وجدان کے مسافر اور امیر خسرو

"ذکر" کی روایت ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ روایت اسلام سے پہلے بھی موجود رہی ہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

لاہور:
"ذکر" کی روایت ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ روایت اسلام سے پہلے بھی موجود رہی ہے۔ مگر"سماع" اپنے جوہری انداز میں خالصتاً اسلام سے منسلک ہے۔ امام غزالیؒ نے اسکو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے "ذکر" اور "سماع" کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔ برصغیر میں اسلام "صوفیا" کی بدولت عام لوگوں تک پہنچا۔ صوفیاء کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے ہمارے دین کو لوگوں کے لیے آسان اور سہل بنا کر پیش کیا۔ ان صوفیا کے علم میں تھا کہ برصغیر میں لوگوں پر موسیقی کی گہری چھاپ ہے۔ چنانچہ ان عظیم لوگوں نے اس روایت کو بھی اپنے اندر سمونے کی بھر پور کوشش کی۔

حضرات خواجہ معین الدین چشتیؒ نے سماع کی روایت کو قوالی کی شکل دینے پر بہت سنجیدگی سے کام کیا۔ وہ سماع اور قوالی کو دین کی ترویج کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان کے بعد یہ طریقہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ قوالی میں خدا، انبیاء کے سردار محمدِ عربی ﷺ اور ان کے رفقاء کار کا ذکر انتہائی جذباتی اور پر تاثیر طریقے سے کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ سماع اور قوالی میں جذب کی وہ کیفیت آ جاتی تھی کہ انسان اپنے حال سے بے نیاز ہو کر ایک اور دنیا میں داخل ہو جاتا تھا۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ محفل سماع سنتے ہوئے ایک ایسی کیفیت میں چلے گئے کہ ان کی روح جسم کی قید سے آزاد ہو گئی۔ مسعود سعد سلمان نے حضرت امیر خسرو سے تقریباً ایک صدی پہلے لاہور کے دو نامور سماع برپا کرنے والوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ حضرت معین الدین چشتیؒ کے زمانے کے لوگ تھے اور ان کے مریدین میں شامل تھے۔ ان کا نام میاں حسام الدین نگاہی اور میاں صلاح الدین درگاہی تھا۔ یہ دونوں پر تاثیر لوگ ہر جگہ محفل سماع منعقد کرتے تھے۔

آج کی قوالی اور اس کی ساخت حضرت امیر خسرو کے دم قدم سے ہے۔ ابوالحسن یامین الدین خسرو حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک تھے۔ برصغیر پاک و ہند پر ان کی فکری چھاپ بہت مضبوط نظر آتی ہے۔ وہ پٹیالے میں پیدا ہوئے۔ وہ ترک نسل تھے۔ آج ان کے قصبہ کا نام بھی "امیر خسرو نگر" رکھ دیا گیا ہے۔ امیر خسرو خوش قسمت تھے کہ عملی زندگی کے اوائل ہی سے انھیں دولت اور عزت و تکریم سے نوازا گیا۔ اس وقت تک وہ اپنا پہلا دیوان"تحفتہ۔س۔صگر" مکمل کر چکے تھے۔ بلبن کا بیٹا"بگرا خان" ان کے کلام سے بہت متاثر ہوا۔ وہ انھیں کچھ عرصے کے لیے بنگال لے گیا۔ مگر کچھ ماہ بعد امیر خسرو پھر دہلی واپس آ گئے۔

وہاں انھیں بلبن کے بڑے صاحبزادے"محمد"نے ملتان آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ وہ ملتان چلے گئے۔ امیر خسرو ملتان سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ ملتان پانچ برس رہے۔ اسی اثناء میں منگول حملے کے خلاف انھوں نے بطور سپاہی سلطان محمد کی فوج میں شمولیت بھی اختیار کی۔ ایک جنگ میں امیر خسرو کو منگولوں نے گرفتار کر لیا۔ پر کسی طریقے سے وہ اس قید سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں تاریخ کے تواتر سے نکل کر یہ عرض کرونگا کہ امیر خسرو دربار دہلی سے بہت دیر تک وابستہ رہے۔ انھوں نے اپنی عمر میں سات سلاطین کے دربار میں کام کیا۔


فیروز خلجی وہ بادشاہ تھا جس نے امیر خسرو پر دولت اور عزت کے تمام دروازے کھول دیے۔ وہ ان کا بہت بڑا قدردان تھا۔ ابوالحسن سے امیر خسرو کا سفر انھوں نے فیروز خلجی کے دربار میں طے کیا۔ انکو "امیر خسرو" کا لقب فیروز خلجی نے عطا کیا تھا۔ اس دربار میں امیر خسرو نے بہت خوبصورت غزلیں لکھیں جو اس زمانے میں زبان زد عام ہو گئیں۔ مگر اس سے پہلے وہ اپنی پہلی مثنوی "قران الصادین" مکمل کر چکے تھے۔ امیر خسرو کی تخلیقی قابلیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ وہ 3310 اشعار کی مثنوی "متاعِ انوار" صرف پندرہ دن میں مکمل کر چکے تھے۔

