ہپاٹائٹس ایک خاموش قاتل…

ڈاکٹر ارشد الطاف پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ ہیں، انھوں نے پاکستان اور امریکہ میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے



لاہور: ڈاکٹر ارشد الطاف پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ ہیں، انھوں نے پاکستان اور امریکہ میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔ انھوں نے Injection Safety کے شعبے میں تحقیق اور پالیسی امور پر خاصا کام کیا ہے۔ان کے متعدد تحقیقاتی مقالے بین الاقوامی رسائل میں شایع ہو چکے ہیں ، انھیں ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی بطور ایک ماہر کے شرکت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔وہ آج کل آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی سے منسلک ہیں۔

پاکستان صحت کی بے شمار مشکلات کا شکار ہے جن میں ہیپاٹائٹس انفیکشن سب سے اہم ہے۔ یہ خون کے ذریعے پھیلنے والا انفیکشن ہے جس سے کہ جگر ناکارہ ہو کر کام چھوڑ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ کینسر بھی ہو سکتا ہے جس کا اگر علاج نہ کیا جائے تو موت واقع ہو سکتی ہے۔ ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس (WHA) کے مطابق اس وقت ایک اندازے کے مطابق 170 ملین (سترہ کروڑ) لوگ دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔

پاکستان میں 2007ء کے ایک سروے کے مطابق یہاں4.9 فیصد پاکستانی ہیپاٹائٹس سی کے مریض ہیں اور اگر ان کی تعداد کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ تقریباً 9 ملین یعنی 90 لاکھ پاکستانی بنتے ہیں جو کہ انیس کروڑ کی آبادی میں ایک بڑی تعداد ہے۔

جیسا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی میں بہت سی علامات مشترک ہیں لیکن ان میں فرق بھی کافی ہے۔ اس حوالے سے ایک مثبت بات یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس بی کے علاج کے لیے ایک ویکسین تیار کر لی گئی ہے تاہم ہیپاٹائٹس سی کے لیے نہ تو فی الوقت کوئی ویکسین موجود ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی تیاری ممکن دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ اس کا وائرس مائیکروبیالوجی کی فطرت رکھتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی پر بڑی حد تک قابو پانے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاہم انھیں تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔

یہ ویکسین سرکاری مراکز سے مفت حاصل کی جا سکتی ہیں جب کہ اسے میڈیسن کی دیگر دکانوں سے قیمتاً بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں ہیپاٹائٹس سی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس مہلک مرض کا پھیلنا بہت تشویشناک امر ہے۔ یہ بات مد نظر رہے کہ ہیپاٹائٹس سی اب خاموش قاتل نہیں رہا یہ انسان کو اوائل عمر میں لگ کر اس کی پوری زندگی' صحت' دولت' سماجی تعلقات اور خاندان کے رشتوں کو مسخ کر دیتا ہے۔

ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے آج 28 جولائی کو منایا جا رہا ہے جیسا کہ ورلڈ ہیپاٹائٹس سی کا عالمی یوم بھی آج 28 جولائی کو منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بھر میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے جن میں اس مرض کی روک تھام کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی کاوشوں اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے کتنے مریضوں کا علاج کیا گیا۔ ان تقریبات میں جہاں معالجوں سے ان کی کامیابی کے طریقوں کے بارے میں پوچھا جائے گا وہاں علاج سے شفایاب ہونے والے مریضوں کے تاثرات بھی حاصل کیے جائیں گے جس میں وہ ان تنظیموں کا شکریہ ادا کریں گے جنہوں نے ان کا بلا معاوضہ علاج کیا۔

ان تقریبات میں کامیاب معالجوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس حوالے سے سندھ میں وزیراعلیٰ کا ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام ایک مثال ہے جس کے تحت ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے تاہم اس حوالے سے پرانی کہاوت زیادہ قابل غور ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کا مرض مختلف وجوہات کی بنا پر لاحق ہوتا ہے جس میں ٹیکہ لگانے کی بے احتیاطی اور غیر محفوظ طریقے سے انتقال خون شامل ہیں اس کے علاوہ دیگر بھی کئی وجوہات کی بنا پر یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے جن میں چھوٹی بڑی سرجری' ناک کان وغیرہ کا چھیدوانا اور شیو کے لیے کسی نائی کی دکان پر جانا اور اس سے گندے استرے یا بلیڈ سے حجامت کروانا۔ نیز یہ مرض ماں سے بچے کو بھی لگ سکتا ہے۔ جسم پر ٹیٹو بنوانا بھی کوئی محفوظ بات نہیں۔

