قاسمی صاحب کا کرشمہ

ہمارے بزرگ صحافی کتنے مشّاق تھے۔ کتابت نام کے ایک سیدھے سے کام میں کتنے رنگ پیدا کر لیتے تھے


ڈاکٹر فاروق عادل February 24, 2025
farooq.adilbhuta@gmail.com

بڑھاپے میں بال سفید ہو جاتے ہیں۔ کیا واقعی سفید ہو جاتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا بھی چاہیں تو شاید نہ دے سکیں۔ بڑھاپے میں بال سفید نہیں ہو جاتے، ان کی اصل بدل جاتی ہے۔

وہ سیاہ نہیں رہتے۔اچھا، وہ جب سیاہ تھے تو کیا واقعی سیاہ تھے؟ ان کی سیاہی پر ہلکا سا کوئی سایہ نہ تھا؟ تھوڑا نارنجی، تھوڑا سنہری، ذرا سا نیلگوں؟ تو بات یہ ہے کہ جو بات مجھے کہنی ہے، اسے کہنا آساں نہیں۔ عطا الحق قاسمی کا فن آج چھ سات دہائیوں کا سفر طے کرنے کے بعد جہاں جا پہنچا ہے، اسے کوئی عنوان دینا دشوار ہو گیا ہے۔

ان کی کتاب'کہا سنا معاف' کا معاملہ ہو تو دشوار تر۔ یہ کچھ اسی قسم کا حادثہ ہے جو اصغر ندیم سید کے ساتھ پیش آیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ قاسمی صاحب کے کالم میں ڈرامہ ہوتا ہے۔ یہ لکھتے لکھتے انھیں شاید احساس ہوا کہ جو بات وہ کہنی چاہتے ہیں، اس کا حق ادا نہیں ہوا لہٰذا کہا کہ ان میں کسی سیریل کا خاکہ یا خلاصہ ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اصغر ندیم سید چوں کہ ڈرامہ نگار ہیں، اس لیے وہ جو کہنا چاہتے ہیں، وہ ان کے ذہنی سانچے کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ ہمارے تجربے اور پس منظر کا جبر ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے قاسمی صاحب کو مزاح نگار کہہ دیا جائے۔ وہ مزاح نگار تو ہیں لیکن صرف مزاح نگار نہیں ہیں۔ ان کے مزاح میں مزاح کے ساتھ کوئی چیز اور بھی ہے۔ ہم تن آسانی سے کام لیتے ہیں، اس چیز کے بارے میں غور نہیں کرتے، مزاح نگاری جیسی پیش پا افتادہ ترکیب سے کام چلا لیتے ہیں جیسے میرا معاملہ ہے۔ اخبار کو میں نے جاننا شروع کیا تو صفحہ دو پر حاشیے میں دانے دار کتابت میں ایک مختلف تحریر دیکھی۔ جاں نثار اختر یاد آتے ہیں۔ انھوں کیسی مشکل بات کس آسانی کے ساتھ کہہ دی تھی

زلفیں، سینہ، ناف، کمر

ایک ندی میں کتنے بھنور

ہمارے بزرگ صحافی کتنے مشّاق تھے۔ کتابت نام کے ایک سیدھے سے کام میں کتنے رنگ پیدا کر لیتے تھے۔ کتابت کیا ہے؟ کسی تحریر کو کسی خط کے قاعدے سے لکھ ڈالنا۔ اخبار میں خط کا ایک ہی قاعدہ تھا لیکن قاعدے کے بہت سے رنگ تھے۔ ذرا جلی اور نالی چھوڑ کے لکھا تودیکھنے پڑھنے والے نے دیکھتے ہی سمجھ لیا یہ اداریہ ہے۔

دائیں بائیں سے بھری بھری بلکہ جگہ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ہوس کے ساتھ لکھا ہوا پایا تو صاف سمجھ میں آ گیا کہ یہ تو خبر ہے لیکن اگر صفحہ دو پر دانے دار حاشیے میں دانے دار کتابت میں کچھ دکھائی دیا تو اسے دیکھتے ہی سمجھ میں آ گیا کہ یہ کالم ہے اور وہ بھی عطا الحق قاسمی کا۔

میں اخبار سے متعارف ہوا تو میں نے اخبار کے یہی رنگ دیکھے۔ قاسمی صاحب کے کالم کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی میرے ذہن میں اسی قسم کی باتیں آتی ہیں۔ آج زندگی کی چھ بہاریں دیکھ لینے اور لکھنے والوں کے لکھے کے بہت سے رنگ دیکھ لینے کے بعد ایمان داری سے کہتا ہوں کہ یہ بات نہ مکمل ہے اور نہ مکمل طور پر درست پھر بات کیا ہے؟ممکن ہے کہ یہ گھتی خلد آشیانی اشفاق احمد سلجھا سکیں۔ انھوں نے جھیل سیف الملوک اور اس کے حسن کو دیکھا تو دنگ رہ گئے پھر انھوں نے کوشش کی کہ اس کو بیان کریں۔ یہ بیان ہو سکتا کہ اس مشکل کو آسان کر دے۔

ذرا تصور کریں کہ جھیل کے حسن اور اس حسن کے سحر نے آپ کو مکمل طور پر گرفت میں لے لیا ہے۔ شام کے سائے دراز ہو رہے ہیں۔ اب لازم ہے کہ جو کچھ دیکھا ہے، اسے آنکھوں میں بھر کر واپس لوٹ چلیں لیکن آپ واپس جانا نہیں چاہتے۔ سوچتے ہیں کہ پریوں کے اس دیس میں رات، کم از کم ایک رات تو گزار ہی لیں لیکن واپسی اٹل ہے اور آپ واپس ہو لیتے ہیں، اس دوران میں آپ کے ذہن اور دل میں کشمکش برپا ہو جاتی ہے۔

اشفاق احمد نے اس کشمکش کا جو حال بیان کیا ہے، نثر میں شاید ہی کوئی اس مرتبے کو چھو پایا ہو۔ جھیل پشت پر ہے۔ قدم اس کے بلند کناروں سے ترائیوں کی طرف اتر رہے ہیں، ان جادوئی مناظر سے قدم بہ قدم دور ہوتے جانے کا دکھ جسم و جاں میں سماتا جا رہا ہے۔ اس دکھ کی تنہائی سے گھبرا کر کوئی مسافر کہتا ہے کہ یار، کیا تھا کہ یہ رات ہم وہیں بسر کر لیتے۔ میں نے تو جھیل کے عین سر پر پہاڑ میں ایک کھو تلاش کر لی تھی۔ کمر ٹکانے کے لیے اس میں اخبار بچھا دیے تھے پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔ خاموشی چلتی جاتی ہے۔

یوں خاموشی سے چلتے چلتے کسی دوسرے مسافر کے دل میں ہوک اٹھتی ہے اور وہ آہ بھر کر کہتا ہے کہ یار! کیا ہوتا اگر رک جاتے؟ اس نے تو رات بتانے کے لیے جگہ بھی تلاش کر لی تھی۔' کون سی جگہ؟'کھو کی کھوج لگانے اور اس میں اخبار کا بستر بچھانے والا چونک کر سوال کرتا ہے۔ 'کون سی کھو، کون سا بستر؟' کوئی تیسرا ٹھندی سانس لے کر اسے یاد دلاتا ہے کہ ابھی تو تم نے بتایا تھا لیکن بتانے والا صاف انکار کر دیتا ہے کہ میں نے کب بتایا تھا۔ حسن کا جادو اور خاص طور پر جھیل سیف الملوک کے حسن کا جادو اسی طرح سر چڑھ کر بولتا ہے۔ '

' کہا سنا معاف' میرے ہاتھ میں ہے اور پڑھتے پڑھتے میں سو گیا ہوں۔ شاید واقعی سو گیا ہوں یا سوتے میں پڑھ رہا ہوں، یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں شاید یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا عطا الحق قاسمی مزاح نگار ہیں؟ یہ سوال میرے ذہن میں کیوں آیا؟ عطا صاحب کا ایک کالم ہے 'آپ کون ہیں؟'یہ زبردستی کے ایک دوست کی کہانی ہے جیسے زبردستی کے دوست ہمارے، آپ کے، سب کے ہوتے ہیں۔ اس دوست کا مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے۔

اسے یہ خیال مارے جاتا ہے کہ اس کی یاداشت کمزور ہو چکی ہے۔ یاداشت کی کمزوری سے انسان پر کیسا کیسا وقت آ جاتا ہے، اس کالم کی یہی کہانی ہے۔ اصغر ندیم سید درست کہتے ہیں۔ یہ کہانی نہیں ڈرامہ ہے۔ ڈرامے میں جیسا ہوتا ہے، زندگی اپنی تمام تر رنگینی، مضحکہ خیزی اور ستم ظریفی کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے کہ ایک روز 14 اگست کا دن طلوع ہو جاتا ہے اور ڈرامے کا ہیرو سوچتا ہے کہ کیوں نہ اس مبارک دن کو شایان شان طریقے سے منایا جائے۔ وہ خاموشی سے بازار جا کر ایک کیک خرید کر گھر لاتا ہے پھر دوستوں کو مدعو کرتا ہے کہ آئیے!آج کا دن منائیں۔ دوست آ تو جاتے ہیں لیکن اسے لعنت ملامت کرتے ہیں اور ناراض ہو کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا یہ سادہ دل پاکستانی 16 دسمبر کو 14 اگست منانے کے درپے تھا۔

آسانی سے کام لیں تو بنا بنایا سانچا یہی بتاتا ہے کہ قاسمی صاحب نے مزاح سے کام لیا ہے۔ نفس مضمون سے بھی یہی واضح ہے لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے، کیا یہ مزاح ہے؟اچھا، مزاح نہیں تو پھرکیا ہے؟ یہ سوال پریشان کر دیتا ہے۔ یہ پریشانی کچھ اسی قسم کی پریشانی ہے جس سے میں دوچار ہوں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں، وہ کیا لکھ رہے ہیں؟ اشفاق صاحب کے سیف الملوک کے سفر کا ماجرا میں نے 1981-82 میں پڑھا ہو گا لیکن اس جادو بیانی کا تھوڑا راز مجھے اب سمجھ آیا ہے یا سمجھ میں آ رہا ہے۔

قاسمی صاحب سے میرے تعارف اور اُن کے مطالعے کا معاملہ شاید اس سے بھی پرانا ہے لیکن ان کا راز بھی سمجھئے کہ اب تھوڑا تھوڑا کھلنا شروع ہوا ہے۔ بات یہ ہے کہ کچھ چیزوں کو بھرپور جاننے کے باوجود ان کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن جب ان ناقابل بیاں حقیقتوں کے بیان کا کرشمہ رونما ہونے لگے تو بات سانچوں میں سماتی نہیں کچھ ایسی ہو جاتی ہے جیسی 'کہا سنا معاف'میں پڑھنے کو مل رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں