مقامی حکومتی نظام کیوں اور کس لیے
حقوق انسانی کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے 17 سے 20 جولائی تک کراچی کا دورہ کیا
لاہور:
حقوق انسانی کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے 17 سے 20 جولائی تک کراچی کا دورہ کیا اور سیاسی جماعتوں سمیت مختلف شراکت داروں کے علاوہ انتظامیہ کے اداروں کے سربراہاں سے بھی ملاقات کی۔
اس کے بعد پیر 21 جولائی کو اس تفتیش کی روشنی میں تنظیم کے سیکریٹری جنرل آئی اے رحمان نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تنظیم کی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ برس ستمبر سے جاری آپریشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ پیر ہی کو HRCP نے صحافیوں، قلمکاروں اور سول سوسائٹی کے نمایندوں کے ساتھ مقامی حکومتی نظام کے بارے میں مشاورتی نشست کا بھی اہتمام کیا، جس میں سوائے چند ایک اعتراضات کے مجموعی تصور یہی تھا کہ مقامی حکومتی نظام کو فوری طور پر جاری کرنے سے ملک کو درپیش بیشتر مسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔
HRCP کی جانب سے جو تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے، اس نے ہمارے ایک برس سے جاری موقف کو درست ثابت کر دیا ہے، جس کا اظہار ہم ان صفحات پر مسلسل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران وزیر اعظم نے کراچی آپریشن کے حوالے سے تین سے چار مرتبہ گورنر ہائوس کراچی میں مختلف شراکت داروں کے ساتھ مشاورت کی اور ان کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی۔ ہر بار انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بعض مراحل پر کچھ مثبت نتائج کے باوجود متذکرہ آپریشن کی کامیابی کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں ہونے والی مشاورت میں صحافیوں کی جانب سے آپریشن کی ناکامی پر کھل کر اظہار کیا گیا، جب کہ بعض تاجر نمایندے تو پھٹ پڑے اور انھوں نے شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوج طلب کرنے تک کا مطالبہ کر دیا۔ وزیر اعظم سے کراچی آپریشن کے حوالے سے اب تک ہونے والی مشاورتی میٹنگوں میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کا مختصر اعادہ یہاں ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے آپریشن شروع کیے جانے سے ایک روز قبل یعنی 4 ستمبر کو مختلف شراکت داروں کے ساتھ الگ الگ ملاقات کی۔ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی مشاورت میں کراچی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد کے صحافی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
اس مشاورت میں صحافی رہنما مظہر عباس، ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹر کمال صدیقی اور راقم نے مجوزہ آپریشن (اس وقت) کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارا ایک دوسرے سے تقریباً ملتا جلتا موقف یہ تھا کہ جب تک پولیس Depoliticise نہیں ہوتی اور انتظامیہ میرٹ پر فیصلے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی، مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ راقم کا یہ بھی کہنا تھا کہ رینجرز کو پولیس کی مدد کے لیے ضرور استعمال کیا جائے، لیکن اسے پولیس کے اختیارات تفویض کرنے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، ان پر قابو پانا حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔
دوسری ملاقات 5 اکتوبر کو ہوئی، جس میں صرف کراچی کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار شریک ہوئے۔ ایک بار پھر راقم نے وزیر اعظم کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ آپریشن کے نتیجے میں پولیس کی زیادتیوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہ بے گناہ لوگ کو تنگ کر رہی ہے۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس بھاری رشوت کے عوض ملزمان کے خلاف چالانوں میں لگائی جانے والی تعزیراتی شقوں میں رد و بدل کر رہی ہے، جس کی وجہ سے ملزمان کے خلاف قائم مقدمات کی سنگینی کم ہو جانے کے باعث ان کی ضمانتیں اور رہائی آسان ہو رہی ہے۔
ان کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ رینجرز کے اہلکاروں پر بھی بدعنوانیوں اور زیادتیوں کی شکایات موصول ہو رہی ہیں، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم سے درخواست کی گئی کہ مقامی حکومتی نظام کے قیام میں اگر آئینی پیچیدگیوں کے سبب تاخیر ہو رہی ہے تو بڑے شہروں کم از کم کراچی میں فوری طور پر پولیس کمشنریٹ کا نظام قائم کر دیا جائے، تا کہ پولیس خاصی حد تک بااختیاری کے ساتھ خدمات سرانجام دے سکے۔لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نہ مقامی حکومتی نظام کے ذریعے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی میں دلچسپی رکھتی ہیں، بلکہ اس کے خلاف مزاحمت بھی کرتی ہیں۔