غیر محفوظ انجکشن:

غیر محفوظ انجکشن کی ذمے داری ان ڈاکٹروں پر عائد ہوتی ہے جنھیں جی پی یا جنرل پریکٹشنرز کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے تو تربیت یافتہ ایم بی بی ایس یا نرسیں یا پیرا میڈیکس بھی نہیں ہوتے۔ وہ لوگ صرف پیسے کمانے کے لیے انجکشن لگاتے ہیں کیونکہ اس طرح مریض کو کسی درد سے فوری طور پر چھٹکارا مل جاتا ہے حالانکہ اس صورت میں مریض کو ٹیکہ لگوانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کو منہ سے بھی دوا دی جا سکتی ہے۔

یہ لالچی لوگ ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال بھی کرتے ہیں۔ ان کے مریض بھی بالعموم پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ لہٰذا انھیں ان نام نہاد معالجوں کی بدنیتی کا ادراک نہیں ہوتا اور وہ انجانے میں خطرناک بیماریوں میں مبتلاہو جاتے ہیں۔ ایک مستند ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس کے پاس آنے والے زیادہ تر مریض ایسے ہوتے ہیں جو نیم حکیم جیسے معالجوں کا شکار ہو کر ہمارے ہاں پہنچتے ہیں اور یہ روش دیہی علاقوں میں بہت عام ہے۔

انتقال خون میں بے احتیاطی:

بے احتیاطی سے انتقال خون کے نتیجے میں بھی ہیپاٹائٹس سی کی بیماری بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں کسی حد تک محفوظ طریقے سے انتقال خون کا انتظام ہو سکتا ہے لیکن دیہات اور چھوٹے قصبوں میں ایسا ممکن نہیں۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں انتقال خون کے لیے قابل بھروسہ مراکز میں جدید آلات ہوتے ہیں جن کے ذریعے ہیپاٹائٹس سی کا ابتدائی درجے پر ہی پتہ چلا کر علاج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں' قصبوں اور دیہات میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں لہٰذا انتقال خون کے موقع پر زیادہ احتیاط نہیں کی جاتی۔ نیز خون دینے والوں کی اپنی صحت بھی مشکوک ہو سکتی ہے۔

ہیپاٹائٹس سی کی روم تھام:۔

ہیپاٹائٹس سی کو روکنے کے لیے کیونکہ حفظان صحت کے معاملات صوبوں کے سپرد کر دیے گئے ہیں لیکن اس سلسلے میں قومی ہیلتھ سروسز کی طرف صوبوں کے ساتھ تعاون کی کمی ہے۔ اس حوالے سے نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت کو قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ صوبوں کے ساتھ تعاون کے ذریعے ان کی مدد کی جا سکے۔ یہی نہیں بلکہ صوبائی وزرائے صحت کو بھی اپنے طور پر قواعد و ضوابط وضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اشتراک عمل کو مؤثر بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں ضلعوں اور قصبوں کی انتظامیہ بھی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات پر توجہ دینی ہو گی۔

1... غیر محفوظ انجکشن اور ناتجربہ کار جعلی ڈاکٹرز کا سدباب کرنا ہو گا اگر ایم بی بی ایس ڈاکٹرز بھی غیر محتاط طریقے کا مظاہرہ کریں گے تو ان کی بھی تادیب کی جانی چاہیے اور انھیں کسی ناخوشگوار واقعہ کا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

2... اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خود بخود ناکارہ ہو جانے والی اے ڈی سرنجیں تیار کر لی گئی ہیں جو ایک دفعہ ٹیکہ لگانے کے بعد دوسرا ٹیکہ لگانے کے قابل نہیں رہتیں۔ اس سے بھی مہلک مرض کے پھیلنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

3... کمیونٹی اور مریضوں کو یہ تلقین کرنی چاہیے کہ غیر محفوظ انجکشن اور انتقال خون سے اجتناب برتیں۔

4... بڑے شہروں کے بعد محفوظ انتقال خون کی سہولتوں کو دیہات اور قصبوں تک وسیع کیا جانا چاہیے۔

5... پیشہ ور خون بیچنے والوں کی بجائے رضاکارانہ طور پر دیا جانے والا خون استعمال کرنا چاہیے۔ اور رضاکارانہ خون کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ بم دھماکوں اور اس قسم کی دیگر کارروائیوں کی وجہ سے خون لگوانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

اس مضمون کا مقصد ہیپاٹائٹس سی کے خطرات کو کم کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالنا ہے اور ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد کو بے حدکم کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں