آئی ڈی پیز کا پیچیدہ مسئلہ
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے پہلے وہاں
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے پہلے وہاں کے شہریوں کو ممکنہ نقصان سے بچانے کے لیے ترک سکونت کے لیے آمادہ کیا گیا، شمالی وزیرستان سے آنے والے تقریباً 10 لاکھ آئی ڈی پیز کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں عارضی رہائشیں اور ضروریات زندگی فراہم کی جا رہی ہیں۔
اس آپریشن سے پہلے ممکنہ جانی نقصان سے بچانے کے لیے سویلین آبادی کو وہاں سے ہٹانا پڑا، دس لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں آگئے۔ آئی ڈی پیز کا بڑا حصہ بنوں کے کیمپوں میں رہائش پذیر ہے۔ یہ آئی ڈی پیز کی ایسی بڑی قربانی ہے جس کا اعتراف پاکستان کے عوام سیاسی جماعتیں اور حکومت و فوج کر رہی ہے اور ان کی مدد کے لیے پاکستانی عوام اور حکومت مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن نقل آبادی کے مرحلے میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ پرامن شہریوں کے ہجوم میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہو رہی ہے کیونکہ ضرب عضب سے بچنے کے لیے ان کا شمالی وزیرستان سے نکلنا ضروری تھا۔
اندازہ ہے کہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد آئی ڈی پیز کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آگئی ہے۔ شمالی علاقہ جات کے علاوہ آئی ڈی پیز کو ملک کے دوسرے شہروں میں بھی بھیجا جا رہا ہے جن میں سندھ بھی شامل ہے۔ سندھ کی حکومت بھی اخلاقی تقاضوں کے مطابق آئی ڈی پیز کا خیرمقدم کر رہی ہے۔ ماضی میں ایک جامع منصوبے کے تحت دہشت گرد بڑی تعداد میں کراچی آچکے ہیں، کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں دہشت گرد موجود نہ ہوں، خاص طور پر کراچی کے مضافاتی علاقے دہشت گردوں کے اڈوں میں بدل گئے ہیں۔
دہشت گرد ان علاقوں میں صرف پناہ ہی نہیں لے رہے ہیں بلکہ ان علاقوں میں بیٹھ کر شہر میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کر رہے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ جیسے اہم اور حساس ترین ہوائی اڈے پر حملے سے ان کی طاقت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے ملک کے دوسرے علاقوں سے حصول روزگار کے لیے پہلے ہی لاکھوں لوگ کراچی آچکے ہیں۔ کراچی میں صرف پختونخوا سے آنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ بتائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ جرائم پیشہ گروہوں کی بڑی تعداد بھی کراچی آگئی ہے اور کراچی میں جرائم کی بھرمار ہوگئی ہے۔ دہشت گرد بھی اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے بینک ڈکیتیوں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کر رہے ہیں، پکڑے جانے والے کالعدم تنظیموں کے کارکن اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کراچی سے لوٹی ہوئی بھاری رقوم شمالی وزیر ستان کی دہشت گرد تنظیموں کو بھیجتے ہیں، ان جرائم کی وجہ سے کراچی کے امن پسند شہریوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے اور ماضی کا عروس البلاد اب جرائم اور دہشت گردی کا اکھاڑہ بن گیا ہے۔
دہشت گردوں کی کمائی کا دوسرا بڑا ذریعہ منشیات اور اسلحے کا کاروبار ہے، کراچی کے کئی علاقے ان کاروبار کے اڈوں میں بدل گئے ہیں، سہراب گوٹھ ایک ایسا مرکز بن گیا ہے جہاں ہر قسم کا ہتھیار فروخت بھی ہوتا ہے اور کرائے پر بھی ملتا ہے۔ آئی ڈی پیز کے بھیس میں بڑی تعداد میں دہشت گرد کراچی آسکتے ہیں۔ اس سنگین خطرے کے پیش نظر کراچی کے شہری آئی ڈی پیز کی کراچی آمد کے خلاف ہو رہے ہیں۔ سندھی قوم پرستوں کی تنظیم سندھ بچاؤ کمیٹی کی جانب سے آئی ڈی پیز کی سندھ میں آمد کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔
کراچی کی کئی دوسرے تنظیموں کی طرف سے بھی کراچی میں آئی ڈی پیز کی آمد کے خلاف تحریک کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ آئی ڈی پیز کے بھیس میں دہشت گردوں کی کراچی آمد کا خطرہ ہے۔ اگر آئی ڈی پیز کو آزادی کے ساتھ کراچی آنے کی چھوٹ دے دی گئی تو دہشت گرد بڑی تعداد میں کراچی آسکتے ہیں جہاں پہلے ہی سے ہزاروں کی تعداد میں دہشت گرد کراچی کے ہر علاقے میں موجود ہیں۔
اس حوالے سے کراچی اور سندھ کے شہری یہ خطرہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ دوسرے صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں کراچی آنے کی وجہ سے کراچی میں آبادی کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کا نسلی تعلق پختون قومیت سے ہے اور پختون پہلے ہی سے کراچی میں پچاس لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں، جن میں اکثریت ان پرامن پختونوں کی ہے جو روزگار کے لیے کراچی میں آباد ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں دہشت گرد مارکیٹ سے زیادہ رقم دے کر مکانات خرید رہے ہیں اور مختلف کاروبار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ خدشات درست ہیں تو کراچی ایک سنگین صورت حال کی طرف بڑھ رہا ہے، جس پر اہل کراچی کی تشویش بجا بھی ہے منطقی بھی۔
سندھی قوم پرستوں کی طرف سے آئی ڈی پیز کی سندھ میں آمد کے خلاف مظاہرے ایک منطقی اقدام ہے لیکن باہر سے آنے والوں کا رخ چونکہ کراچی کی طرف ہے لہٰذا دانشورانہ حلقوں میں اس حوالے سے سخت تشویش پائی جا رہی ہے اور یہ حلقے سمجھ رہے ہیں کہ آئی ڈی پیز کے بھیس میں دہشت گردوں کی سندھ خصوصاً کراچی آمد کے خلاف مزاحمت میں سندھ دیہی کے ساتھ سندھ شہری کی شرکت ضروری ہی نہیں ناگزیر بھی ہے اور اس احتیاطی تحریک کی منصوبہ بندی سندھ دیہی اور سندھ شہری کو مل کر کرنا چاہیے، جس میں کراچی میں رہنے والے امن پسند پختونوں کی شرکت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے اے این پی کو بھی اس تحریک میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ اے این پی کراچی میں پختون برادری کی نمایندگی کرتی ہے اور کراچی میں امن کی خواہاں ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اس حوالے سے ہمیشہ نااہلی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہیں، افغان مہاجرین کی آمد کے وقت جس نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان مہاجرین سارے پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں بس گئے اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھاری رشوت دے کر بنانے میں کامیاب ہوگئے، اب وہ اس ملک کے باضابطہ شہری ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک بھی آزادی سے آتے جاتے ہیں۔
ایران میں بھی لاکھوں افغان مہاجرین آئے لیکن ایرانی حکومت نے انھیں علیحدہ کیمپوں میں رہائشیں فراہم کیں، انھیں ایرانی شہریت حاصل کرنے کے مواقع نہیں دیے اس لیے کہ ایرانی شہریت حاصل کرنے سے ایرانیوں اور افغان مہاجرین میں کشیدگی اور تصادم کے خدشات پیدا ہوسکتے تھے۔ اور یہ امکان اس لیے شدید ہوسکتا ہے کہ ایرانی اور افغانی کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے، جہاں کلچر میں اتنا بڑا فرق ہو وہاں تصادم ناگزیر ہوجاتا ہے، ایرانی حکومت نے اس قسم کے امکانات سے بچنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ ضروری تھے۔ لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ ایسی سیاسی بصیرت سے عاری ہے۔
آئی ڈی پیز نے پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے جو قربانیاں دی ہیں اس کا اعتراف ہر پاکستانی کر رہا ہے اور ان کی ہر طرح مدد بھی کی جا رہی ہے کیونکہ ان سے ہمارا قومی اور دینی رشتہ ہے لیکن ان کی آڑ میں دہشت گرد پاکستانی شہروں خصوصاً کراچی میں گھسنے کی جو کوشش کر رہے ہیں اس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ آئی ڈی پیز تو آپریشن کے کامیابی سے خاتمے کے بعد شمالی وزیر ستان واپس چلے جائیں گے لیکن دہشت گرد ہرگز واپس نہیں جائیں گے کیونکہ وہ پاکستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس لیے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے دیہی شہری کی تفریق کے بغیر سارے شہریوں کو متحد ہونا پڑے گا اور کراچی میں جو لوگ اس اتحاد کی کوششیں کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
اس آپریشن سے پہلے ممکنہ جانی نقصان سے بچانے کے لیے سویلین آبادی کو وہاں سے ہٹانا پڑا، دس لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں آگئے۔ آئی ڈی پیز کا بڑا حصہ بنوں کے کیمپوں میں رہائش پذیر ہے۔ یہ آئی ڈی پیز کی ایسی بڑی قربانی ہے جس کا اعتراف پاکستان کے عوام سیاسی جماعتیں اور حکومت و فوج کر رہی ہے اور ان کی مدد کے لیے پاکستانی عوام اور حکومت مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن نقل آبادی کے مرحلے میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ پرامن شہریوں کے ہجوم میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہو رہی ہے کیونکہ ضرب عضب سے بچنے کے لیے ان کا شمالی وزیرستان سے نکلنا ضروری تھا۔
اندازہ ہے کہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد آئی ڈی پیز کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آگئی ہے۔ شمالی علاقہ جات کے علاوہ آئی ڈی پیز کو ملک کے دوسرے شہروں میں بھی بھیجا جا رہا ہے جن میں سندھ بھی شامل ہے۔ سندھ کی حکومت بھی اخلاقی تقاضوں کے مطابق آئی ڈی پیز کا خیرمقدم کر رہی ہے۔ ماضی میں ایک جامع منصوبے کے تحت دہشت گرد بڑی تعداد میں کراچی آچکے ہیں، کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں دہشت گرد موجود نہ ہوں، خاص طور پر کراچی کے مضافاتی علاقے دہشت گردوں کے اڈوں میں بدل گئے ہیں۔
دہشت گرد ان علاقوں میں صرف پناہ ہی نہیں لے رہے ہیں بلکہ ان علاقوں میں بیٹھ کر شہر میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کر رہے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ جیسے اہم اور حساس ترین ہوائی اڈے پر حملے سے ان کی طاقت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے ملک کے دوسرے علاقوں سے حصول روزگار کے لیے پہلے ہی لاکھوں لوگ کراچی آچکے ہیں۔ کراچی میں صرف پختونخوا سے آنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ بتائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ جرائم پیشہ گروہوں کی بڑی تعداد بھی کراچی آگئی ہے اور کراچی میں جرائم کی بھرمار ہوگئی ہے۔ دہشت گرد بھی اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے بینک ڈکیتیوں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کر رہے ہیں، پکڑے جانے والے کالعدم تنظیموں کے کارکن اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کراچی سے لوٹی ہوئی بھاری رقوم شمالی وزیر ستان کی دہشت گرد تنظیموں کو بھیجتے ہیں، ان جرائم کی وجہ سے کراچی کے امن پسند شہریوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے اور ماضی کا عروس البلاد اب جرائم اور دہشت گردی کا اکھاڑہ بن گیا ہے۔
دہشت گردوں کی کمائی کا دوسرا بڑا ذریعہ منشیات اور اسلحے کا کاروبار ہے، کراچی کے کئی علاقے ان کاروبار کے اڈوں میں بدل گئے ہیں، سہراب گوٹھ ایک ایسا مرکز بن گیا ہے جہاں ہر قسم کا ہتھیار فروخت بھی ہوتا ہے اور کرائے پر بھی ملتا ہے۔ آئی ڈی پیز کے بھیس میں بڑی تعداد میں دہشت گرد کراچی آسکتے ہیں۔ اس سنگین خطرے کے پیش نظر کراچی کے شہری آئی ڈی پیز کی کراچی آمد کے خلاف ہو رہے ہیں۔ سندھی قوم پرستوں کی تنظیم سندھ بچاؤ کمیٹی کی جانب سے آئی ڈی پیز کی سندھ میں آمد کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔
کراچی کی کئی دوسرے تنظیموں کی طرف سے بھی کراچی میں آئی ڈی پیز کی آمد کے خلاف تحریک کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ آئی ڈی پیز کے بھیس میں دہشت گردوں کی کراچی آمد کا خطرہ ہے۔ اگر آئی ڈی پیز کو آزادی کے ساتھ کراچی آنے کی چھوٹ دے دی گئی تو دہشت گرد بڑی تعداد میں کراچی آسکتے ہیں جہاں پہلے ہی سے ہزاروں کی تعداد میں دہشت گرد کراچی کے ہر علاقے میں موجود ہیں۔
اس حوالے سے کراچی اور سندھ کے شہری یہ خطرہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ دوسرے صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں کراچی آنے کی وجہ سے کراچی میں آبادی کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کا نسلی تعلق پختون قومیت سے ہے اور پختون پہلے ہی سے کراچی میں پچاس لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں، جن میں اکثریت ان پرامن پختونوں کی ہے جو روزگار کے لیے کراچی میں آباد ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں دہشت گرد مارکیٹ سے زیادہ رقم دے کر مکانات خرید رہے ہیں اور مختلف کاروبار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ خدشات درست ہیں تو کراچی ایک سنگین صورت حال کی طرف بڑھ رہا ہے، جس پر اہل کراچی کی تشویش بجا بھی ہے منطقی بھی۔
سندھی قوم پرستوں کی طرف سے آئی ڈی پیز کی سندھ میں آمد کے خلاف مظاہرے ایک منطقی اقدام ہے لیکن باہر سے آنے والوں کا رخ چونکہ کراچی کی طرف ہے لہٰذا دانشورانہ حلقوں میں اس حوالے سے سخت تشویش پائی جا رہی ہے اور یہ حلقے سمجھ رہے ہیں کہ آئی ڈی پیز کے بھیس میں دہشت گردوں کی سندھ خصوصاً کراچی آمد کے خلاف مزاحمت میں سندھ دیہی کے ساتھ سندھ شہری کی شرکت ضروری ہی نہیں ناگزیر بھی ہے اور اس احتیاطی تحریک کی منصوبہ بندی سندھ دیہی اور سندھ شہری کو مل کر کرنا چاہیے، جس میں کراچی میں رہنے والے امن پسند پختونوں کی شرکت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے اے این پی کو بھی اس تحریک میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ اے این پی کراچی میں پختون برادری کی نمایندگی کرتی ہے اور کراچی میں امن کی خواہاں ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اس حوالے سے ہمیشہ نااہلی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہیں، افغان مہاجرین کی آمد کے وقت جس نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان مہاجرین سارے پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں بس گئے اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھاری رشوت دے کر بنانے میں کامیاب ہوگئے، اب وہ اس ملک کے باضابطہ شہری ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک بھی آزادی سے آتے جاتے ہیں۔
ایران میں بھی لاکھوں افغان مہاجرین آئے لیکن ایرانی حکومت نے انھیں علیحدہ کیمپوں میں رہائشیں فراہم کیں، انھیں ایرانی شہریت حاصل کرنے کے مواقع نہیں دیے اس لیے کہ ایرانی شہریت حاصل کرنے سے ایرانیوں اور افغان مہاجرین میں کشیدگی اور تصادم کے خدشات پیدا ہوسکتے تھے۔ اور یہ امکان اس لیے شدید ہوسکتا ہے کہ ایرانی اور افغانی کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے، جہاں کلچر میں اتنا بڑا فرق ہو وہاں تصادم ناگزیر ہوجاتا ہے، ایرانی حکومت نے اس قسم کے امکانات سے بچنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ ضروری تھے۔ لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ ایسی سیاسی بصیرت سے عاری ہے۔
آئی ڈی پیز نے پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے جو قربانیاں دی ہیں اس کا اعتراف ہر پاکستانی کر رہا ہے اور ان کی ہر طرح مدد بھی کی جا رہی ہے کیونکہ ان سے ہمارا قومی اور دینی رشتہ ہے لیکن ان کی آڑ میں دہشت گرد پاکستانی شہروں خصوصاً کراچی میں گھسنے کی جو کوشش کر رہے ہیں اس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ آئی ڈی پیز تو آپریشن کے کامیابی سے خاتمے کے بعد شمالی وزیر ستان واپس چلے جائیں گے لیکن دہشت گرد ہرگز واپس نہیں جائیں گے کیونکہ وہ پاکستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس لیے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے دیہی شہری کی تفریق کے بغیر سارے شہریوں کو متحد ہونا پڑے گا اور کراچی میں جو لوگ اس اتحاد کی کوششیں کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