ضرورت ہے، حساس وقت میں فوج کو متنازع بنایا جارہا ہے، تنقید کرنے والوں نے اپنے دورمیں بھی فوج کو معاونت کیلیے بلایا تھا، 2007 سے اب تک مختلف مقاصد کیلیے 11 مرتبہ فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت بلوایا گیا تاہم اس حوالے سے حکومت نے صاف اور شفاف اقدام اٹھایا ہے۔ انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وکلا کے لانگ مارچ کے دوران فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت بلایا گیا جبکہ فوج کو الیکشن اور ضمنی انتخابات، دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے بھی بلایا گیا اور کچھ عرصے قبل بھی کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تصدیق کیلیے فوج کو بلایا گیا،فوج کو بلانے کا مقصد یہ نہیں کہ فوج کو علاقہ دے دیا گیا،ہرچیز پرسیاست کرنا مناسب طرز عمل نہیں، بعض سیاستدان سمجھتے ہیں روز بیان دینے سے وہ بڑے سیاستدان بن جائیں گے اور بیان نہ دیں تو بعض سیاستدانوں کا کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ کوئی جماعت اگر جلسہ کرتی ہے تو مقامی انتظامیہ سے اجازت لینا پڑتی ہے تاہم تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اب تک کوئی درخواست نہیں دی، درخواست پہلے مقامی انتظامیہ اور بعد میں وزارت داخلہ کے سامنے غور کے لئے آئے گی، پی ٹی آئی کی جلسہ کرنے کی درخواست آئے گی تو غور کریں گے۔ پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی سعودی عرب سے سے واپسی پر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے رابطہ کریں گے۔