یہ تمام مثنوی خدا کی محبت پر مبنی تھی۔ ان کی دوسری مثنوی"شیریں" چار ہزار اشعار پر مشتمل تھی۔ اسی طرح "لیلیٰ مجنوں"، "آئین سکندری" اور "ہشت بہشت" ان کے نایاب کارنامے تھے۔ یہ شاعری کے نادر اور دقیق کام آج تک اَمر ہیں۔ مبارک شاہ کے زمانے میں انھوں نے "نو سپہر" مکمل کی۔ اس مثنوی میں نو آسمانوں کا ذکر کیا گیا۔ اس کے نو مختلف حصے تھے۔ اس میں امیر خسرو نے برصغیر کے تمام حالات بیان کیے۔ انھوں نے اس خطہ کے پھول، پودے، موسم، نظام اور اس وقت کی زندگی کے تمام جزئیات موتیوں میں پرو دیے۔ اس زمانے میں انھوں نے"اعجازِ خسروی" تحریر کی جسکے پانچ حصے تھے۔ میں اس نایاب شخص کے متعلق کیا کیا لکھوں اور کیا کیا حصہ چھوڑ دوں! ایک کالم میں امیر خسرو کو بیان نہیں کیا جا سکتا!

امیر خسرو کا نام آج تک علم موسیقی میں ان کے حیرت انگیز تجربات کی وجہ سے زندہ ہے۔ وہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہو چکے تھے۔ روایت کے مطابق "فنافی الشیخ" کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ قوالی کی صنف کو امیر خسرو نے اپنے مرشد کی اطاعت اور مرضی سے انمول بنا دیا۔ انھوں نے مختلف نئے راگ ترتیب دیے۔ آج کا ستار اور طبلہ، صرف اور صرف اس مردِ عظیم کی کاوش اور ایجاد ہے۔ انھوں نے اپنی اکثر قوالیاں بھاگیشری، سوہنی، بہار، اور بسنت راگوں میں بنائیں۔ نظام الدین اولیاء کے حکم پر انھوں نے بارہ خوش الحان گائیکوں کی ایک ٹولی ترتیب دی۔ ان تمام کو سماع کی نازک جزئیات سکھائیں۔ اس میں سے آج صرف پانچ نام محفوظ ہیں۔ میاں سمات، حسن ساونت، بہلول، تاتر اور فغانی اس بارہ کی ٹولی میں شامل تھے۔

اس فن نے سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں تک کا سفر بڑے آرام سے کیا۔ شاہ جہاں کے دور میں دو بہت مشہور قوال گزرے ہیں۔ ان کا نام "رضا" اور "کبیر" تھا۔ حضرت بہاوالدین ذکریا بھی صوفی موسیقی کی مکمل فہم رکھتے تھے۔ تاریخ کی پیچیدہ گزرگاہوں سے نکل کر آپ آج کے زمانے میں آ جائیے۔ آپ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں۔ آپکو موسیقی کی اس صوفی روایت سے عشق کرنے والے مل جائینگے۔ یہ عشق خدا اور رسول ﷺ کی چاہت میں ڈوب کر گائی جاتی ہے۔ یہ ہر خاص و عام پر کیفیت اور مستی کا سماع باندھ دیتی ہے۔ قوالی ہمارے صوفیاء کا ایک بہت موثر طریقہ رہا ہے جو انھوں نے ترویج دین کے لیے مقامی حالات کے مطابق اختیار کیا تھا۔ آپ البرٹ وکٹر ہال لندن اور نیو یارک کے موسیقی کے اجتماعات میں انگریزوں کو قوالی سننے کے دوران "حال" پڑتے دیکھیں گے۔

مجھے اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اسلام میں کئی فرقے "محفل سماع" سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس روایت کے خلاف ٹھوس دلائل بھی موجود ہیں۔ مگر میں کسی بھی دینی بحث کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ میں عالم دین نہیں ہوں۔ میں تو ایک سادہ سا مسلمان ہوں جسے اپنے دین سے عشق ہے۔ آج بھی جب چالیس برس پہلے گائی ہوئی قوالی "مدینہ چلو" غلام فرید صابری کی آواز میں سنتا ہوں، تو تمام لوگوں کی طرح میری آنکھوں سے بھی اشک رواں کا سیلاب بہہ نکلتا ہے۔

میرے جیسا عاجز اور گناہ گار مسلمان بھی اپنے اندر ایک ایسی کیفیت محسوس کرتا ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی! مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ "محفل سماع" سننے والے اس راہ فنا کے لوگ ہیں جنکی منزل خدا سے وابستگی اور حب رسول ﷺ ہے۔ یہ جذب میں ڈوبے ہوئے مسافر ہیں جو عشق کے قافلہ میں شامل ہو کر زندگی کے دریا کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ وجدان کی شاہراہ پر سفر کرنے والے آبلا پا لوگ ہیں جو خدا سے صر ف اور صرف رحمت کے طلبگار ہیں! وہ عشق کی بیساکھی سے منزل پر پہنچنے کی کوشش کرنے میں مصروف ہیں! وہ روز حشر کے حساب و کتاب میں صرف شفاعت کے طلبگار ہیں!
Load Next Story