دو عیدیں…
میرے سامنے ایک تصویر ہے یہ تصویر فیس بک پر میرے ا یک عزیز دوست نے میری وال پر پوسٹ کی ہے
لاہور:
میرے سامنے ایک تصویر ہے یہ تصویر فیس بک پر میرے ا یک عزیز دوست نے میری وال پر پوسٹ کی ہے اس تصویر کا عنوان ہے ،'غزہ میں افطار' اس تصویر میں ایک خاندان کے کچھ افراد افطار کے لیے جمع ہیں۔ان افراد میں کوئی مرد نہیں ہے کیونکہ اس گھر کے مرد یا تو جام شہادت نوش کرچکے ہیں یا پھر غزہ کی تیر و تار ملبے سے اٹی گلیوں میں اپنی فرسودہ بندوقوں ،تھوڑے سے پتھروں اور اپنے جذبہ ایمانی کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس میں فتح کا امکان تو بہت دور کی بات ہے عید الفطر تک زندہ رہ جانا بھی بڑے نصیب کی بات ہوگی۔
اس تصویر میں ایک بوڑھی عورت جس کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ تصویر میں واضح نہیں آسکے کیونکہ یہ ہاتھ بری طرح کانُپ رہے ہیں ۔اس خاتون کے بائیں طرف ستے ہوئے چہروں والی سترہ اٹھارہ برس کی دو بچیاں دوزانو بیٹھی ہیں جن کے چہرے بتا رہے ہیں کہ دنیا ان کے لیے اندھیر ہوچکی ہے۔ انھیں کے سامنے آٹھ دس برس کی دو بچیاں ہیں ان کے ننھے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی روٹیاں ہیں انھیں بچیوں کے ساتھ سر اور گردن کو پوری طرح ڈھانپے ایک عورت بیٹھی ہے جس کا چہرہ تو پوری طرح نمایاں نہیں ہے مگر تصویر میں اتنا ضرور نظر آتا ہے کہ وہ سراپا رنج و ملال ہے، اسی خاتون کے قریب بارہ پندرہ برس کی ایک اور بچی بیٹھی ہے جس کو تصویر نے پشت کی جانب سے دکھایا ہے اس کے علاوہ اس تصویر میں دو بچے بھی ہیں جن کی عمریں سات برس سے زیادہ نہیں ہیں۔
یہ بڑے ہی خوش نصیب بچے ہیں کہ غزہ میں ابھی تک اپنی ماں بہنوں اور دادی یا نانی کے پاس موجود ہیں کیونکہ انھیں کی عمروں کے بلکہ ان سے بھی چھوٹے ڈیڑھ سو سے زیادہ بچے خاک و خون میں نہا کر اپنی اپنی ننھی منی قبروں میں پہنچ چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی پورے زور شور سے جاری ہے کیونکہ اس کو روکنے کی طاقت دنیا میں کسی کے پاس نہیں ۔۔اور جن کے پاس یہ قوت موجود ہے ان کے خیال میں ان کا قتل بالکل جائز ہے ۔
ان سب کے درمیان افطار کے لیے نان و نمک موجود ہے یعنی ایک روٹی فرش پر رکھی نظر آتی ہے اور دوسری ایک چھوٹی سی ٹرے میں رکھی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں دو نمک دانیاں اور چار سرخ پھل جو غالبا سیب ہیں ۔اس تصویر میں چار کھیرے بھی نظر آرہے ہیں۔کانپتے ہاتھوں سے دعا مانگتی بوڑھی عورت کے چہرے پر صرف ایک ہی تاثر ہے اور وہ ہے غم ...ڈھیروں غم ۔دو ننھے منے بچوں میں سے ایک بچہ جس کے چہرے پر دکھوں اور پریشانیوں کے گہرے سائے ہیں وہ تصویر بنانے والے کی طرف دیکھ رہا ہے۔
اس کی آنکھوں میں ایک سوال ہے 'کیا آپ ہمارے لیے کچھ کرسکتے ہیں'...کیا آپ ہمیں قتل ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔تصویر میں آوازیں نہیں ہوتیں سو اس تصویر میں بھی دکھیاری عمر رسیدہ عورت کی دعا کی غم میں ڈوبی ہوئی آواز نہیں ہے ۔اس تصویر میں ان مسلسل دھماکوں کی دل دہلانے والی آوازیں بھی نہیں ہیں جو غزہ میں ہر وقت چہار جانب سنائی دیتی ہیں ۔
دوسرا منظر بالکل مختلف ہے ۔یہ کراچی کا ایک شاپنگ مال ہے یہاں رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔ملک میں بجلی ہو یا نہ ہو اس شاپنگ مال کا گوشہ گوشہ جگمگا رہا ہے۔ خوبصورت لباسوں میں بہت ساری خوش شکل عورتیں عید کے لیے ملبوسات کی خریداری میں مصروف ہیں۔ان کے شریر اور صحت مند بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو اپنے لیے نئے جوتے،خوبصورت لباس اور قیمتی کھلونے خریدنے میں مگن ہیں ۔ان بچوں کے ساتھ ان کے ابو بھی ہیں جن کی جیبوں میں کریڈٹ کارڈز موجود ہیں یعنی وہ جو چاہیں خرید سکتے ہیں۔بیگمات اور بچوں نے کئی کئی سوٹ خرید لیے ہیں اور اب وہ میچنگ کے جوتے پرس اور چوڑیاں خرید رہے ہیں۔
عید بہت قریب ہے۔بہت ہی قریب یعنی صرف ایک دو دن کے فاصلے پر ۔وہ جی بھر کے خوشیاں سمیٹنا چاہتے ہیں وہ اس عید کو ایک یادگار عید بنانا چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کی مسرتوں سے اپنی جھولیاں بھر لیں کیونکہ یہ ان کا حق ہے ۔ماہ صیام کی عبادتوں کے بعد عید کی خوشیاں تمام مسلمانوں کا حق ہیں۔وہ عید کے دن جی بھر کے شیر خورمہ کھائیں۔نئی موویز اور عید اسپیشل ڈرامے دیکھیں گے ،خوب ہلا گلا کریں گے کیونکہ میٹھی عید سال میں ایک ہی دفعہ تو آتی ہے۔
یہ دونوں مناظر میرے سامنے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے ان میں سے کس کے ساتھ عید منانی ہے ۔