وقت اور حالات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مقامی حکومتی نظام کی سب سے بڑی داعی تحریک انصاف بھی خیبر پختونخوا میں ایک سال گزر جانے کے باوجود یہ نظام متعارف کرانے میں مسلسل پس و پیش سے کام لے رہی ہے، جس سے اس نظام میں اس کی عدم دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ دوسری طرف سندھ میں قوم پرست جماعتیں بعض از خود پیدا کردہ خدشات کو بہانہ بنا کر اس نظام کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ یوں پاکستان میں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی اور شراکتی جمہوریت کے فروغ پانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل ذہنیت ہے۔
اگر جدید دنیا میں نظم حکمرانی کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو اچھی حکمرانی جمہوری اقدار کے فروغ اور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی سے مشروط ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں ایک طرف نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا، وہیں پوری دنیا میں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے لیے راہ ہموار ہونا شروع ہوئی۔ حالانکہ سرد جنگ کے پورے دور میں امریکا اور سوویت یونین دونوں ہی نے اپنے اپنے بلاک کے ممالک میں فوجی آمریتوں کی سرپرستی کر کے تیسری دنیا کے آزاد ہونے والے بیشتر ممالک میں آزادی اظہار کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی۔
لیکن جمہوریت کا وہ سورج جو سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں طلوع ہوا تھا اور جسے اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس نے مہمیز لگائی تھی، تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے علاوہ غریب و مفلوک الحال انسانوں کے دل کی آواز بھی بن گیا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اقتدار و اختیار ریاست کی نچلی ترین سطح تک منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان ممالک کی مرکزی حکومتوں نے خارجہ پالیسی، دفاع، کرنسی اور مواصلات کے علاوہ باقی اختیارات نچلی سطح کے یونٹوں کو منتقل کرنا شروع کر دیے۔ اس طرح عوام کی ترقیاتی منصوبہ سازی میں براہ راست شراکت میں اضافہ ہونے لگا۔
اس وقت دنیا کی کامیاب جمہوریتوں میں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے ذریعے عدم مرکزیت کا تصور مستحکم ہو رہا ہے۔ لیکن تیسری دنیا کے ان ممالک میں جہاں قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی جڑیں گہری ہیں، وہاں اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔ پاکستان بھی ایسا ہی ایک ملک ہے، جہاں فیوڈل معاشرت کی جڑیں خاصی گہری ہونے کی وجہ اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود سیاسی جماعتیں بنی ہوئی ہیں۔
حالانکہ ہر فوجی حکومت نے اپنے تئیں ایک مقامی حکومتی نظام دیا، جس کی وجہ سے سماج کی نچلی ترین سطح پر ترقیاتی کام دیکھنے میں آئے، مگر جب جب سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں، انھوں نے ان نظاموں کو لپیٹ کر اقتدار و اختیار کی بدترین مرکزیت قائم کی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاسی حکومتوں کے دور میں عوام کو نچلی سطح کی ترقیاتی منصوبہ سازی سے دور رکھ کر دراصل ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔
یہ طے ہے کہ پائیدار امن اور سماجی ڈھانچہ کو مختلف نوعیت کے چھوٹے بڑے جرائم سے نجات دلانے میں مقامی حکومتیں فعال کردار ادا کرتی ہیں، خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں مختلف عقائد، لسانی و ثقافتی پس منظر اور قومیتی تشخص کے حامل افراد تیز رفتار معاشی سرگرمیوں کا حصہ ہوتے ہیں، انھیں نوآبادیاتی یا دیہی انتظامی ڈھانچے کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا۔ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ جرائم جنھوں نے کراچی میں 1990ء کی دہائی میں سر اٹھانا شروع کیا تھا، اب لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور حیدرآباد میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔
لہٰذا جب تک ایک فعال، متحرک اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر با اختیار مقامی حکومتی ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا جاتا، پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی عزم و بصیرت کو بروئے کار لائیں اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے NRB کے متعارف کردہ مقامی حکومتی نظام کو مناسب ردوبدل اور جمہوری تبدیلیوں کے ساتھ نافذ کر دیں۔ اس عمل میں جتنی تاخیر ہو گی، ملک و قوم کا اتنا ہی زیادہ نقصان ہو گا، جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